0
Monday 16 Jul 2012 19:21

توقعات اور حقائق

توقعات اور حقائق
تحریر: طاہر یٰسین طاہر
 
عام افراد سے لے کر اقوام تک، توقعات کے سہارے زندگی کے معاملات آگے بڑھاتے ہیں۔ دین اسلام میں تو مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے، یعنی مایوس ہونے کے بجائے انسان پُرامید رہتے ہوئے کوشش و کاوش جاری رکھے۔ ہم پاکستانی جو بہرحال افراد کا ایک ہجوم ہیں، اپنی دانست اور مزاج کے حوالے سے بڑے انوکھے واقع ہوئے ہیں۔ ہم خیر اور بھلائی کی توقع بھی اُسی سے کرتے ہیں جسے ہم اپنا جانی دشمن سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پاکستان میں ہر سیاست دان عوامی جلسوں اور انتخابات کے دنوں میں اپنی سیٹ جیتنے کے لئے امریکہ کو گالی دینا کارِ ثواب سمجھتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ مولوی سیاست دانوں سے لے کر لبرل سیاست دانوں تک، سب جانتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے حوالے سے اپنی دوغلی اور عالمِ اسلام کے حوالے سے اپنی جارحانہ و سفاکانہ پالیسیوں کے باعث مسلم عوام میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 

یوں سیاست دان اس توقع اور اُمید پر امریکہ سے نفرین کرتے ہیں کہ عوام کی ہمدردی حاصل کرتے ہوئے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی تک پہنچ پائیں۔ مگر یہی لوگ جب اسمبلی تک پہنچتے ہیں تو پھر ان کی توقعات کا محور و مرکز امریکہ ہی ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت بڑی ہی تلخ ہے کہ پاکستان میں اقتدار کے کھیل کے مہرے امریکہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، جبکہ ایک برادر اسلامی ملک پاکستان کی داخلی سیاست میں امریکی معاونت کرتے ہوئے اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتا ہے، جو اسے عالم اسلام میں ممتاز کرتی ہے۔ 

متعدد مرتبہ انہی سطور میں عرض کیا کہ طاقت کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور طاقت ہمیشہ اپنی ضرورتوں کے تحت نئے اصولوں کو جنم بھی دیتی رہتی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے وسائل پر انحصار کرنے کے بجائے غیر ملکی امداد کی توقعات پر ترقی کرنے کی تمنا کرتے ہیں۔ ہماری اس کمزوری کا ہمارے ہر ہمدرد کو پتہ ہے۔ چنانچہ ہم اپنے جنم دن سے آج تک عالمی طاقتوں کے دست نگر رہے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ حکمران طبقہ ذاتی مفادات کی جنگ میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے، جس کی وجہ سے ملکی مفادات پر آئے روز زد پڑتی رہتی ہے۔ 

پاکستان اس وقت داخلی و خارجی سطح پر شدید مشکلات کا شکار ہے۔ داخلی سطح پر خودکش حملے، دہشت گردی، امن و امان کا سنگین مسئلہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ کی سرد جنگ، اپوزیشن اور پارلیمنٹ کی نمائندگی سے محروم سیاسی جماعتوں کا عدلیہ کی اوٹ میں چھپ سیاست کرنے کا انداز عام آدمی کی تکالیف دو چندکر رہا ہے۔ انرجی کا بحران اس خرابے میں ایک خوفناک خواب سے کم نہیں۔ کیا بے روزگاری اور مہنگائی نے زندگی کی رعنائیوں کو کم نہیں کر دیا۔؟ جب کہ خارجی سطح پر معاملات اور بھی خطرناک نظر آتے ہیں۔

عجیب معمہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو امداد بھی دیتا ہے اور تنگ بھی کرتا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ امریکہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جنگ بھی کر رہا ہے مگر اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر پاکستان کے اندر انارکی بھی پھیلا رہا ہے۔ سلالہ واقعے کے بعد جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناﺅ پیدا ہوا تو دونوں ممالک نے اپنی اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے ایک دوسرے پر سفارتی دباﺅ بڑھانے کی کوشش کی۔ سلالہ حملے کے فوراً بعد پاکستان نے نہ صرف شمسی ایئر بیس سے امریکہ کی واپسی کرادی بلکہ نیٹو کی سپلائی بند کرکے عالمی استعمار کو ناکوں چنے چبوانے کا خواب بھی دیکھا۔ 

یقینًا غیرت مند قومیں ایسا ہی کرتی ہیں، مگر میرا موقف یہ ہے کہ ہمیں امریکہ کے سامنے سینہ سپر ہونے سے پہلے داخلی طور پر نہ صرف یکجا ہونا پڑے گا، بلکہ امریکی بدمعاشیوں کو لگام دینے کے لیے برادر اسلامی ملک ایران جیسی جرات اور حکمت عملی کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔ کیونکہ بہتر حکمت عملی کے بغیر جذبات کے گھوڑے پر سوار ہو کر ہم سوائے ندامت کے اور کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس امر میں کلام نہیں کہ دنیا جب گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے تو ایسے میں ہم عالمی برادری سے بگاڑ کر اپنے لیے مشکلات میں اضافہ نہیں کرسکتے، مگر ہم بہتر، آزادانہ اور باوقار خارجہ پالیسی کے ذریعے اپنی خود مختاری کا تحفظ تو کرسکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ امریکہ نے نیٹو سپلائی کھلوانے کے لیے ہم پر شدید دباﺅ ڈالا، عالمی استعمار نے پہلے ہماری امداد پر کٹوتی لگانے کی ٹھانی، پھر اُس نے ڈرون حملوں کی رفتار میں اضافہ کرکے یہ تاثر دیا کہ دہشتگرد افغانستان سے پاکستان کا رخ کرکے وہاں پناہ گزین ہو رہے ہیں۔ جب بات بنتی نظر نہ آئی تو شکاگو کانفرنس میں پاکستان کو دعوت نامہ نہ دے کر اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کا اشارہ دیا گیا۔ اگرچہ اس موقع پر پاکستان کے ذمہ دار افراد کی جانب سے نیٹو سپلائی کو عالمی قوانین کے تحت بحال کرنے کی بات کھلے بندوں کی جانے لگی، جس کے بعد صدر پاکستان شکاگو تشریف لے گئے، مگر سپلائی بحال نہ ہوئی تو حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ امریکہ کے کام آئے۔ یوں آج اگر نیٹو سپلائی بحال ہے تو دوسری طرف دفاع پاکستان کونسل بھی فعال ہے۔ "یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟" 

پاک امریکہ تعلقات کے طالب علم یہ جانتے ہیں کہ پاکستانی معیشت اور کاروبار ِمملکت کا زیادہ انحصار امریکی امداد پر ہے۔ امریکہ خطے میں اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کی ضروریات پوری کرتا ہے تو پاکستان اس کے بدلے میں امریکی ضروریات کا خیال رکھتا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ خطے میں پاکستان امریکی ضروریات کا خیال رکھتا ہے تو بدلے میں امریکہ پاکستان کی ضروریات پوری کرتا ہے، جو بہرحال معاشی ہی ہوتی ہیں۔ مگر معاشی ضروریات کی تکمیل کیلئے امریکہ جو چالیں چلتا ہے، انہوں نے ہمارے معاشرے کو شدید گزند پہنچایا ہے۔ 

ہم سادہ لوح مگر جذباتی لوگ ہیں، دوستی کے پردے میں چھپے کھلے دشمن سے اچھائی اور بھلائی کی توقع کئے بیٹھے ہیں، جبکہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جنرل کیانی نے امریکی صدر اوبامہ کو ایک ملاقات میں میمو پیش کیا تھا، جس میں جنرل کیانی نے قرار دیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے اور امریکہ پاکستان کے اندر انارکی پیدا کر رہا ہے، اور پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ یہ کھلا راز ہے کہ امریکہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں تیزی لا رہا ہے۔ 

ایسے میں گذشتہ سے پیوستہ روز کے اخبارات میں وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ کا بیان نظر سے گذرا تو حیرت کا جھٹکا محسوس ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ امریکہ پاکستان سے سول ایٹمی معاہدہ کرے گا۔ حیرت افروز بات تو یہ ہے کہ جو امریکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جو پاکستان کے حصے بخرے کرنا چاہتا ہے وہ کیونکر ایسا معاہدہ کرے گا، جس کے تحت پاکستان سول سیکٹر میں استحکام حاصل کرسکے۔؟ توقعات اور امیدیں انسان کو نہ صرف زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں بلکہ ترقی کی منازل طے کرنے میں بھی کام آتی ہیں، مگر امریکہ کی طوطا چشمی ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اس کے ہر وعدے اور ہر اقدام کو شک کی نظر سے ہی دیکھیں۔
خبر کا کوڈ : 179653
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش