0
Thursday 22 Dec 2011 02:08

عراق کا سیاسی مستقبل، تابناک یا المناک؟

عراق کا سیاسی مستقبل، تابناک یا المناک؟
تحریر:طاہر یسین طاہر 

زخم خوردہ عراق اپنے زخموں کا مرہم تلاش کرے یا امریکی استعمار کے انخلا کا جشن منائے؟ امریکہ کا انبیاء کی سرزمین سے انخلا یقینا غیر معمولی واقعہ ہے۔ اسے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو پائے جن کے لیے وہ عراق پر چڑھ دوڑا تھا۔ شر کے بطن سے قدرے خیر کے چشمے پھوٹے۔ صدام کے عہد ستم رسیدہ میں جو الم شیعہ مسلمانوں پر ڈھائے جاتے تھے اور جس طرح کی فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی تھی امریکی قبضہ کے بعد اس میں قدرے کمی آئی۔ 

شیعہ سنی مسلمان عالمی استعماری طاقتو ں کے خلاف یکجان ہو گئے۔ امریکہ کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نے القاعدہ کا اپنا مزاحمتی گروپ تشکیل دے دیا۔ 22 فروری 2006ء کو امام حسن عسکری علیہ السلام کے روزہ اقدس پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں گنبد کو نقصان پہنچا۔ اس حملے کے نتیجے میں فرقہ ورانہ فسادات بھی ہوئے۔ عام لوگو ں کا یہ خیال تھا کہ یہ حملے امریکہ سے تعلق رکھنے والے ان مزاحمت کاروں نے کیے جو خطے میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے کر امریکی مفادات کی راہ ہموار کرتے ہیں اس افسوسناک واقعہ کے بعد اگرچہ فرقہ ورانہ فسادات ہوئے مگر امریکہ ان فسادات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا۔

امریکہ و اسرائیل کے نزدیک عراق میں استعماری طاقتوں کے خلاف برسرپیکار مزاحمت کاروں سے چھٹکارے کا واحد نسخہ فرقہ واریت ہے، مگر اسے اس حوالے سے ناکامی ہوئی سامرہ میں ہونے والے حملے کو شیعہ سنی علمائے کرام نے امریکی سازش قرار دے کر فرقہ ورانہ فسادات کے خطرے کو کم کر دیا، اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بہترین سیاسی فیصلہ تھا جس نے امریکی استعماری مقاصد کو زک پہنچائی۔ امریکی عراق کو تاراج کرنے کے بعد واپس چلے گئے، مگر یہ سوال بڑا اہم ہے کہ وہ فاتح کی حیثیت سے واپس گئے، یا شکست خوردہ ہو کر؟ دنیا جانتی ہے کہ عراق پر امریکی حملے کا مقصد تیل کی دولت پر قابض ہونا تھا، اس ظاہری علامت کے علاوہ وہ خطے میں آ کر دیگر عرب و مسلم ممالک پر بھی دباﺅ بڑھانا چاہتا تھا کیا یہ الم کم نہیں کہ عراق کے بربادی میں کئی عرب مسلم ممالک کی دولت بھی کام آئی۔ امریکہ نے عراق سے تیل حاصل کیا، اس جنگ کے ایک بڑے مقصد میں امریکہ بہرحال کامیاب ہوا اور وہ ہے مسلم نسل کشی۔ 

1991ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا تو اس کے نتیجے میں تین لاکھ عام عراقی شہری جاں بحق ہو گئے تھے اسی طر ح 2003ء کے حملے کے بعد سے عراق باڈی کانٹ نامی ایک تنظیم عراقی شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کا تخمینہ لگا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ تنظیم میڈیا کی رپورٹو ں، اور مردہ گھروں کے اعداد و شمار کی مدد حاصل کر رہی ہے۔ عراق باڈی کانٹ کے مطابق جولائی 2010ء تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 97461 اور ایک لاکھ چھ ہزار تین سو اڑتیس کے درمیان ہے، اسی تنظیم کے مطابق 2003ء کے ابتدائی حملے کے دوران میں عام شہریو ں کے ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ تنظیم کے مطابق مارچ کے مہینے میں 3977 عام شہری مارے گئے اور اگلے مہینے اپریل2003ء میں 3437 مزید شہری جاں بحق ہوئے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اندازے میں سطحوں کی تفاوت بہت سے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں فرق یا اس بات پر تضاد کے ہلاک ہونے والوں میں کتنے شہری اور کتنے عسکریت پسند تھے۔ 

دوسری جانب اقوام متحدہ سے حمایت یا فتہ عراقی فیملی ہیلتھ سر وے کے اندازے کے مطابق مارچ 2003اور جون 2006کے درمیان ایک لاکھ اکاون ہزار عام شہری ہلاک ہوئے جبکہ دی لانسٹ نامی جریدے نے 2006ء میں شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں عام عراقی شہریوں کی ہلاکتوں کا تخمینہ چھ لاکھ سے زیادہ لگایا تھا۔ اس امر میں کلام نہیں کے 2003ء میں امریکہ کے عراق پر کیے جانے والے حملے کے بعد عام عراقیوں کی ہلاکتوں کا جو تخمینہ لگایا جاتا ہے وہ قطعی درست نہیں۔ جس بربریت اور ظالمانہ بمباری کا نشانہ عراق کو بنا یا گیا اس کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد عام عراقی شہری جاں بحق ہوئے لاکھوں معذور اور ہزاروں بچے یتیم ہو ئے، سینکڑوں عورتیں بیوہ ہوئیں اور ہزاروں عصمت دری کا نشانہ بنیں۔ سارا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا جبکہ یہ خطرہ موجود ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد امریکی حمایت یافتہ القاعدہ کے مسلح گروہ پھر سے سر گرم ہو کر عراق کو خانہ جنگی کا شکار کر دیں۔

امریکی صدر کا یہ کہنا تو ہے کہ امریکی فوجیں انخلاء کے بعد اپنے پیچھے ایک خودمختار اور مستحکم عراق چھوڑ کر جا رہی ہیں مگر عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ طویل ترین جنگ کے بعد عراقی حکومت کا سیاسی ڈھانچہ اس قدر مضبوط نہیں کہ اگر امریکی حمایت سے فرقہ واریت کی لہر اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اسے روکا جا سکے اگرچہ ابھی تک عراق کے شیعہ سنی علماء نے فرقہ وارانہ فسادات کو کم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ جس جنگ پر امریکہ نے کم و بیش تین کھرب ڈالر سے زائد رقم خر چ کی اور اپنے پانچ ہزار سے زائد فوجیوں کو بھی مروا دیا جبکہ ایک امریکی صدر کے منہ پر جوتا بھی مارا گیا، وہ اس جنگ کے ادھورے نتائج سے مطمئن ہو کر بیٹھ جائے گا۔

عراق میں عدم استحکام کے لیے امریکہ فرقہ واریت کی نئی نئی جہتیں تلاش کر کے بغداد کو سلگائے رکھنے کی کوشش کرے گا۔ عراقی قیادت کو چہلم امام حسین علیہ السلام پر مزید چوکس رہنا ہو گا۔ معمولی سی غلطی بھی عراق کو ایسی تباہی کی طرف لے جائے گی جو امریکہ سات سالوں میں نہ لا سکا عراقی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرے عراق کے تعمیر نو کی ذمہ داری اب عراقی عوام کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور ایران پر بھی عائد ہوتی ہے عراق کا تابناک سیاسی مستقبل صرف اسی صورت نظر آتا ہے کہ اس کی سیاسی و مذہبی قیادت فرقہ واریت کسی بھی کو شش کو استعماری مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو نے دے اور ہوش مندی کا مظاہرہ کرے۔ 

امریکہ اور اس کے مقدس اتحادی کبھی نہیں چاہیں گے کہ عراق ایران تعلقات میں خوشگواریت رہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے لیے وہ القاعدہ کے عسکریت پسندوں کو ضرور استعمال کریں گے، جو مسلمانوں کے مقدس اور اہم مقامات کو نشانہ بنا سکتے ہیں یا پھر زائرین کی بسیں روک کر ماضی کی طرح ان پر اندھا دھند فائرنگ بھی کر سکتے ہیں عراقی مذہبی اور سیاسی قیادت کو یہ امر بھی یقینا پیش نظر رکھنا ہو گا اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی مسلم نسل کشی کے علاوہ خطے میں تبدیلی اور عراق کو تین حصو ں میں تقسیم کر نے کا مقصد تو حاصل نہ کر سکے مگر وہ اپنے مکروہ عزائم کے لیے نئے کھیل کھیلتے رہیں گے۔ ایران بالواسطہ تو امریکہ کے قابو میں نہیں آ رہا چنانچہ وہ عراق میں القاعدہ کے جنگجوﺅ ں کے ذریعے عالمی رائے عامہ اس کے خلاف کرنے کی کوشش کرے گا۔ تدبر مندانہ سیاسی فیصلے ہی عراق کو مشکل سے نکال سکتے ہیں ورنہ امریکہ پلٹ آنے میں دیر نہیں کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 124075
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش