3
0
Friday 1 Jun 2012 02:14

امریکہ کی گلگت بلتستان میں پراسرار سرگرمیاں

امریکہ کی گلگت بلتستان میں پراسرار سرگرمیاں
تحریر:بہلول بلتی

خیبر پختونخواہ میں ایک عشرہ قبل امریکہ کی جانب سے یو ایس ایڈ کے نام پر اپنی مخصوص کرم نوازی کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان کی تشکیل، فرقہ وارانہ کشیدگیوں میں اضافے، جگہ جگہ بم دھماکوں، خودکش حملوں اور انفرادی و شخصی آزادی کے نام پر ہم جنس پرستی کے مراکز کے قیام و فروغ جیسے مقاصد کی تکمیل کے بعد اب امریکہ کی نظر کرم چین اور بھارت سے متصل نئے تشکیل شدہ غیر آئینی صوبہ گلگت بلتستان پر جمنا شروع ہوگئی ہیں۔

گلگت بلتستان بے انتہا قدرتی و معدنی وسائل سے مالامال ہے، وہاں تین ایٹمی ممالک کے نقطہ اتصال پر ہونے کے باعث امریکی نظر میں روز بروز اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک عشرہ قبل گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کو جب اچانک اور بڑے منظم انداز میں فروغ ملنے لگا تو بہت سارے صاحبان فہم و ادراک ان سارے واقعات کے پس پردہ امریکی ہاتھ قرار دیتے رہے تھے۔ لیکن حکومتی ارباب اقتدار اور متعدد روشن خیال لیکن کور چشم دانشور ان تجزیوں اور خدشات کو مسلسل یہ کہہ کر رد کرتے چلے آئے کہ یہ صرف ایک طبقے کا وہم ہے۔

اب جبکہ سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس جیسے واقعات میں امریکی و اسرائیلی ساختہ تنظیم جنداللہ اور اس کے مربی قسم کی کالعدم تنظیموں کے اعترافات کھل کر سامنے آئے، تو یہ طبقہ اب شاید کچھ پس و پیش کے بعد تسلیم کرلے کہ ہاں یہ کھیل واقعاً ڈالروں کے ذریعے ہی کھیلا جارہا ہے۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ جب گلگت بلتستان کے علاقے میں کام کرنے والی متعدد غیر سرکاری تنظیمیں اپنے کاموں کی تکمیل کے لیے امریکی سرکاری امدادی تنظیم یو ایس ایڈ سے مالیاتی امداد کے لیے رابطہ کرتیں، تو انہیں کورا جواب دیا جاتا تھا کہ ہمارے لئے تمہیں دینے کے لیے واشنگٹن سے کچھ نہیں دیا گیا، ہمارا فوکس ایریا صرف سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) ہے۔ لیکن اب دو سال کے عرصے میں یو ایس ایڈ کی توجہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان پر بھی مرکوز ہونے لگی ہے۔

مشرف دور میں منصوبے کے تحت شاہراہ قراقرم کو ستر فٹ چوڑا کرنے سے روکنے والا امریکہ اب گلگت بلتستان کے بعض ترقیاتی منصوبوں میں بغیر دعوت و درخواست کے بن بلائے مہمان کی طرح شریک ہونے لگا ہے۔ اسکردو میں سدپارہ ڈیم جو حکومت پاکستان کی اپنی فنڈنگ سے تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، اس کے لیے امریکہ ایک خطیر رقم دینے کے لیے ازخود واویلا کرتا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی زراعت، دام پروری اور دیہی ترقی کے شعبوں میں امریکی امداد کے حوالے سے آئے روز قومی و علاقائی اخبارات میں یو ایس ایڈ کی جانب سے اشتہارات دیئے جارہے ہیں، تاکہ گلگت بلتستان کی زراعت سے وابستہ ہونے کی بنا پر یو ایس ایڈ کو اس خطے کے تمام قریوں اور کوچوں تک باآسانی رسائی مل سکے۔

اس مقصد کو باآسانی حل کرنے کے لیے بعض شعبوں میں یو ایس ایڈ براہ راست مداخلت کے بجائے پہلے سے مصروف این جی اوز جیسے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کا سہارا لیتا نظر آتا ہے، AKRSP کے ذرائع کے مطابق امریکہ نے مخصوص شعبوں میں پانچ سال کے لیے فنڈنگ کا آغاز بھی کردیا ہے۔ جس کے تحت پرکشش تنخواہوں پر بھرتی کے لیے اشتہارات بھی دیئے جارہے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ AKRSP بلتستان کے موجودہ منیجر کو بھی بھاری بھر کم تنخواہ و مراعات کی پیشکش یو ایس ایڈ کی جانب سے کی جاچکی ہے، تاکہ ان کے طویل تجربات اور مقامی سطح پر ان کے اثر و نفوذ کو مخصوص مقاصد کی برآوری کے لیے استعمال کیا جاسکے۔

اس سے قبل یو ایس ایڈ سینٹرل ایشیاء کے بعض ملکوں میں اپنا اثر و نفوذ ترقی کے نام پر حاصل کر چکی ہے۔ خصوصاً جمہوریہ آذربائیجان میں یو ایس ایڈ اور اس کی ذیلی تنظیمیں عرصہ دراز سے سرگرم عمل ہیں، اسی کا شاخسانہ تھا کہ اٹھانوے فی صد مسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں گزشتہ ہفتے کھلم کھلا سرکاری سرپرستی میں ’’گے پریڈ‘‘ جیسے شرمناک اجتماعات ہوئے۔ اس سے قبل بھی اسلام آباد کے سفارتخانے میں امریکی امدادی اداروں، سی آئی اے کے ملکی و غیر ملکی ایجنٹس نے ڈالروں کے سائے میں ہم جنس پرستوں کا اجتماع منعقد کرکے پاکستانی مسلمانوں کی مذہبی و ثقافتی غیرت کا پہلا امتحان لیا تھا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس وقت بھی یو ایس ایڈ کی امداد کے بل پر اسلام آباد کے متعدد سیکٹروں، پشاور کے بعض علاقوں میں مختلف پرکشش ناموں سے کلب قائم کرکے در پردہ ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

اب ظاہر ہے کہ گلگت بلتستان کے مذہبی رجحان رکھنے والے علاقے میں انہوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ سب کچھ کرنا ہے جس کے ذریعے سے معاشرے کے فعال ترین طبقے کے اندر سے دین و مذہب کی رمق کو ختم کر دیا جائے یا غیر فعال کرکے اپنے اہداف کے لیے باآسانی استعمال میں لاسکیں۔ اس مقصد کے لیے ان امریکی اداروں کو ایسے فعال اداروں کی ضرورت تو ہے ہی جو پہلے ہی ترقی، آزادی، جنسی مساوات و برابری کے خوشنما لیکن کھوکھلے نعروں کا پرچار کر رہے ہوں اور انہیں ایسی تنظیمیں گلگت و بلتستان میں وافر مقدار میں ملنے کی توقع ہے۔ خصوصاً آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک سے مربوط تنظیمیں، جو کہتی کچھ اور ہیں کرتی کچھ اور ہیں۔ ایسی فیری میسن نما تنظیمیں ڈالروں کی چمک دمک کے آگے پہلے ہی سے بک چکی ہیں۔ لہٰذا یو ایس ایڈ کو ان علاقوں میں کام کرنے کی چھتریاں باآسان مل رہی ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے بین الاقوامی مفادات کو تعلیم، ترقی، صحت، ثقافت اور زراعت کے خوشنما لبادوں میں چھپا کر باآسانی حاصل کر سکیں گے۔
خبر کا کوڈ : 167330
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Bhai Insha Allah America Nakam hongy ............
Pakistan
once USAID was banned by ISI in our country.
Pakistan
true....
ہماری پیشکش