0
Wednesday 11 Jul 2012 21:30

دیر پائیں کی سرحدی چوکیوں پر حملے

دیر پائیں کی سرحدی چوکیوں پر حملے
تحریر: رشید احمد صدیقی 

سرحد پار سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر حملے اور اس میں فوجی جوانوں کی شہادتوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ حالیہ حملے دیر پائین کی سرحدی چوکیوں پر ہوئے ہیں، جن میں بیس سے زیادہ فوجی جوان شہید ہوئے ہیں۔۔۔۔ ان حملوں کا مقصد کیا ہے اور ان کا تدارک کیسے ہوگا؟ 

افغان موضوع کے تین اہم فریق امریکہ، پاکستان اور افغانستان ہیں۔ پاکستان 2001ء سے امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ ہے۔ اس کو نان نیٹو اتحادی قرار دیا جا چکا ہے۔ افغانستان کی کرزئی حکومت کا وجود ہی امریکہ کے مرہون منت ہے۔ حال ہی میں اولذکر نے اسے سب سے بڑے نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیا ہے۔ اتنی قربتوں کے حامل اس مثلث کی حقیقت دوسری ہے۔ امریکہ روز اول سے پاکستان پر الزامات لگاتا آرہا ہے کہ ان کے مطلوب دہشتگردوں کی پناہ گاہیں پاکستان کے اندر ہیں۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن پاکستان کے اندر ڈرون حملے کرتا ہے اور درجنوں لوگ اس میں جان سے ہاتھ دھوتے ہیں۔

اس کی جانب سے پاکستان کو مسلسل بالواسطہ اور بلاواسطہ دھمکیاں مل رہی ہیں۔ مختلف نام لے کر پاکستان پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ یہ کرو اور وہ کرو۔ اس کی دست درازی یہاں تک بڑھیں کہ گزشتہ سال نومبر میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے باقاعدہ ہماری فوجی چھائونیوں کو نشانہ بنایا۔ امریکہ کے سب سے بڑے نان نیٹو اتحادی اور چہیتی کرزئی حکومت کا تو معمول ہے کہ ہر واقعہ کے پیچھے اسے پاکستان ہی نظر آتا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں ہر دھماکے کو خودکش حملے کا نام دیا جاتا ہے، جس کے بعد کسی قسم کی انکوائری کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور تمام ذمہ دار ایجنسیاں اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھنے لگتی ہیں، اسی طرح افغان حکومت ہر مزاحمتی واقعہ کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ ان کو ہر طالب پاکستان سے آیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
 
طالبان افغان شہری ہیں اور پاکستان کو بھی اتنا ہی مخالف سمجھتے ہیں، جتنا افغان حکومت کو۔ ان کے دست برد سے پاکستان کا بھی کوئی علاقہ محفوظ نہیں، پھر بھی ہم کو نان نیٹو اتحادی اور فرنٹ لائن سٹیٹ قرار دینے والے امریکہ کی پسندیدہ کرزئی انتظامیہ طالبان کو ہمارے لوگ قرار دیتے نہیں تھکتی۔ ہم پر دراندازی کا الزام لگانے والی حکومت نے جوابی حملے کے طور پر پاکستان میں دراندازی شروع کر دی ہے۔ وہ یہ بات بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ غیر ریاستی لوگ ہیں اور جن پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں۔ 

لیکن نیٹو افواج کی موجودگی میں حملہ آور بھاری اسلحہ سمیت پاکستان کی طرف آتے ہیں اور اپنا کام کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ نیٹو افواج جو پاکستان کی جانب سے طالبان کی آمدو رفت روکنے کے لیے افغانستان میں تعینات ہیں، ان کو وہاں سے آنے والے حملہ آور یا تو نظر نہیں آتے یا پھر وہ پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں پر ان لوگوں سے عمل درآمد کرواتے ہیں۔ 

پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی کی جنگ اپنے سر لے کر اتنا مالی، جانی اور فوجی نقصان اٹھا رکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں بھی کسی ایک ملک نے نہیں اٹھایا تھا۔ ہمارے فوجی جنرل تک اس جنگ کا شکار بنے۔ فوجی ہیڈ کوارٹر رولپنڈی پر حملہ ہوا۔ صدر مملکت دو مرتبہ جانی حملوں کا نشانہ بنے۔ سابق اور مستقبل کی وزیراعظم کی جان اس میں گئی۔ لیکن اس گناہ بے لذت کا نتیجہ یہ کہ امریکہ بھی ناخوش اور افغانستان بھی دشمن۔ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ 

دہشتگردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کے مثلث کے تینوں بازئوں امریکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس طرح کے تعلق کو کوئی بھی دانشمندانہ  اور دوستانہ تعلق نہیں کہہ سکتا۔ بظاہر اتحادی اور دوستی کے دعوے ہیں، لیکن حقیقت میں ایک بہت بڑی سرد جنگ پاکستان اور امریکہ اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان برپا ہے۔ سلالہ واقعات کے بعد پاکستان کچھ ڈٹ سا گیا تھا، لیکن تین جولائی کو ہیلری کلنٹن کے پانچ حروف sorry کہنے سے ہم مارے خوشی کے آپے سے باہر ہوگئے اور سات ماہ کے اعصاب شکن انکار کو فوراً ہی اقرار میں بدل دیا۔ 

اس سے اگلے روز پاک فوج کے سربراہ دیر پائیں میں ان اگلے مورچوں پر تشریف لے گئے، جہاں پر افغان دراندازوں کے حملوں میں ہمارے 20 سے زائد فوجی جوان شہید ہوئے تھے۔ ان کا دورہ تو ایک سپہ سالار کا دورہ تھا۔ اپنے جوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے۔ لیکن انھوں نے وہی روایتی الفاظ دہرائے جو پچھلے بارہ سال سے بولے جا رہے ہیں۔ اس لاحاصل جنگ میں امریکہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وہ اگلے سال یہاں سے جا رہا ہے اور سارے محاذ افغان فوج کے حوالے کرکے جائے گا۔ افغان صورتحال کا پاکستان پر جو اثر ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے نقصان بھی اٹھا رہے ہیں اور عزت نفس بھی جاتی رہی ہے۔ کیا یہ موقع نہیں کہ ہم امریکہ کے بجائے اپنے لیے لڑیں۔ پالیسیاں لاحاصل جنگ جاری رکھنے کے بجائے اپنے ملک میں امن لانے والی بنائیں۔ 

دیر پائیں کی سرحدی چوکیوں پر حملوں کا ایک خاص پس منظر ہے۔ افغان طالبان یا مجاہدین حکومت پاکستان سے کتنے ہی شاکی کیوں نہ ہوں، وہ پاکستان کے خلاف براہ راست کارروائی کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ پچھلے تیس سال سے پاکستان ان کے جہاد کا بیس کیمپ رہا ہے اور اس حالت میں ان کا میزبان رہا ہے جب یہ لوگ لٹے پٹے اور بے سرو سامان تھے۔ دل سے یہ لوگ اس بات کے معترف تھے کہ پاکستانی عوام کا تعاون شامل حال نہ ہوتا تو یہ لوگ سویت یونین کو شائد شکست نہ دے پاتے۔ اب بھی پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا ان کے لیے دوسرے گھر کا درجہ رکھتا ہے۔

یہ درست ہے کہ امریکی دبائو کے تحت حکومت پاکستان کی پالیسیاں ان کے خلاف ہوگئی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اب بھی افغانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان میں مقیم ہے۔ یہاں سے ان کا روزگار اور رزق منسلک ہے۔ ان کا کاروبار یہاں ہے۔ بڑی تعداد میں ان کے بچے یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کابل کی حکومت چاہے بھی تو افغان عوام کا دبائو اتنا ہوگا کہ پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں کی اتنی کھل کر حوصلہ افزائی نہ کرے۔ پھر یہ حملہ آور کون لوگ ہیں۔۔۔۔ ایک لمحہ کے لیے سوچیے۔ سوات، دیر اور باجوڑ میں 2010ء میں جو بڑا فوجی آپریشن ہوا تھا، اس میں کافی بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے۔ لیکن اس سے بہت زیادہ تعداد میں لوگ افغانستان بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تھے، کیونکہ وہاں سے افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستے ہیں۔

ان لوگوں کے اب اپنے وطن واپسی کے تمام راستے بند ہیں۔ یہاں آتے ہیں تو زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں اور جو قصے کہانیاں مشہور ہیں کہ طالبان کو گرفتار کرکے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، ان کہانیوں کی موجودگی میں کوئی یہاں آنے کے لیے تیار نہیں۔ افغانستان میں وہ ایک جہادی ماحول میں رہ رہے ہیں۔ وہ بڑی طمانیت کے ساتھ خوش خرم زندہ ہیں۔ ان کو ایک قسم کی روحانی فضا بھی میسر ہے۔ وہ ایک جنگی ماحول میں ہیں، جس کو وہ جہادی ماحول کہتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان کی جانب آنا اور سرحدی چوکیوں پر حملہ کرنا ایک فطری سا کام ہے۔ ان میں انتقام کا جذبہ بھی ہے، اور ان کی تربیت کا اثر بھی۔۔۔۔ 

اس صورتحال کا حل روایاتی طریقہ سے ناممکن ہے۔ لڑائی اور مرگ و مار ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ پاکستانی فوجیوں کو نقصان پہنچانے سے ان کے جذبہ انتقام کو ایک طرح کی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت اور نیٹو افواج بھی اس طرح کے حملوں کو اپنے لیے مفید پاتے ہیں اور ان کو اس سے یک گونہ خوشی ملتی ہے کہ دشمن کے نقصان پر خوش ہونا فطری امر ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں مخلصانہ تجویز ہے کہ پاک فوج اور حکومت پاکستان ان لوگوں کی واپسی یقینی بنانے کے لیے پہلے تو عام معافی کا اعلان کرے۔ افغانستان بھاگ جانے والوں میں سارے سنگین قسم کی وارداتوں میں ملوث نہیں تھے۔ ایک فضا بن گئی تھی، جس سے متاثر ہو کر وہ اس لہر کے ساتھ ہوگئے تھے۔

یہ جرائم پیشہ لوگ نہیں، جذبہ جہاد سے سرشار ہیں۔ اگر ان کو باعزت طور پر زندگی گزارنے کی یقین دہانی کرائی جائے تو یہاں معمول کے شہری بننے پر رضامند ہوسکتے ہیں۔ ہم چونکہ معمول کے حالات میں نہیں رہ رہے ہیں، بلکہ ہنگامی جنگی اور ناقابل عبور قسم کی مشکل صورتحال سے دوچار ہیں چنانچہ اگر کچھ لوگوں کو عام معافی نہیں دی جاسکتی تو ان کے خلاف معمولی نوعیت کے مقدمات چلا کر کم سے کم قید کی سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ جیلوں میں ان کے لیے تربیت کا خاص اہتمام کیا جانا چاہیے۔ اس طرح ان لوگوں کے شر سے بچا جاسکے گا۔ 

یہ تو دیر پائین پر حملوں کی روک تھام کے سلسلے کی بات تھی۔ اصل مسئلہ تو بحیثیت مجموعی پاکستانی اور افغان طالبان کے درمیان لڑی جانے والی امریکی جنگ کا خاتمہ ہے، اس کے لیے حقیقیت پسندانہ انداز میں کام کیا جائے۔ اگر ہم امریکی بندوق اپنے کندھے سے ہٹائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ لاحاصل جنگ ختم ہو۔ کام مشکل ضرور ہے، لیکن خلوص نیت سے سب کچھ ممکن ہے۔
خبر کا کوڈ : 178143
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش