0
Sunday 19 Aug 2012 18:22

لہو پُکارے گا آستیں کا

لہو پُکارے گا آستیں کا
تحریر: ملیحہ سجاد عاسل
 
عید! ایک پُرمسرت دن، خوشگواریت کے بھرپور احساس کے ساتھ، اپنوں کے ملن کی نوید لئے، روشن کل کی دلنشیں آس اور قوی جذبہ اپنے دامن میں سمیٹے ہر سال اہلِ اسلام کی زندگیوں میں اپنی اہمیت اُجاگر کرتا ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمان چاہے کسی بھی رنگ، نسل، گروہ، زبان، خطے یا مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، اِس دِن تمام اختلافات بھُلا کر ایک دوسرے کو گلے لگاتے اور مبارکباد دیتے ہیں۔ کُرہ ارض پر بسنے والی دیگر اقوام بھی اپنے دینی تہوار اپنے اپنے مذہبی عقائد کی روشنی میں مناتی ہیں اور تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتی ہیں۔
 
مگر افسوس صد افسوس! وطنِ عزیز پاکستان میں یومِ عید ہمیشہ عجیب و غریب ڈھنگ سے وارد ہوتا ہے۔ ہر سال ہزاروں مائیں اپنے لاڈلے جوانوں کے انتظار میں بیٹھی رہ جاتی ہیں، سینکڑوں بہنیں اپنے راج دُلارے بھائیوں کی راہ تکتی چیختی چیلاتی رہ جاتی ہیں، بیسیوں بیٹیاں اپنے ناز اٹھانے والے باپ کی خاطر، چراغ روشن کئے، دہلیز کے کونوں میں سسکتی زندگیاں گزار دیتی ہیں، اَن گنت معصوم بچے اپنے چچا، تایا، ماموں سے عیدی لینے کے شوق میں مٹی میں رُلتے رہتے ہیں، کتنی ہی عورتیں شریکِ حیات کی منتظر گُھٹ گُھٹ کے روز و شب بِتا دیتی ہیں اور جب عید کا دن آتا ہے تو کوئی ایک رشتہ بھی اکیلا چوکھٹ پار نہیں کرتا۔ بلکہ اُس کے ساتھ موت بھی کُرلاتی ہوئی بین کرتی ہوئی گھر میں داخل ہو جاتی ہے۔ جسے دیکھتے ہی آس و اُمید اور جذبوں کے مینار آن کی آن میں میں غش کھا کر زمین بوس ہو جاتے ہیں اور وحشت و اذیت سر اُٹھائے اِدھر اُدھر بھاگتی پھرتی ہیں۔ 

سرزمینِ پاک میں بہتے ہوئے خون کے دریا بلوچستان کی وادیوں سے شروع ہوئے اور سندھ کی ذرخیز دھرتی کو صحراؤں میں بدلتے، پنجاب کے میدانوں کو کاٹتے، خیبر کی سُرنگوں میں چُھپتے چُھپاتے اب گلگت بلتستان میں داخل ہوچُکے ہیں۔ اِن دریاؤں کی طُغیانی سے کہیں بھی کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔ کتنی ہی بستیاں تباہ و برباد ہوئیں، کتنے قریے اُجڑ گئے، کتنے نگر ویران ہوئے، اِسکے کوئی بھی درست اعداد و شُمار نہیں ہیں۔ حساب کتاب رکھتا بھی کون؟ ساری قوم جو غافل ٹھہری سو ٹھہری، ہم نے تو اغیار کو بھی انگشت بدنداں کر دیا ہے۔
 
اقوامِ عالم مہر بہ لب ہیں کہ پاکستان آخر کِس کی سرزمیں ہے؟ کون اِس دھرتی ماں کا اپنا ہے، یہ سب خود کو پاکستانی کہلوانے والے باشندے کس کے بیٹے ہیں؟ اور مذہبِ اسلام کے نام پہ قائم ہونے والی اِس ریاست کے لوگ حقیقت میں کس دین کے پیرو کار ہیں؟ اسلام میں بڑھتی ہوئی فرقہ بندیوں نے زمانے بھر میں اِسکی پُر محبت تعلیمات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور رہی سہی کسر پاکستان بھر میں ہونے والے پُرتشدد واقعات نے پُوری کر دی ہے۔ خُدا کرے اِس کے پاسبان اِس کربناک گروہ بندی کی حقیقت سے جلد آشنا ہو جائیں، جو رینگتی ہوئی اِسکی ہڈیوں میں گُھس گئی ہے۔
 
آپ سب یقیناً جانتے ہی ہوں گے کہ عیسائیت میں بھی فرقہ بندی ہے۔ ہندومت بھی گروہ بندی کا شکار ہے۔ یہودیت، بدھ مت، جین مت، سِکھ، تاؤ، بہائی، شنتو وغیرہ و غیرہ غرض ہر مذہب کے لوگوں میں بہت ساری باتوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ سب کے سب ایک دوسرے سے اپنے اپنے عقیدوں کی مختلف جہتوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں، مگر کیا آج تک ایسا ہوا کہ کسی سِکھ نے کسی سِکھ کو، ہندو نے ہندو کو، یہودی نے یہودی کو ، کسی عیسائی نے کسی عیسائی کو یا کسی بھی دین کے پیروکاروں نے اپنے ہم مذہب افراد کو اختلافی نکتہ نظر رکھنے کے باوجود اُسی مذہب کے نام پر نسل کُشی کا نشانہ بنایا ہو؟
 
اُن کی عبادت گاہوں کو تاراج کیا ہو؟ اُن کے ذہن و دل میں معدومیت کے خوف کے بیج بوئے ہوں، اُنہیں جگہ جگہ اُن کے دین، اُن کے عقیدے سے محبت کی شناخت کر کرکے، چُن چُن کر ذبح کیا ہو، ہے کسی اور بھی دین میں ایسا؟؟؟ یقیناً ایسا کہیں بھی بالکل نہیں ہے، مگر ہزار دل سے افسوس! کہ یہ سب اُس مذہب میں ہو رہا ہے جس کا نام ہی سلامتی کا ایک باوقار پیغام ہے۔ جو تمام جہانوں کے لئے رحمتوں کا دین ہے اور عالمین کے لیے باعثِ نجات ہے۔
 
اسلام! امن و آشتی، سکون و عافیت اور باہمی اخوت و یگانگت کا دین ہے۔ جس میں کسی کو کسی پہ برتری حاصل نہیں، سوائے تقویٰ اور پرہیزگاری کے۔ جس میں کوئی بھی کسی بھی قسم کا جبر نہیں۔ جو ہر فرد کو رواداری کا درس دیتا ہے اور اقوامِ عالم کے جان و مال کی حفاظت کا حُکم بھی اُسی طرح نافذ کرتا ہے جیسے کہ اِس کے اپنے افراد۔ پھر وہ کون لوگ ہیں جو اِس کی تعلیمات سے ہٹ کر اِس کے ہی ماننے والوں کو تہہ تیغ کرتے ہیں اور نعرہ تکبیر کی صدائیں بھی بلند کرتے ہیں۔؟ 

جنہوں نے الحاد کے نام نہاد فتوؤں سے اہلِ اسلام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ جو نہتے معصوم عوام کو بے دریغ، بیدردی اور بے رحمی سے چھلنی کرتے ہیں اور بعد میں اللہ کا شُکر ادا کرنے کے ڈرامے بھی کرتے ہیں۔ جو نگر نگر آسیب کی طرح پھیلے نیٹ ورک کے ذریعے ایک مخصوص سوچ اور جُداگانہ طرزِفکر سب پر حاوی کرنے کے درپئے ہیں اور اپنے مخالفین کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اُتارتے ہوئے سرزمینِ پاک کو بے سکونی کی اتھاہ گہرائیوں میں دکھیل چُکے ہیں۔
 
پاکستان میں چھائی دہشت کی اِن گھٹاؤں سے امن و سکون کی برکھا کیسے برس سکتی ہے؟ جب اِن طوفانوں کے سلسلے ہماری اپنی ہی سرحدوں کے کسی نہ کسی گوشے سے جُڑے ہیں۔ اِسی دیس کے کسی نہ کسی علاقے سے یہ آندھیاں اُٹھتی ہیں اور سب کُچھ اپنے ساتھ اُڑا کے لے جاتی ہیں۔ اِن کے ذمہ داران میں بڑے بڑے نامی گرامی نام بھی آتے ہیں، مگر ایک تنبیہہ قرآن کی رُو سے اُنکی نظر ہے کہ وہ قومِ عاد و ثمود، شداد و شدید اور فرعون و نمرود کے انجام کو بھی ذہن نشین کرلیں کہ جب قانون دان خود ہی لا قانونیت کا پرچار کریں، انصاف دان بے انصافی کی حدوں کو چُھونے لگیں، با شعور افراد ظُلم و جبر پر چُپ سادھ لیں، اہلِ علم و دانش وحشت و بربریت کے خلاف آواز بُلند نہ کریں، اور حکمران! اپنی نااہلی اور عیاشیوں سمیت عوام کے حقوق کے تحفظ سے چشم پوشی اختیار کریں، تو قسم پاک پروردگار کی، ایسی بستیوں پر آنے والے خُدائے ذوالجلال کے قہر کو کوئی نہیں روک سکتا۔
 
طبقہ اشرافیہ جانتا ہے کہ نسل کُشی کیا ہوتی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کس بلا کا نام ہے۔ فرقہ واریت کس درخت کا پھل ہے، اِس کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں، اِسکی آبپاشی کون کون کرتا ہے اور اِس کا پھل کون کون کھائے گا۔ مجھے تو دُکھ ہے انصاف کے ایسے ٹھیکداروں پر جنہیں حکومتِ وقت سے خط لکھوانے میں زیادہ دلچسپی ہے، جنہیں عورتوں کے لڑنے بھڑنے، شراب کی بوتلوں، مختاراں مائی اور ارسلان افتخار وغیرہ جیسے کیسز میں سوموٹو ایکشنز اور ازِخود نوٹس لے کے عوام کو بیوقوف بنانے اور خود کو اسلام کا علمبردار اور دین کا داعی ثابت کرنے میں بہت آسانی نظر آتی ہے، مگر جنہیں ملتِ تشیع کے بے گُناہوں کے خُون کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ایک فردکا قتل تو پوری نسلِ انسانی کا قتل ہے، سو جو سینکڑوں بیگُناہ مارے گئے؟؟؟ ( بِاَیِّ ذَنبِِ قُتِلَت O القرآن) 

مجھے ایسے حکمرانوں کی رعایا بننے پر بھی ازِحد شرمندگی محسوس ہوتی ہے جو اپنی سرحدوں کے اندر اپنی ہی قوم کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔ جو ایک دوسرے کے خلاف نُکتہ چینیوں اور الزام تراشیوں پر دست و گریباں ہیں، اِس بات سے بے بہرہ کہ جس پر حکومت کے لئے وہ رسہ کشی میں مصروف ہیں، وہ قوم آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی جا رہی ہے۔ ہر روز بیسیوں ٹاک شوز، کالمز، مظاہرے، ریلیاں غرض ہر انداز میں کسی نہ کسی نے اِس مسئلے کو اُجاگر کرنے کی سعی کی ہے مگر حکومتِ وقت کو ہوش آیا ہے نہ عدلیہ ہی اِس میں اپنا کوئی کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ اگر یہ سب اِسی طرز پہ جاری رہنا ہے تو میں علمائے دین سے معذرت کے ساتھ عرض کرتی ہوں کہ اِس پِسی ہوئی قوم کو اجتماعی خودکُشی کی اجازت دے دی جائے، جو یقیناً دونوں اداروں کو بالکل بھی ناگوار نہ گُزرے گی۔
 
عزیزانِ وطن! یومِ عید پچھلے کچھ سالوں کی طرح اب کی بار بھی یومِ سوگ ٹھہرا ہے۔ اُن سب شہیدوں کو سلام ہے جو اِس مٹی اور دین کی محبت میں اِسی کے بازاروں، چوراہوں اور شاہراہوں میں کاٹ دیے گئے، اُن جانثارانِ وطن کو بھی سلام ہے جو اِس چمن کی حفاظت کا عہد نبھاتے نبھاتے جامِ شہادت نوش کرگئے اور پروردگار کی رحمتوں کے امیں ٹھہرے۔ اُن چند گنے چُنے افراد کی جرات کو بھی سلام ہے جنہوں نے ہر جگہ اپنی اپنی حد تک جبر و استبداد اور انتہائے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج اور صدائے حق بُلند کی۔ اُن سب جوانانِ ملت کو بھی سلام ہے جو ابھی بھی دشمنانِ اسلام اور دُشمنانِ محمد (ص) و آلِ محمد (ع) کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں اور اپنے نڈر اور بیباک ارادوں سے عدو کو نیست و نابود کرنے کا عزمِ جواں رکھتے ہیں۔
 
کوئٹہ کے باسیو، کراچی کے مکینو، گلگت بلتستان کے مظلومو اور اِس دیس میں بسنے والے تمام مجبور اور بے بس لوگو! عید کے ایام میں ساری قوم آپ کے دُکھ میں سوگوار ہے۔ آپ کے پیاروں کی المناک شہادتوں نے ہمیں بھی اُسی طرح غمگین کر رکھا ہے، جیسے ہمارے صحنوں سے بھی کوئی بلائے ناگہانی گُزر گئی ہو۔ ہمارے گلی کُوچے بھی اُسی طرح ویران اور سنسان پڑے ہیں جیسے تمہارے۔ ایک سرد کُہر طاری ہے۔ جیسے ہر طرف موت کی سختی ٹھہری ہو۔ آپ سب کے غم و اندوہ نے ہمیں بھی نڈھال کر رکھا ہے۔ ہم سب ایامِ عید میں رب کے حضور دعا گو ہیں کہ ایسی بربریت کا وہ جلد از جلد خود حساب لے، کیونکہ یہ اُسی کا فیصلہ ہے کہ وہ ظالموں کو ہرگِز معاف نہیں کرتا۔ یاد رکھیں! شہداء کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا، اُن کے لہو کے چھینٹے تاریخ کی جبیں پہ چمکتے رہتے ہیں اور آنے والی حق پرست نسلوں کے لئے مشعلِ راہ کا کام دیتے رہتے ہیں۔ اللہ! بحقِ چہاردہ معصومین (ع) ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اٰمین
قریب ہے یارو روزِ محشر چُھپے گا کُشتوں کا خُون کیونکر؟
جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پُکارے گا آستیں کا!
خبر کا کوڈ : 188727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش