0
Thursday 17 Nov 2011 20:01

تحریک انصاف کی داخلی و خارجی حکمت عملی

تحریک انصاف کی داخلی و خارجی حکمت عملی
تحریر:طاہر یاسین طاہر 

مقبولیت گاہے انسان کو بھٹکا دیتی ہے، کرکٹ اور سیاست دو بالکل الگ میدان ہیں، اگر عمران خان نے بھی یونہی الزامات کی سیاست کے سہارے عوام کو رام کرنے کی کوشش کی تو یہ ایک نیا المیہ ہو گا۔ لوگ حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں، ایسی تبدیلی جو چہروں کے بجائے نظام بدلے، معاشرے عدل و انصاف کی چھتری تلے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جبکہ بدعنوانی کی بیساکھیاں پورے معاشرے کے اپاہج اور مفلوج ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیاستدانوں کے نہ صرف اثاثوں کی چھان بین ضرور کی جانی چاہئے بلکہ اس حوالے سے بھی حقائق قوم کے سامنے لائے جانے ضروری ہیں کہ ان لوگوں نے یہ اثاثے کس طریقے سے بنائے اور کیوں کر ان کے اثاثوں میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا۔ اگر بھارت سوئس بینک کے بھارتی اکاﺅنٹس ہولڈرز سے کروڑوں روپے کی ابتدائی وصولی کر سکتا ہے تو پھر پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔؟ جب بات صدر زرداری اور نواز شریف کے اثاثوں کی آتی ہے تو عوامی جذبات کو مہمیز ملتی ہے۔
 
عمران خان نے انقلاب انقلاب کی تسبیح کرنے کے بجائے سیاستدانوں کے اثاثے ظاہر کرنے پر زور دیا اور وہ اسی کلیے کے تحت مزید مقبولیت بھی حاصل کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستانی معاشرہ بدعنوانی اور کرپشن کا ایک استعارہ بن چکا ہے۔ لوگوں کے جائز کام بھی نذر نیاز دیئے بغیر نہیں ہو رہے، ہر ادارے کا اہلکار یہ کہہ کر رشوت لیتا ہے کہ میں نے مال اوپر تک پہنچانا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی سیاستدان انقلاب کے بعد الٹا لٹکا دینے کے بجائے، اس بات پر زور دے کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور دیگر سیاستدان اپنے اثاثے ڈیکلیئر کریں تو یقیناً اس بات کو عوامی سطح پر بہت پذیرائی ملے گی۔ پوری پاکستانی قوم ایسا ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ 

ہم دیکھتے ہیں کہ گاہے مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی ایسے بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ حکمران اگر باہر کے بینکوں میں پڑے ہوئے اپنے اثاثے ملک میں لے آئیں تو غربت اور معاشی تنگی ختم ہو سکتی ہے۔ یعنی ن لیگ صرف صدر زرداری کے مبینہ سوئس اکاﺅنٹس کا تذکرہ کرتی ہے جب کہ عمران خان پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر شامل اقتدار و اپوزیشن سیاسی جماعتوں سے اثاثے ڈیکلیئر کرنے کا کہتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے تو یہ بھی کہا کہ سیاستدانوں کے اثاثوں کی چھان بین کے لئے وہ ایک سپیشل سیل بنائیں گے۔ یہ بلاشبہ ایک خوش آئند بات ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کے اس سیل کی تحقیقات کو عالمی و قومی سطح پر تسلیم کیا جائے گا۔؟ کیا اس سیل میں صرف تحریک انصاف کے پرجوش کارکن ہی تحقیقاتی کام کریں گے یا منظم طریقے سے لوٹی گئی ملکی دولت کی چھان بین کے لئے بین لااقوامی ماہرین کی مدد بھی لی جائے گی۔؟ یہ کام یقیناً بڑا مستحسن ہے، مگر اس کا طریقہ کار بھی اسی قدر صاف و شفاف ہونا چاہئے۔ خان صاحب ن لیگ اور پی پی پی کو چھوڑ کر تحریک انصاف کی طرف آنے والے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسندوں کو بھی قومی دھارے میں لانے کا سوچ رہے ہیں۔
 
اس امر میں کلام نہیں کہ لوگ دہشتگردی اور انتہا پسندی سے نہ صرف چھٹکارا چاہتے ہیں بلکہ اس سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ مگر خان صاحب ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ وہ انتہا پسندوں سے مذاکرات کریں گے، کیا ان گروہوں سے مذاکرات جو ریاست کے خلاف اعلان جنگ کر چکے ہیں اور جن کی وجہ سے ہزاروں معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں، کی ہمدردی اور پشت پناہی سے اقتدار کے حصول کا خواب دیکھ رہے ہیں۔؟ تحریک انصاف کے چیئرمین کا امریکہ مخالف رویہ بھی پاکستانیوں کو بہت بھاتا ہے مگر جب وہ امریکی مدد گاروں سے مذاکرات اور ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں تو اعتدال پسند پاکستانیوں کو فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقتدار میں آ کر دہشتگردوں کے خلاف جاری تمام آپریشنز بند کر دیں گے، مگر اس بات کا تذکرہ نہیں کر سکے کہ وہ خودکش دھماکوں پر کس طرح قابو پائیں گے۔؟ کیا داخلی سطح پر بدعنوانی، انتشار اور دہشتگردی کو وہ روایتی سیاستدانوں اور انتہا پسندوں کے ذریعے ختم کر دیں گے۔؟ میر تقی میر کا یہ شعر اس وقت ذہن و دل کو گدگدا رہا ہے۔
 
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
 
عمران خان اگر واقعی معاشرے میں تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہیں تو پھر انہیں انتہا پسندوں کے حوالے سے اپنی سوچ میں بھی تبدیلی لانا ہو گی۔ معاشرے کو ایک کلی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسی تبدیلی جو عام آدمی کی زندگی میں سکھ لا سکے، صرف صدر زرداری اور نواز شریف کے اثاثے ڈیکلیئر کرنے سے معاملات درست نہیں ہونگے، جب تک کہ انتہا پسندوں کے خاتمے کے لئے بھی کوئی موثر حکمت عملی طے نہیں کر لی جاتی۔ اپنے لاہور والے جلسے سے قبل قبائلیوں کی احتجاجی ریلی سے عمران خان کا خطاب ظاہر کرتا ہے کہ اب جبکہ امریکہ طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہے تو اسے باور کرایا جائے کہ پاکستان میں ایک تیسری سیاسی وقت تیزی سے ابھر رہی ہے جسے امریکہ آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ خیال رہے کہ محض سیاسی و انتقامی جذبے ہی کارگر ثابت نہیں ہوتے۔ تحریک انصاف، کرپشن، بدیانتی اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے بھی لائحہ عمل سامنے لائے۔ 

عمران خان کے اس مطالبے میں کوئی کلام نہیں کہ سیاستدان اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ مگر جو اڑ کر تحریک انصاف میں آ رہے ہیں وہ کیوں نہیں۔؟ خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف میں آنے والے سیاستدانوں کو خوش آمدید کہیں گے، مگر کیا پیشہ ور سیاستدان ویسی تبدیلی لا سکیں گے، جو عمران خان چاہتے ہیں یا وہ صرف کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچنے کی اپنی جدی پشتی روایت کو برقرار رکھنا چاہیں گے۔؟ معاملات پیچیدہ ہیں اور دلچسپ بھی، کیا عمران خان کے انتہا پسندوں سے مذاکرات امریکہ کو ڈرون حملے بند کرنے پر مجبور کر دیں گے۔؟ نہیں بلکہ مذاکرات کے بعد انتہا پسند اپنی بکھری قوت کو یکجا کر کے امریکہ کو جواز فراہم کریں گے کہ وہ ہمارے معاشرے کو مزید تباہ و برباد کرتے ہوئے خطے میں اپنے مذموم مقاصد کے قریب تر ہو جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اقتدار کی اڑان بھرنے سے پہلے عمران خان انتہا پسندی کے خاتمے اور روایتی سیاستدانوں سے بیزاری کے حوالے سے بھی اعتدال پسند پاکستانیوں کے تحفظات کو مدنظر رکھیں۔
خبر کا کوڈ : 114767
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش