0
Wednesday 6 Jun 2012 19:32

ماحولیاتی تبدیلیاں، بدلتے موسم ایک بار پھر سیلاب کا خدشہ

ماحولیاتی تبدیلیاں، بدلتے موسم ایک بار پھر سیلاب کا خدشہ
تحریر و تحقیق: ساجد حسین

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 5 جون عالمی یوم ماحولیات کے طور پر منایا گیا۔ پاکستان میں گذشتہ دو برسوں میں مسلسل سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ماہرین کے مطابق سال رواں بھی مون سون کے بعد سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب و زلزلہ ہر جگہ آسکتے ہیں، لیکن پیشگی اقدامات اور احتییاطی تدابیر کی وجہ سے نقصان کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً جاپان میں سات ریکٹر سکیل شدت کا زلزلہ آنے پر بھی عمارتیں ایسی بنائی گئی ہیں کہ نقصان کم سے کم ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں 2005ء کے تباہ کن زلزلے کی وجہ سے سرکاری سطح پر ناقص تعمیراتی کام کے باعث مظفر آباد اور آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں میں سکولوں، فوجی بیرکس اور اسپتالوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ اسی طرح دو سال مسلسل سیلاب کے بعد بھی اب تک سیلاب کے متاثرین بحال نہ ہو سکے۔ ایسی صورت میں خدانخواستہ اگر اس سال بھی سیلاب آیا تو بیچارے عوام اور ان کے کھیت و کھیلان اور گھربار ہی تباہ ہوں گے۔
 
جب کہ ملک کے حکمران اور اشرافیہ تو شاید سیلاب کے لئے خوش ہو رہے ہونگے، کیونکہ ان کو اوپر کی کمائی کا ایک اور ذریعہ مہیا ہوگا۔ توجہ طلب مثال یہاں دی جا رہی ہے، جس سے آسانی سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور بدلتے موسموں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے موسم سرما میں آپ نے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بارہا دیکھا ہوگا کہ ملک میں سب سے کم درجہ حرارت پارا چنار میں ریکارڈ کیا گیا، لیکن ملک میں موسم سرما گزرتے ہی لوگ سردی کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن اس سال پارا چنار میں دیگر سالوں کے برعکس مئی کے اوائل تک موسم سرما ختم نہ ہوا اور لوگ سردی سے بچنے کے لئے گھروں میں نہ صرف انگیٹھیاں جلاتے رہے بلکہ رات کو کمبل بھی اوڑھنا پڑتا تھا۔ 

اس قدر بدلتے موسم کی کیا وجوہات ہیں؟ ہم یہاں سائنس کے ساتھ ساتھ پارا چنار سے تعلق رکھنے کی وجہ سے زمینی حقائق و مشاہدات اور عوامی آرا کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں گے۔ وفاق کے زیر انتظام فاٹا کی ایک قبائلی ایجنسی کرم کا صدر مقام ہونے اور بیک وقت افغانستان کے چار صوبوں سے متصل جنت نظیر پارا چنار کی وادی برف سے ڈھکے کوہ سفید یا مقامی زبان میں سپین غر پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔ کوہ سفید پہاڑی کے ایک طرف پاکستان یعنی پارا چنار اور دوسری طرف افغانستان کا مشہور تورا بورا پہاڑی سلسلہ واقع ہے، جو نائن الیون کے بہانے امریکہ کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد تباہ کن کارپٹ بمباری کا نشانہ بنا تھا اور اس بمباری کی عمارتوں کو ہلا کر مکانات کے شیشے تک توڑ دینے والی آوازیں پاراچنار شہر تک سنائی دیتی رہیں۔

جس طرح گزشتہ تین چار سال سے موسم سرما میں پارا چنار کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے منفی پندرہ یا بیس ڈگری تک گر کر ملک کی سطح پر ریکارڈ بناتا رہا ہے، پارا چنار شہر کے بزرگ افراد اور انگریز دور کے محکمہ موسمیات کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ دو صدیوں میں اتنی ریکارڈ سردی نہیں پڑی۔ ہاں برف تو ہر سال سردی میں پڑتی رہی ہے، لیکن موسم سرما نومبر سے مارچ کے اوائل تک ہی رہتا اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے دو تین یا پانچ ڈگری تک گر جاتا تھا۔ لیکن چند سالوں سے منفی پندرہ و بیس تک درجہ حرارت اور اس سال غیر متوقع طور پر موسم سرما کا مارچ کے مہینے میں ختم ہونے کے بجائے مئی تک جاری رہنا، یقیناً لمحہ فکریہ اور غور و فکر کی بات ہے۔

اس قدر بدلتے موسم کو سائنس کی اصطلاح میں کلائمٹ چینج کہتے ہیں، یعنی غیر متوقع طور پر سردی اور گرمی کا بے موسم آنا، جس کے زراعت اور دیگر شعبوں پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ بدلتے موسم یا کلائمٹ چینج کے اسباب جگہ اور ماحول کے مطابق کئی ایک ہوسکتے ہیں، لیکن یہاں پارا چنار کے حوالے سے چند اسباب و حقائق دئیے جا رہے ہیں۔ سائنسدانوں اور ماہرین ارضیات و ماحولیات کے مطابق کئی سال پہلے کی تباہی یا تبدیلی کئی سال بعد موسم کے تغیر و تبدل کرسکتی ہے۔
 
اس حوالے سے نائن الیوں کے بعد پاراچنار سے متصل توارا بورا کی پہاڑی سلسلے میں بدترین کارپٹ بمباری اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے اس وادی کے موسم میں غیر معمولی تبدیلی کا آنا بعید نہیں۔ دو ہفتے پہلے پارا چنار سے پندرہ کلومیٹر دور کڑمان کے ببلک گاؤں میں تورا بورا پہاڑی سلسلے سے ملنے والے پہاڑ کے سرکنے اور لینڈ سلائیڈنگ و زمین کے کٹاؤ سے گاؤں کے کئی مکانات زمین بوس ہوگئے، لیکن خوش قسمتی سے آبادی ممکنہ خطرے کے پیش نظر پہلے ہی منتقل ہوئی چکی تھی، اسلئے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ 

دوسری بڑی اہم وجہ پہاڑوں اور جنگلات سے درختوں کی کٹائی سے بھی موسمی تغیر و تبدل آسکتا ہے۔ یہ کائنات خالق حقیقی نے ایک توازن کی صورت میں بنائی ہے، لیکن یہ انسان ہی ہے جو اس قدرتی توازن کو بگاڑ کر اپنے لئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ پاراچنار کے عوام کی طرف سے جنگلات اور درختوں کی کٹائی غریب عوام کی موت و زندگی کا سوال ہے۔ اور وہ اپنے بچوں کو موسم سرما میں شدید سردی اور نمونیا سے مرنے سے محفوظ رکھنے کے لئے گھروں میں انگیٹھوں کے ذریعے گرم ہونے کے لئے جلانے کی لکڑی کے لئے درخت نہیں کاٹیں گے تو کیا مر جائیں۔۔؟؟ حالانکہ اگر حکومت چاہے تو جلانے کی لکڑی کے لئے درختوں و جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ آسانی سے روکا جاسکتا ہے۔
 
پاراچنار کرم ایجنسی سے کم فاصلے پر واقعے ضلع ہنگو کے علاقے گرگری میں قدرتی گیس کے بیش بہا ذخائر نکلے ہیں، جن سے پنجاب تک کے علاقوں کو گیس دی گئی ہے، لیکن وزیراعظم کے اعلان کے باوجود کئی سال گزرنے کے بعد بھی چراغ تلے اندھیرا کے مترادف کرم ایجنسی پاراچنار کو اب تک قدرتی گیس کی سہولت مہیا نہ کی گئی، جب کہ فاٹا کے نام پر آنے والی اربوں روپے کی امداد وفاقی و صوبائی حکومتیں ہڑپ کرتی رہیں۔
 
اگر قدرتی گیس کی سہولت فی الفور مہیا نہیں کی جاسکتی تو شدید سردی سے بچنے اور جنگلات کی کٹائی روکنے کے لئے حکومت و دیگر ادارے متبادل توانائی کے طریقے مثلاً بائیو گیس سے موسم سرما میں گھروں کو گرم رکھ سکتے ہیں، جب کہ انہی بدلتے موسموں کے حوالے سے پارا چنار کے بعض اسکالرز اور علماء سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے اسے امام مہدی ع کے ظہور کی نشانیاں بتاتے ہوئے کہا کہ نہ صرف پارا چنار بلکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اس طرح کی موسمی تغیر و تبدیلیاں آ رہی ہیں، جیسے زلزلے، بارشیں و سیلاب اور اس طرح کی پیشن گوئیاں احادیث و روایات تک میں موجود ہیں اور یہاں تک کہ کئی دہائیاں پہلے حکیم الامت علامہ اقبال رہ نے اپنی شاعری میں بھی اس کی پیشن گوئی کی تھی کہ
دنیا کو ہے اس مہدی ع برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار

اسی موضوع کو ایک دوسرے شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔۔
بتا رہی ہیں یہ تبدیلیاں زمانے کی
کسی ولی کا یقیناً ظہور ہونا ہے
الغرض اس قدر بدلتے موسم یا سائنس کی اصطلاح میں کلائمٹ چینج اور پارا چنار میں مئی میں سردی و کمبل اوڑھنے کے جو بھی اسباب ہوں، پاکستان کی حکومت اور اداروں کو نہ صرف پارا چنار بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئں، کیونکہ گزشتہ دو سالوں میں مون سون کے موسم میں بعض علاقوں میں آنے والے غیر متوقع طور پر سیلاب کی تباہ کاریوں کے آثار اب تک باقی ہیں اور متاثرین اب تک صحیح طور پر نہیں سنبھلے۔ ایسے میں اس سال پھر پیشگی اقدامات اور احتیاطی تدابیر نہ ہونے کی وجہ سے وسیع پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 168480
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش