0
Sunday 13 May 2012 07:29
امریکہ و نیٹو کا پاکستان کیساتھ مزید تلخ رویہ اور دھمکیوں میں اضافہ

فضائی سپلائی بھی بند کرکے امریکہ کو دوٹوک جواب دیا جائے

فضائی سپلائی بھی بند کرکے امریکہ کو دوٹوک جواب دیا جائے
نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے پاکستان سے نیٹو کی فوری طور پر سپلائی بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سپلائی کی بحالی پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے۔ پاکستان سے مثبت تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ شکاگو کانفرنس کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راسموسن نے کہا کہ پاکستان کو اس میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔ جب تک پاکستان نیٹو سپلائی بحال نہیں کرتا، اس کا افغان مسئلہ میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔ 

دریں اثنا امریکی سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ جان کیری نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ اگر پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مزید تعاون نہ کیا تو اسے نتائج بھگتنا پڑینگے۔ پاکستان کی طرف سے نیٹو سپلائی کی جزوی بندش نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں پر نزع کی کیفیت طاری کر رکھی ہے۔ قبل ازیں امریکہ کے ڈومور کے تقاضوں میں شمالی وزیرستان میں فوجی اپریشن سرفہرست تھا۔ اس پر زیادہ زور اس لئے نہیں دیا جا رہا کہ نیٹو سپلائی کی بندش سے افغانستان میں مبینہ دہشتگردی کی جنگ شدید متاثر ہو رہی ہے۔ 

دوسرے شمالی وزیرستان میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے اپریشن سے انکار پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اپریشن کے متبادل کے طور پر ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا ہے جو پاکستان کی خودمختاری کے سراسر خلاف ہیں۔ پاکستانی افواج بالخصوص پاک فضائیہ کے کسی بھی غیرملکی جہاز کو پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی پر گرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ اس حوالے سے دو مرتبہ مشترکہ قرارداد بھی منظور کر چکی ہے۔
 
نیٹو کے سیکرٹری راسموسن کا یہ بیان کہ سپلائی لائن کی بحالی تک افغان مسئلے میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور نہ ہی اسے شکاگو کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونا چاہیے۔ ایک طویل عرصے تک امریکی مفادات کا تحفظ کرکے، 40 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی قربانی دے کر اور پانچ ہزار سے زائد فوجی شہید کرا کے ہم نے امریکہ کی جو خدمت کی ہے، راسموسن اور کیری کا بیان اس کا غیرمنطقی نتیجہ ہے۔
 
دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ ابتداء سے ہی عوام کی امنگوں کے برعکس تھا، لہٰذا آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستانی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا اور یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا اس جنگ میں شریک رہا جائے یا اس لعنت سے جان چھڑالی جائے؟ پاکستان نے گزشتہ گیارہ سال میں امریکہ کی ہر جائز و ناجائز خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنے ہی عوام کیخلاف فوجی اپریشن کیا، توقع تھی کہ اس تمام تر کارروائی کے بعد امریکی و نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی کا عمل مکمل ہوتے ہی افغان امن کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کے کردار کا اعتراف کیا جائیگا مگر امریکی فوجی قیادت نے کسی ممکنہ کردار کی نفی کا اعلان کرکے اپنے مخفی مذموم ارادوں کا اظہار کر دیا ہے۔ 

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکہ افغانستان میں بھارت کو وہی کردار تفویض کرنا چاہتا ہے جس کی ایک قریبی ہمسائے کی حیثیت سے اور برادر اسلامی ملک ہونے کے ناتے پاکستان کی جائز خواہش ہے۔ امریکہ بھارت حالیہ 30 ارب روپے کا دفاعی معاہدہ بھی اس کا کھلا ثبوت ہے کہ امریکہ خطے میں بھارت کو مضبوط کر رہا ہے، تاہم یہ امر باعث تسکین ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جو آجکل برطانیہ کے دورے پر ہیں، نے راسموسن کے بیان کا دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو کی سپلائی کے حوالے سے کوئی پیشگی شرط قابل قبول نہیں ہے۔ 

امریکہ ایسی ہی جرات مندانہ زبان سمجھتا ہے، لہٰذا پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کی منظور شدہ سفارشات اور اپنے موقف کے دفاع میں سخت اور کڑا لہجہ اپنائے رکھے؟ امریکہ انتہائی ڈھٹائی سے نہ صرف سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ پر معافی مانگنے پر آمادہ ہے، نہ ڈرون حملے روکنے پر۔ بلکہ ہر روز کانگریس یا ایوان نمائندگان میں ایک نیا بل لا کر پاکستان پر دباﺅ بڑھائے رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آرمڈ سروسز کمپنی کی طرف سے منظور شدہ بل کے تحت سپلائی روٹ کھلنے تک تمام ادائیگیاں روک دی گئی ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔ 

اب تو امریکہ یہ کہتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں کرتا کہ افغانستان میں ہلاک ہونے والے ہر امریکی کے عوض پانچ کروڑ ڈالر کی امداد میں کٹوتی کی جائیگی۔ امریکہ کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستانی افواج کو کرائے کی فوج سمجھتا ہے۔ پاکستان جو امریکی اور نیٹو افواج کے تحفظ کیلئے اپنے فوجیوں اور معصوم عوام کی زندگیاں داﺅ پر لگا رہا ہے۔
 
دوسری طرف امریکی فوجیوں کی تربیت کے دوران انہیں اسلام دشمنی کا سبق دیا جاتا ہے جو نہ صرف کھلا تضاد ہے بلکہ یہ مسلمانوں کیخلاف امریکہ کی گہری نفرت کا اظہار بھی ہے۔ اندریں حالات امریکہ سے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے کا وقت آپہنچا ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور ایک ایسا لائحہ عمل طے اور اختیار کرنا چاہیے جس سے پاکستان کے مفادات کا تحفظ بھی ممکن ہو سکے اور ایسے فیصلے کرنے میں آسانی ہو، جو عوامی امنگوں کے مطابق ہوں۔ عالم اسلام میں امریکہ کیخلاف نفرت جس شدت سے بڑھ رہی ہے، ہماری قیادت کو اس کا ادراک ہونا چاہیے اور کسی صورت بھی امریکی مفاد کو تحفظ دینے کیلئے اپنے قومی مفاد کو بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔
 
جان کیری نے پاکستان کو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مزید تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی اور نیٹو سیکرٹری راسموسن نے رعونت آمیز رویہ اختیار کیا ہے۔ اسکے تناظر میں کیا ضروری نہیں ہو گیا کہ پاکستان امریکی ڈرون حملوں کی صورت میں پاک فضائیہ کی ڈرونز گرانے کی صلاحیت آزما لے؟ اسکے ساتھ ہی نیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے پاکستان کی پارلیمنٹ نے جو شرائط رکھی ہیں، امریکہ ان کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو نیٹو کی جزوی سپلائی جو فضائی راستے سے جاری ہے، مکمل طور پر بند کر دی جائے۔ 

جنرل ڈیمپسی نے امریکی فوجیوں کو اسلام کیخلاف پڑھائے جانیوالے نصاب کی تحقیقات کا حکم دیا ہے، جس میں دفاع پاکستان کونسل کے مطابق مکة المکرمہ اور مدینہ منور کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی ہے۔ جنرل ڈیمپسی کیا اتنے ہی سادہ ہیں کہ ان کو اب تک اپنے فوجیوں کے نصاب کا ہی علم نہیں تھا؟ امریکی فوجیوں کے اس نصاب سے یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی صلیبی جنگ لڑ رہے ہیں، اس لئے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کو اس جنگ سے فوری الگ ہو جانا چاہیے۔
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 161338
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش