0
Thursday 24 Nov 2011 20:49

طالبان سے مذاکرات سعی لاحاصل

طالبان سے مذاکرات سعی لاحاصل
تحریر:تصور حسین شہزاد
 
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کی طرف سے ان خبروں کی تردید کی گئی ہے کہ انہوں نے حکومت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی کر دی ہے۔ ترجمان کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں بدھ کے روز تھانہ دربن کلاں پر حملہ جنگ بندی کی خبروں کی واضح تردید کرتا ہے۔ اس حملے میں دو پولیس اہلکار جاں بحق اور تین زخمی ہوئے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھی طالبان سے کسی نوع کے مذاکرات کی دو ٹوک تردید کی تھی۔ قبل ازیں ایک امریکی خبر رساں ادارے نے طالبان کے ایک سینئر کمانڈر کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک طالبان نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس خبر کو اس لیے بھی اہمیت دی جا رہی تھی کہ تحریک طالبان پاکستان نے اکتوبر سے پاکستان میں کوئی بڑا حملہ نہیں کیا۔
 
طالبان سے مذاکرات کے حامی سیاسی اور صحافتی حلقے حسب روایت مبینہ مذاکرات کے دوران حملوں کا سلسلہ تھمنے کو مذاکرات کے طریقہ کار کی کامیابی قرار دیں گے۔ اگرچہ اس امکان کی نشاندہی کرنے کی زحمت نہیں کی جائے گی کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں یہ حملے رکتے ہیں تو یقیناً ان حملوں میں طالبان کے فرستادہ افراد کا ہاتھ تھا۔ ایک اور اہم بات کہ طالبان ہوں یا کوئی اور دہشتگرد گروہ، انہوں نے ہمیشہ اپنا موقف مغربی میڈیا کو ہی کیوں دیا ہے، مغربی میڈیا تسلسل سے یہ الزام عائد کرتا آ رہا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی قیادت پاکستان میں موجود ہے، لیکن بات وہ مغربی میڈیا سے کرتے ہیں ان دہشتگردوں نے کبھی بھی پاکستان کے کسی اخبار یا ٹی وی چینل سے بات نہیں کی۔ بیانات کی یہ یکطرفہ ٹریفک دال میں کچھ کالا کی نشاندہی کر رہی ہے۔
 
طالبان رہنماؤں کے بیانات میں تضاد سے اشارہ ملتا ہے عسکریت پسند گروہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ تاہم یہ امر واضح ہے کہ عسکریت پسندوں میں دھڑے بندی کے باوجود ان میں فکری اشتراک اور تنظیمی رابطے موجود رہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض گروہوں کی طرف سے تعاون اور جنگ بندی کا عندیہ دے کر ابہام پیدا کرنے کا مقصد متعلقہ علاقوں میں فیصلہ کن ریاستی کارروائی کو ممکنہ حد تک التوا میں رکھنا بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی سیاسی اور معاشرتی سوچ سے اتفاق کرنے والے حلقوں نے 2003ء ہی سے یہ مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی بجائے ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ 

دوسری طرف طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے خواہاں حلقوں کا مؤقف ہے کہ طالبان نے اس قسم کے مذاکرات اور عارضی جنگ بندیوں کو اپنے لیے وقت حاصل کرنے نیز متعلقہ علاقوں پر اپنی گرفت مزید مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ طالبان کے ساتھ پہلا معاہدہ شکئی میں طالبان کمانڈر نیک محمد کے توسط سے 2004ء میں کیا گیا تھا جس کے مطابق نیک محمد کو افغانستان میں حملے کرنے سے باز رہنا تھا اور اپنے گزشتہ جرائم کی معافی کے بدلے میں غیر ملکی عسکریت پسندوں سے قطع تعلق کرنا تھا۔ نیک محمد نے امن معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا۔
 
2004ء ہی میں طالبان رہنما بیت اﷲ محسود کے ساتھ امن معاہدہ کیا گیا۔ بیت اﷲ محسود بھی معاہدے پر قائم نہیں رہا۔ ستمبر 2006ء میں جنرل (ریٹائرڈ ) علی محمد جان اورکزئی نے میران شاہ کے مقام پر اتمن زئی وزیر قبائل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ "معاہدہ وزیرستان‘‘ کے نام سے معروف اس سمجھوتے کے مطابق طالبان نے غیر ملکی عسکریت پسندوں کو علاقے سے باہر نکالنے اور سرحد پار افغانستان میں حملوں سے گریز کرنے پر اتفاق کیا۔ اس معاہدے کا نتیجہ یہ ہوا کہ طالبان تمام قبائلی علاقوں اور سوات میں پھیل گئے۔ اسی طرح کے مشکوک معاہدے مالا کنڈ میں صوفی محمد اور جنوبی وزیرستان میں ملا نذیر کے ساتھ کیے گئے۔ یہ معاہدے بھی مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے۔ ان معاہدوں کی آڑ میں دہشتگردوں نے پاکستان کو مطلوبہ سیاسی مہلت دینے کی بجائے جی بھر کر نقصان پہنچایا۔ 

طالبان کے ساتھ مذاکرات کی دہائی دینے والوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے ان ’’اپنے شہریوں‘‘ نے ریاست کی 20 ہزار مربع کلو میٹر زمین پر متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے اور وہاں بسنے والے 30 لاکھ پاکستانیوں پر ناصرف اپنا نیم پختہ مذہبی فہم مسلط کر رکھا ہے بلکہ بے پناہ جسمانی ایذا رسانی کے ذریعے ان سے مالی اور دوسرے ناجائز مفادات بٹور رہے ہیں۔ یہ لوگ اعلانیہ طور پر پاکستان کے آئین سے منحرف ہیں اور قانون شکنی کو جائز قرار دیتے ہیں، جمہوریت کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں اور پاکستانی قیادت کی بار بار تنبیہ کے باوجود یہ لوگ بین الاقوامی سرحدوں کی پامالی پر مصر ہیں۔
 
ان کی کارروائیوں کے باعث پاکستان کے 35 ہزار شہری شہید ہوئے ہیں۔ ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے اور ملکی معیشت بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث تباہی کے دہانے پر آپہنچی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ طالبان کی وجہ سے پاکستان کو بیرونی دنیا میں سخت خفت اٹھانا پڑ رہی ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنانا دراصل ان کی سیاسی اور معاشرتی سوچ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر کسی حلقے میں واقعتاً یہ تاثر موجود ہے کہ مذاکرات کی مدد سے اس عفریت پر قابو پایا جا سکتا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اپنی عملداری میں اس قسم کی مداخلت برداشت کرنے والی ریاست کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ 

افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا قریب آ رہا ہے۔ جس کے بعد واضح امکان ہے کہ پاکستانی طالبان کے حلیف افغانستان میں قوت پکڑیں گے اور اپنی میزبانی کے صلے میں پاکستانی طالبان کی مدد کے لیے بے چین ہوں گے۔ چنانچہ کہنا چاہیے کہ ان عناصر کے خلاف فیصلہ کن ریاستی کارروائی کی بجائے اس کشمکش کو طول دینا پاکستانی ریاست کی جڑیں کھودنے کے مترادف ہو گا۔ پاکستانی فوج کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان خوش آئند ہے، تاہم پاکستان کی جملہ سیاسی قوتوں اور صحافتی حلقوں کو بھی اس معاملے کے عواقب سمجھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 116884
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش