3
0
Friday 29 Mar 2013 00:53

کرم ایجنسی، انتخابی حلقے اور مضبوط امیدوار (1)

این اے 38، فاٹا 3
کرم ایجنسی، انتخابی حلقے اور مضبوط امیدوار (1)
تحریر: ایس این حسینی

پورے ملک کی طرح کرم ایجنسی میں بھی الیکشن کا میدان سج گیا ہے۔ ہر طرف بینرز، پوسٹرز اور بڑے بڑے فینافلیکس نصب کئے جاچکے ہیں۔ امیدوار اپنی کامیابی کو ممکن اور یقینی بنانے کی کیلئے جلسے اور اجتماعات کر رہے ہیں، لیکن ہم یہاں جلسے جلوسوں سے قبل اس حلقے کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ 2003ء سے پہلے یہاں صرف ایک ہی حلقہ تھا جو الیکشن کمیشن کے پاس این اے 28 فاٹا 2 کے نام سے رجسٹرڈ تھا۔ 1970ء کے بعد، صرف 1990ء کے ملک سسٹم کے تحت ہونے والے انتخابات میں یہاں سے طوری اقوام کا نمائندہ سید یوسف حسین کامیاب ہوا تھا، جبکہ اس سے پہلے اور بعد میں پھر کبھی انہیں موقع نہیں ملا، اور پھر 2003ء میں پرویز مشرف کی جانب سے ملک بھر میں نئی حلقہ بندیوں اور اسمبلی ممبران میں 50 فیصد اضافے کے تحت یہاں بھی ایک حلقے کا اضافہ ہوا، چنانچہ کرم ایجنسی میں اس وقت قومی اسمبلی کے دو حلقے ہیں۔ این اے 37 اور این اے 38۔

این اے 37 کا ذکر بعد میں کریں گے۔ اس وقت ہم حتی الامکان این اے 38 کی پوزیشن واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہاں سے کون کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور انکی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں۔ 
این اے 38 میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد ایک لاکھ دو ہزار 621 ہے جن میں سے مرد ووٹروں کی تعداد 61 ہزار 127 ہے۔ این اے 38 کا بیشتر حصہ پہاڑی ہے۔ جسے کسی زمانے میں ایف آر کہا جاتا تھا۔ یہ علاقہ بندوبست شدہ نہیں، یعنی یہاں کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں، جبکہ این اے 37 پر نام تو ایجنسی کا ہی پڑا ہے تاہم دوسرے تمام قبائلی علاقوں کے برخلاف یہ نقشے اور ریکارڈ کا حامل باقاعدہ ایک بندوبستی علاقہ ہے، جبکہ ایف آر کرم، جسے اس وقت سنٹرل کرم کا نام دیا گیا ہے، کو ایک سازش کے تحت کرم ایجنسی میں اصل باشندوں کی آبادی کا تناسب کم ظاہر کرنے کی نیت سے 1970ء کی دھائی میں کرم ایجنسی میں شامل کر دیا گیا تھا۔ شروع میں اس کا نام ایف آر کرم رکھا گیا، لیکن پاراچنار کے ترقی یافتہ قبائل کی جانب سے باربار ایف آر کو الگ کرنے کے مطالبے کے بعد 2001ء میں اسے سنٹرل کرم کا نام دیا گیا۔

سنٹرل کرم کا صدر مقام ڈوگر ہے، تاہم سرکاری امور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کی انجام دہی کے لئے اس کا مرکز اس وقت صدہ ہے۔ اس حلقے کے انتہائی مشرق میں خیبر اور اورکزئی ایجنسی کی طرف اورکزئی کے ذیلی قبیلے علی شیر زئی، خوائداد خیل، ماسوزئی، وتی زئی وغیرہ جبکہ اسکے مغربی حصے میں افغان چمکنی کے ذیلی قبیلے پاڑے، خونی خیل، خواجک، بڈا خیل کے علاوہ لِسیانی آباد ہیں۔
اس حلقے سے اس وقت کئی غیر معروف امیدواروں کے ساتھ دو طاقتور اور معروف امیدوار کھڑے ہیں۔ مشرقی حصے سے منیر خان اورکزئی ہیں، جو دو مرتبہ اسی حلقے سے ایم این اے رہ چکے ہیں۔ جبکہ اسکے مقابلے میں مغربی حصے سے چمکنی قبیلے کے سنیٹر رشید خان ہیں۔ منیر خان نے گزشتہ دنوں صدہ میں ہونے والے مولانا فضل الرحمان کے انتخابی جلسے میں جے یو آئی (ف ) میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ منیر خان اورکزئی نہ صرف کرم ایجنسی بلکہ پورے فاٹا میں کافی شہرت کے حامل ہیں، کیونکہ حال ہی میں ختم ہونے والی قومی اسمبلی میں وہ فاٹا کے پارلیمانی لیڈر تھے اور صدر اور وزیراعظم کے ساتھ انکے قریبی تعلقات استوار تھے۔ 

جبکہ رشید خان نے بھی سینیٹر کی حیثیت سے علاقے میں اپنی قوت کافی مضبوط کی ہوئی ہے۔ موصوف 2003ء سے لیکر 2009ء تک سینٹ کا ایک ٹینیور پورا کرنے کے بعد دوسری مرتبہ پھر منتخب ہوگئے اور 2015ء تک ان کی رکنیت کارآمد ہے۔ چنانچہ دونوں امیدوار کافی طاقتور ہیں، انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں کافی ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ جس کی وجہ سے اپنے علاقے سے ووٹ حاصل کرنا دونوں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انکے درمیان مقابلہ خاصا کانٹے کا ہوگا۔
یہ واضح ہے کہ مشرقی اور مغربی دونوں علاقوں میں ایک روایتی رقابت پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہر قبیلہ اپنے ہی علاقے کے امیدوار کو ہی ووٹ دے گا۔ یعنی علی شیرزئی ماسوزئی اور خوائداد خیل کسی صورت میں بھی رشید خان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اسی طرح پاڑہ چمکنی کے قبائل کسی بھی قیمت پر رشید کے مقابلے میں منیر اورکزئی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ تاہم ان تمام خصوصیات کے ہوتے ہوئے پھر بھی دونوں کے لئے سب سے بڑی مشکل اور بڑا خدشہ جو ہے وہ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر انکے اپنے ہی قبیلے میں سے دوسرا کوئی ایک یا ایک سے زیادہ امیدوار کھڑے ہوگئے تو ایک ہی کمیونٹی اور قبیلے کے ووٹ تقسیم ہوکر دوسرا آسانی سے جیت سکتا ہے۔

یہ حلقہ یعنی این اے 38 مسلک کے اعتبار سے تقریبا 95 تا 98 فیصد اہل سنت آبادی پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں صرف چند دیہات طوری قبائل کے شامل ہیں۔ جن میں دڑادڑ جس میں اس وقت کوئی شیعہ موجود نہیں، گاودر جو کہ خود نسلا پاڑہ چمکنی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن مسلکاً شیعہ ہیں۔ یہ دونوں مقامات سینیٹر رشید خان کے حمایتی چمکنی قبائل (پاڑہ یا پاڑے) کے قریب پڑتے ہیں۔ اور منیر خان پر یہ لوگ شاید رشید خان کو ترجیح دیں گے۔ اسکے علاوہ جیلامئے اور چاردیوال (لوئر کرم) جنہیں گزشتہ فسادات کے دوران طالبان اور انکے حمایتی مقامی قبائل نے جلا کر ختم کر دیا تھا۔ اور جو اس وقت تیزی سے آباد ہو رہے ہیں، انکے علاہ انکے ساتھ ہی واقع گاؤں انجیرئی ان تینوں دیہات کا فاصلہ منیر اورکزئی کے اپنے گاؤں مندوری سے تقریبا 15 تا 20 کلومیٹر ہے۔ چنانچہ منیر اورکزئی کی رسائی ان تک آسانی سے ہوسکتی ہے۔ 

اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طوری قوم کے سابقہ ایم این اے ساجد حسین طوری کے تعلقات منیر خان کے ساتھ نہایت خوشگوار ہیں۔ اور وہ انکی بہت قدر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ انہیں لالا کہہ کر پکارتے ہیں، جبکہ خود ساجد طوری کا تعلق بیلیامین لوئر کرم سے ہے جبکہ چاردیوال اور انجیرئی دیہات انہی کی ملکیت ہیں، جو بیلیامین سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ چنانچہ ساجد حسین طوری کی حد تک ان دیہات کے لوگ قوی امکان ہے کہ منیر اورکزئی کو ووٹ دیں۔ تاہم رشید خان کے تعلقات منیر خان کی نسبت طوری قوم کے زعماء کے ساتھ بہت قوی اور قریبی ہیں اور انہوں نے یہاں کئی ترقیاتی منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے ہیں۔ چنانچہ وہ بھی طوری قوم میں موجود اپنے دوستوں کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے یہ ووٹ حاصل کرسکتا ہے۔ 

دشوار گزار راستے ووٹ میں روکاؤٹ: 
اس حلقے کا تقریباً 95 فیصد حصہ نہایت دشوار گزار پہاڑی سلسسلے پر مشتمل ہے۔ چنانچہ خدشہ ہے کہ بعض دیہات کے لوگوں کی پولنگ اسٹیشنوں تک رسائی نہ ہوسکے اور انکے ووٹ ضائع ہوں۔ لیکن یہ خدشہ دونوں جانب سے برابر پایا جاتا ہے۔ تاہم اسکے ساتھ اس پورے حلقے میں دھاندلی کے بھی 50 تا 70 فیصد واضح امکانات بھی پائے جاتے ہیں، کیونکہ یہاں کوئی انکوائری ٹیم یا سرکاری عملہ نہیں جاسکتا۔ جو دھاندلی پر قابو پاسکیں اور یہ علاقہ حکومت کی عملداری سے کافی حد تک خارج بھی ہے۔ یعنی یہاں حکومت کی رٹ پوری طرح قائم نہیں ہے۔ تو دونوں طرف سے جعلی ووٹ کاسٹ کرنے کا خدشہ نہیں یقین پایا جاتا ہے۔

حلقہ این اے 38 سے ان دو میں سے جو بھی جیتتا ہے، ہر ایک اپنی حد تک کافی اہمیت کا حامل ہے، رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے دونوں اگر ایک طرف لوگوں کے لئے بڑی تعداد میں ترقیاتی کام سرانجام دے چکے ہیں۔ تو دوسری طرف ضلع کچہری میں بھی انکے مسائل حل کرنے میں کوئی بخل نہیں دکھاتے۔ دونوں کا قدر مشترک یہ بھی رہا ہے کہ طوری اقوام کے مقابلے میں اپنی اقوام کے پلڑے کو ہمیشہ مضبوط کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ منیر خان اورکزئی کی کوششوں سے اس وقت طوری اتحاد میدان (شورکو) روڈ کے مزدور ایک ماہ سے جیل کاٹ رہے ہیں۔ انکا حکومت سے مطالبہ ہے کہ شورکو روڈ پر کام بند کیا جائے، حالانکہ یہ روڈ علامہ سید جواد ہادی کے تعاون سے طوری اقوام کے زعماء اپنی مدد آپ کے تحت خود تعمیر رہے ہیں۔  

جبکہ اب تو منیر خان کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کہ اس دفعہ وہ الیکشن مولانا فضل الرحمان کے ٹکٹ سے لڑ رہے ہیں۔ ادھر رشید خان بھی اس میدان میں ان سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔ انہی کی وجہ سے طوری اقوام کی 9 ہزار جریب پر پاڑہ چکنی نے زبردستی قبضہ جمایا ہے اور اس میں مسلسل آبادکاری بھی جاری ہے۔ رشید خان کے اثر ورسوخ کی وجہ سے اس مہم میں اسے مقامی انتظامیہ کی سپورٹ بھی حاصل ہے، چنانچہ دونوں بڑے فعال رہے ہیں اور اپنی اقوام کے ساتھ انہوں نے بڑی حد تک وفاداری دکھائی ہے۔ تاہم اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ منیر خان اورکزئی علاقے کے علاوہ باہر اسلام آباد کی سطح پر کافی شہرت کے حامل ہیں اور بزرگ سیاستدانوں، بیوروکریٹس حتی آصف علی زرداری وغیرہ کے ساتھ انکے تعلقات کافی قریبی رہے ہیں۔ چنانچہ اس حوالے سے اسکا پلڑا رشید خان پر بھاری نظر آتا ہے۔ 
تاہم اس حوالے سے رشید خان کو بھی حال ہی میں ایک برتری حاصل ہوگئی ہے کہ موجودہ گورنر خیبر پختونخوا انجنیئر شوکت اللہ انکے قریبی دوست ہیں اور گورنر خیبر پختونخوا کا فاٹا میں اثر و رسوخ نہیں بلکہ پوری حکومت ہوتی ہے۔ کیونکہ پولیٹیکل ایجنٹ دراصل گورنر کا نمائندہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر الیکشن میں گورنر کا اثر و رسوخ ممکن ہوا تو کرم میں سب سے زیادہ اس سے رشید خان مستفید ہوسکتے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 249524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
par lia bhi. boht acha. khoda ajar dy
bhai jan bhot acha hai, khobsurat dwsra kab aye ga.
ap ny chamkani qabila ko afghan leka hai. jab k wo afghan chamkani koi dosra qabila hai. wo jaji ki branch hai awr as ka salsala jo hy wo orakzi c milta hy.
note karen.
ہماری پیشکش