0
Sunday 22 Nov 2009 13:08

پاکستان میں سی آئی اے کی مذموم مداخلت

پاکستان میں سی آئی اے کی مذموم مداخلت
امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹا نے گذشتہ روز صدر آصف علی زرداری،وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ڈی جی،آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی نے لیون پینٹا کو پاکستان میں سی آئی اے کی مداخلت اور دہشت گردوں کی معاونت کے ثبوت پیش کئے جبکہ صدر آصف علی زرداری نے بعض امریکی اخبارات اور خفیہ اداروں کی طرف سے پاکستان میں القاعدہ اور طالبان قیادت کی موجودگی کے پروپیگنڈے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
گذشتہ ایک ماہ کے دوران وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن،جیمز جونز اور ہالبروک کے علاوہ سی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹا کی پاکستان آمد بذات خود اہم واقعہ ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ امریکی عہدیداروں کے تسلسل کے ساتھ دوروں کو افغانستان کے بارے میں اوبامہ انتظامیہ کی تشکیل پذیر حکمت عملی اور پاکستان پر دباﺅ بڑھانے کی نئی کوششوں کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ان دوروں میں القاعدہ اور طالبان قیادت کی کوئٹہ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں موجودگی کا ذکر بھی ہوتا رہا جبکہ امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر طالبان قیادت کی موجودگی کو ہدف تنقید بنایا۔ ہلیری کلنٹن نے تو اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ حکومت پاکستان ملا عمر اور طالبان شوریٰ ارکان کی کوئٹہ میں موجودگی سے بے خبر ہے؟ جیمبز جونز اوبامہ کا جو خط صدر آصف علی زرداری کے نام لے کر آئے،اس میں بھی ڈو مور کا مطالبہ کیا گیا تھا حالانکہ پاکستان اس وقت اپنی سلامتی اور خود مختاری کو داﺅ پر لگا کر امریکی جنگ میں شریک ہے،نہ صرف دہشت گرد گروپ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں اور انہیں بھارت کھلم کھلا مالی و اسلحی مدد فراہم کر رہا ہے بلکہ ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ بھی اسکی خود مختاری کو پامال کر رہا ہے۔گذشتہ روز صدر آصف علی زرداری نے بھی لیون پیٹنا سے ملاقات میں یہ مسئلہ اٹھایا،اس کے باوجود امریکہ کی طرف سے پاکستان کی کارکردگی اور نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ اوبامہ انتظامیہ بھی بش کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور پاکستان کے بارے میں اس کے اصل عزائم کچھ اور ہیں۔
یہ حقائق منظر عام پر آچکے ہیں کہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران شدت پسندوں کے زیر استعمال امریکی ہتھیار ملے،مبینہ طور پر ایک امریکی ہیلی کاپٹر کے ذریعے شدت پسند قیادت کو ریسکیو کر کے افغانستان پہنچایا گیا جبکہ بلوچستان کی علیحدگی پسند قیادت کابل میں سرکاری میزبانی سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ ”را،موساد،رام اور سی آئی اے کا اشتراک عمل بھی کسی سے مخفی نہیں جبکہ پاکستان میں ایک نجی امریکی تنظیم بلیک واٹر کی سرگرمیاں بھی مشکوک ہیں،اسلام آباد میں اعلیٰ فوجی افسروں کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اس تنظیم کے ارکان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔پشاور میں کئی بم دھماکوں کے بعد دو امریکی مسلح باشندے پکڑے گئے جن سے محب وطن حلقوں کی طرف سے ظاہر کئے گئے خدشات کی تصدیق ہوتی ہے کہ سی آئی اے پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک رسائی کیلئے کسی گہری اور دور رس پالیسی پر عمل پیرا ہے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے علاوہ سیاسی بد امنی میں کسی نہ کسی حد تک اس سازشی تنظیم کا ہاتھ ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق گذشتہ روز ڈی جی آئی ایس آئی نے اگر واقعی سی آئی اے کے سربراہ کو دہشت گردی کے واقعات میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کئے ہیں،تو اسے جرات مندانہ اور دور اندیشانہ اقدام قرار دیا جائیگا۔ امریکہ بھارت کے ساتھ جس قسم کے تعلقات قائم کر چکا ہے،اس کے پیش نظر یہ بعید از قیاس امر نہیں کہ پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے کاندھے پر رکھ کر بندوق بھی سی آئی اے اور ”را“ کے ایجنٹ چلا رہے ہوں اور بلوچستان کے علاوہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کر کے مذموم مقاصد کا حصول یقینی بنایا جا رہا ہو۔پاکستان اپنے اسلامی تشخص،ایٹمی پروگرام،مسئلہ کشمیر کے یو این قراردادوں کے مطابق حل پر اصرار اور چین کے ساتھ گہرے روابط کی وجہ سے بھارت کی طرح امریکہ کا ٹارگٹ ہے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شرکت کے باوجود امریکہ کی اسلام و پاکستان دشمنی میں کسی قسم کی کمی نہیں لا سکا،البتہ امریکہ کو اس جنگ کی وجہ سے یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ پاکستان کو مزید کمزور اور مفلوج کر سکے۔جو عناصر پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں،وہ امریکی سی آئی اے کیلئے نعمت غیر مترقبہ ہیں،اس طرح وہ پاک فوج کو اپنے ہی شہریوں کے ساتھ لڑا کر کمزور کرنے کا ہدف بھی حاصل کر رہا ہے اور دنیا کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر انتہا پسندوں کے قبضے کا ہوّا دکھا کر خود کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں بھی آگے بڑھا رہا ہے۔
اب جبکہ پاکستان سی آئی اے کی مداخلت کے ثبوت امریکہ کو پیش کر چکا ہے،تو ایک طرف نہ صرف دشمنی پر مبنی اس پالیسی کی وجہ سے ہمیں امریکہ سے تعلقات اور دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں ”گوڈے گوڈے“ دھنسی پالیسی پر نظرثانی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے بلکہ ملک کو امریکی سی آئی اے کے ایجنٹوں سے پاک کرنے کیلئے بھی موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاک فوج کو فی الفور یہ ٹارگٹ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بلوچستان و قبائلی علاقوں کے علاوہ اسلام آباد میں سی آئی اے ایجنٹوں کےخلاف آپریشن کلین اپ کرے اور امریکہ پر واضح کردیا جائے کہ اب کسی غیر دوستانہ مخاصمانہ حکمت عملی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائیگا،یہ ہماری آزادی،خودمختاری،سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کا معاملہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔آئی ایس آئی کو کمزور کرنے کی امریکی کوششوں کا مقصد بھی سی آئی اے کی اصل اور مکروہ سرگرمیوں پر پردہ ڈالنا اور اس کی مداخلت سے توجہ ہٹا کر کارروائیاں جاری رکھنا تھا اس لئے حقیقی مقاصد اور عزائم سامنے آجانے کے بعد ہمیں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہئے اسی میں ہماری بقاء ہے،ورنہ امریکی سی آئی اے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی پالیسی جاری رکھے گی جس کا تلخ تجربہ پاکستان کو 1971ء میں بھی بخوبی ہو چکا ہے۔جب امریکی سفیر فارلینڈ نے بھارت کی مدد کی اور پاکستان دولخت ہو گیا۔
خبر کا کوڈ : 15527
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش