0
Wednesday 8 Feb 2012 20:35

افغانستان، 2001ء اور 2012ء کا فرق

افغانستان، 2001ء اور 2012ء کا فرق
تحریر: رشید احمد صدیقی 

افغانستان میں طالبان کا ظہور 1994ء کی آخری سہ ماہی میں ہوا تھا، قندھار سے اچانک اٹھنے والا یہ طوفان دیکھتے دیکھتے پورے افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے گیا اور ستمبر 1996ء میں تقریباً دو سال کے عرصہ میں کابل پر فتح کا جھنڈا لہرایا گیا۔ طالبان کی اٹھان سے لے کر اقتدار تک کے عرصہ میں پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، جنرل نصیر اللہ بابر وزیر داخلہ تھے، یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی وزارت خارجہ کے بجائے وزارت داخلہ ہی چلاتی رہی ہے، نصیر اللہ بابر نے کبھی اس امر میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی ہے کہ طالبان ان کے لوگ تھے، ان کی قیادت 38 سالہ مُلا عمر کے ہاتھ میں تھی جس کو کبھی بھی کسی نے منظر عام پر نہیں دیکھا اور نہ سویت افواج کے خلاف جہاد کے دوران اس کا نام سننے میں آیا تھا۔

قندھار سے کابل تک یکے بعد دیگرے صوبے فتح کرتا ہوا یہ لشکر کابل کے دروازے پر ٹھہر گیا کیونکہ وہاں احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد کی افواج کی جانب سے اسے مزاحمت کا سامنا تھا، اس سے قبل تقریباً 16 صوبوں میں گل بدین حکمتیار کے لوگوں سے طالبان نے آرام سے اقتدار چھینا اور انھیں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا، ملا عمر کی تاریخ پیدائش 1960ء ہے۔ اس طرح کابل پر قبضہ کے وقت اس کی عمر 36 سال تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ 1979ء میں سویت افواج کی افغانستان میں آمد کے موقع پر وہ 19 کا نوجوان تھا، 1989ء میں سویت افواج کے افغانستان سے انخلاء کے وقت اس کی عمر بمشکل 29 سال تھی، ان نو سالوں میں وہ کبھی بھی معروف کمانڈر کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا۔

کابل پر قبضہ کے وقت ملا عمر اور طالبان کے پاس انتظامی امور کا کوئی تجربہ تھا، نہ بین الاقوامی میدان میں ان کا کوئی تعارف، ان کی زیادہ سے زیادہ پہنچ پاکستان کے دینی مدارس کے بڑے اساتذہ تک تھی، جن کا تعلق دیوبند مسلک سے تھا۔ دوسری جانب افغان جہاد میں شریک دو معروف جماعتوں حزب اسلامی حکمتیار اور جمعیت اسلامی ربانی میں افغانستان کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں اور پاکستان میں مقیم مہاجرین تھے۔ اس لحاظ سے طالبان ایک ریاست کا نظام چلانے کے لیے نووارد اور ناتجربہ کار تھے، ان کی حکومت نے آتے ہی وہاں پر مثالی امن قائم کیا، وہاں مالی ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کی یہ کمی اسامہ بن لادن کی القاعدہ نے پوری کر دی۔

اقتصادی طور پر تہی دامن طالبان حکومت کو دنیا نے قبولیت نہ دی تو وہ تنہائی کا شکار ہو کر رہ گئے، ایسے میں ان پر القاعدہ اور اسامہ بن لادن کی سخت گیر پالیسوں کی چھاپ نمایاں تھی۔ اس عالمی تنہائی میں ان کے بعض فیصلوں پر بین الاقوامی ردعمل بہت زیادہ شدید رہا، ایک طویل مدت کے بعد افغانستان میں اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہوئی تو جہاد مخالف قوتوں نے اسے مختلف مسائل میں گھیر لیا، یہ تجربہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ پہلے کیا گیا تھا۔ پہلے ہی دن سے اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے اس پر عراق کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی۔ لیکن ان کا کمال دیکھیں کہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران نوزائیدہ انقلاب میں باقاعدگی کے ساتھ انتخابات منعقد ہوتے رہے اور انھوں نے اپنے انقلاب کو پائیدار بنیادیں فراہم کیں جبکہ افغانستان میں ایسا نہیں ہوا۔

2001ء میں جب امریکہ افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوا، اس وقت طالبان کے امیر المومنین ملا عمر کا چہرہ بیرونی دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا تھا، افغانستان حکومت کے دنیا میں تین چار ممالک سے زیادہ کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ اس کی تجارت بیرونی دنیا سے نہ ہونے کے برابر تھی، ان کو باہر کی دنیا کی زبانیں نہیں آتی تھیں، انھوں نے اپنے مختصر دور اقتدرا میں کوئی اقتصادی خاکہ تک نہیں بنایا تھا۔ نظام کا کوئی بنیادی ڈھانچہ تک نہ تھا۔ آئین بنانے کے لیے کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ طالبان زیادہ تر نوجوان تھے اور ان کے پاس کوئی انتظامی تجربہ نہ تھا، پاکستان میں اس کے ہمدرد لیڈروں کی ترجیحات سیاسی تھیں۔

سیاست کا رخ بدلا تو ان کا قبلہ بھی بدل گیا، جن لوگوں پر ان کا سب سے زیادہ اعتماد تھا ان کا رویہ ایسا بن گیا جیسے وہ طالبان کو جانتے تک نہیں تھے، یہ اور اس طرح کے چند دوسرے امور ایسے تھے جن کی وجہ سے طالبان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا، ان کے جنگجووں کو لڑنے کا بھی اتنا تجربہ نہ تھا، وہ قندھار سے کابل پر قابض ہونے تک صرف دو سال لڑے تھے، بعد میں ریاستی قوت کے ساتھ انھوں نے چار سال جنگ میں گزارے۔ اب انھیں امریکہ جیسی طاقت کا مقابلہ کرنا تھا۔

لیکن آج گیارہ سال گزرنے کے بعد طالبان وہ ناتجربہ کار طالبان نہیں، حالات نے انھیں القاعدہ کے ساتھ ایسا نتھی کیا کہ اب دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا، انھوں نے پہاڑوں میں اسامہ کے جنگجوں کے ساتھ دس سال کی انتہائی سخت جسمانی تربیت حاصل کی ہے، اب وہ مدارس کے طالبان نہیں چٹانوں کے سخت جان گوریلے ہیں۔ وہ انتہائی تعلیم یافتہ عرب جنگوں کے ساتھ عربی اور انگریزی جان چکے ہیں، کمپیوٹر ٹیکنالوجی تک ان کو دسترس حاصل ہو چکی ہے۔ گوانتانا موبے میں انھیں پوری دنیا کے مسلمان قیدیوں کے ساتھ وقت گزارنے اور بین الاقوامی تعارف exposer حاصل کرنے کا موقع ملا، نظریاتی اور مسلکی طور پر وہ دیوبند مسلک کے دائرہ سے نکل کر سلفی عقیدہ کے قریب ہو گئے ہیں۔

حال ہی میں امریکہ کے نائب صدر جوئے بائڈن نے کہا تھا کہ طالبان ہمارے دشمن نہیں، القاعدہ ہماری دشمن ہے اور good and bad طالبان کا تصور ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اصل میں طالبان کو القاعدہ سے الگ کیا جانا امریکہ کی خام خیالی ہے، قطر مذاکرات میں جن طالبان قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ گوانتانا موبے میں قید پانچ طالبان رہنمائوں کی رہائی کے لیے جو سودا بازی ہو رہی ہے، طالبان کے پاس تو ایک دو ہی امریکی قیدی ہیں۔ اصل سودابازی کی قوت تو وہ امریکی تکنینکی ماہرین ہیں جو صومالیہ، یمن اور لیبیا میں القاعدہ کی قید میں ہیں اور جن کی تعداد درجن سے ہرگز کم نہیں ہے۔

آج امریکہ کو افغانستان میں جن طالبان سے واسطہ ہے، وہ 2001ء کے ان طالبان کے مقابلہ میں مکمل بدلے طالبان ہیں، وہ انتہائی کمزور اور یہ انتہائی طاقتور ہیں۔ القاعدہ اور وہ یک جان دو قالب ہیں، قطر یا دوسرے مقام پر مذاکرات سے القاعدہ کو منفی کیا جانا دوسرے فریق کی جانب سے سنگین غلطی ہو گی۔ لیکن ان کو اس کی اطلاع بھی ہے اور ادراک بھی۔ یہ مذاکرات اصل میں ایک دوسرے کے عزائم معلوم کرنے اور نفسیاتی جنگ کا ایک حصہ ہے۔ اصل میدان افغانستان ہی ہے اور فیصلہ یہیں پر ہو گا، حتمی فیصلے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔

مذاکرات کی مثال اکھاڑے میں اترے پہلوانوں کی ہے، جنھوں نے پنجے میں پنجہ ڈالا ہوا ہے اور ایک دوسرے کی قوت بازو معلوم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ابھی کسی نے کوئی دائو آزمایا نہیں ہے۔۔۔ البتہ ہوا کے رُخ کا پتہ لگ گیا ہے۔ اس میں تیزی امریکی انتخابات کی وجہ سے آنے کی توقع اور بات ہے۔ افغانستان کی جنگ اب اعصاب شکن مرحلے میں ہے، طالبان اور القاعدہ اس معاملے میں خاصے انتھک اور سخت جان واقع ہوئے ہیں جبکہ امریکہ کی اقتصادیات اور سیاسی مجبوریاں شائد زیادہ طویل مدت تک اس جنگ کو برداشت نہ کر سکیں۔
خبر کا کوڈ : 136332
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش