0
Monday 10 May 2010 10:28

ہلیری کلنٹن کا بیان ہماری سالمیت کیلئے کھلا چیلنج،امریکہ کو دشمن سمجھ کر دوٹوک جواب دیا جائے

ہلیری کلنٹن کا بیان ہماری سالمیت کیلئے کھلا چیلنج،امریکہ کو دشمن سمجھ کر دوٹوک جواب دیا جائے
 امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں ٹائمز سکوائر جیسے کسی واقعہ میں پاکستان کا تعلق پایا گیا تو اسے اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔گزشتہ روز ایک امریکی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کر رہا ہے،تاہم اسے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ان کے بقول ٹائمز سکوائر میں ناکام بم سازش میں ملوث فیصل شہزاد نے پاکستان میں تربیت حاصل کی،اس لئے آئندہ ایسے واقعہ پر ہمارا ردعمل شدید ہو گا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ماضی میں پاکستان کی جانب سے ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیلی گئی، ’’لپ سروس‘‘ بہت ہوئی مگر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے عملی اقدامات بہت کم ہوئے۔
جبکہ امریکا کے نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا رابرٹ بلیک نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی آپریشن کو افغان سرحد سے پنجاب تک وسعت دے۔
یہ انتہائی افسوسناک بلکہ تشویشناک صورت حال ہے کہ جس پاکستان نے مشرفی دور میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر اس خطہ میں شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر خود کو بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کا نشانہ بنوایا،جس کے نتیجہ میں ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور ملکی معیشت کو 40 ارب ڈالر کے قریب نقصان کا دھچکا لگا۔اس کے بارے میں کسی بھی معمولی واقعہ کو بنیاد بنا کر امریکہ کی جانب سے بدترین دشمنوں جیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور اپنی کالونی سمجھ کر اسے اپنی پالیسیاں ڈکٹیٹ کرائی جاتی ہیں’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا ہے،جبکہ یہ پالیسیاں ہمارے ملکی اور قومی مفادات اور غیرت کے تقاضوں کے بھی قطعی منافی ہوتی ہیں۔
ہلیری کلنٹن کا یہ بیان ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی نہیں،ہمیں سیدھی سیدھی دھمکی بھی ہے،جس پر محض رسمی ردعمل کا اظہار کافی نہیں ہو گا بلکہ ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو اب دو ٹوک الفاظ میں امریکہ کو باور کرانا ہو گا کہ وہ ہمیں اپنے لئے نرم چارہ نہ سمجھے۔ اگر اس نے ہماری سالمیت پر وار کرنے کی کوشش کی تو اسے لوہے کے چنے چبانا ہوں گے،جبکہ یہی وقت اب خود کو امریکی مفادات کی جنگ سے باہر نکالنے کا ہے۔جس کیلئے ہمارے حکمرانوں کو کسی مجبوری کا اظہار کرنا چاہئے نہ پس و پیش سے کام لینا چاہئے کیونکہ ہلیری کلنٹن کے بیان کے بعد ہمارے ساتھ دشمنی کے معاملہ میں امریکہ اور بھارت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا۔بھارت کی جانب سے بھی اسی طرح ممبئی حملوں کے خود ساختہ ڈرامہ کا ملبہ ہم پر ڈالنے کی سازش کی گئی اور نئی دہلی میں بھارتی وزیر داخلہ چدمبرم کے پہلو میں بیٹھ کر امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے بھی بھارتی زبان میں ہمیں یہی باور کرایا تھا کہ اگر اب بھارت میں ممبئی حملوں جیسا کوئی دوسرا واقعہ ہوا تو بھارت خاموش نہیں بیٹھے گا،اور اس کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑے گا۔ جبکہ اب امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی ٹائمز سکوائر کے نام نہاد واقعہ کی آڑ میں اسی لب و لہجے کے ساتھ ہمیں باور کرایا ہے کہ اگر اب امریکہ میں ایسا کوئی واقعہ ہوا تو پاکستان کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فیصل شہزاد نام کا کوئی آدمی ٹائمز سکوائر کی ناکام واردات میں ملوث بھی ہے تو پاکستان اس میں کیسے ملوث ہو گیا جبکہ فیصل شہزاد تصدیق شدہ امریکی شہری ہے جس کی جانب سے امریکہ ہی میں سرزد کئے گئے کسی جرم کی ذمہ داری بھی امریکہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔پاکستان کے دورے پر تو کئی امریکی باشندے آتے رہتے ہیں۔اس لئے کیا محض اس بنیاد پر پاکستان کو اس کے جرم میں ملوث کر لیا جائے کہ فیصل شہزاد واردات سے قبل پاکستان کے متعدد دورے کر چکا تھا،جبکہ اپنے شہریوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا امریکی ایجنسیوں کی اپنی ذمہ داری ہے۔جن کی کوتاہیوں کی وجہ سے بالفرض اگر فیصل شہزاد کو ٹائمز سکوائر نیویارک میں دھماکہ خیز مواد پر مبنی گاڑی پہنچانے کا موقع ملا بھی تو اس پر پاکستان کیسے گردن زدنی ہو سکتا ہے۔
فیصل شہزاد کے حوالے سے جو باتیں منظر عام پر آر ہی ہیں اس کی روشنی میں تو ٹائمز سکوائر کا نام نہاد واقعہ ممبئی حملوں کی طرح ہی خانہ ساز نظر آتا ہے اور ممکن ہے اس مقصد کیلئے فیصل شہزاد کو پاکستان پر ملبہ ڈالنے کیلئے استعمال کیا گیا ہو،قانونی ماہرین تو فیصل شہزاد کے کیس کی تیز ترین کارروائی پر بھی حیران ہیں کہ صرف ایک ہی دن میں اس کی گرفتاری بھی عمل میں آ گئی۔اس سے اعتراف جرم بھی کرایا گیا اور اس پر فرد جرم بھی عائد کردی گئی جبکہ یہ کام نیویارک کے اس فیڈرل اٹارنی پربت بھرارا کے ہاتھوں پایۂ تکمیل کو پہنچا جو ایک متعصب ہندو ہے،اور پاکستان مخالف رویے کی وجہ سے خاصہ مشہور ہے۔ 
نائن الیون کے واقعہ کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کا مقدمہ نیویارک منتقل کرانے میں بھی اسی نے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ اس کی یہودی بیوی اس کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی معاون بیان کی جاتی ہے۔امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اسی تناظر میں پربت بھرارا اور اس کی اہلیہ کی مشکوک سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہے۔اس لئے فیصل شہزاد کے معاملہ میں اس کی سرگرمیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ سازش پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈال کر اسے مزید دبائو میں لانے اور اس سے فوجی آپریشن کے دائرے میں مزید وسعت دینے کا تقاضہ کرنے کی ہو سکتی ہے،ہلیری کلنٹن کے گزشتہ روز کے بیان سے اسی سازش کی بُو نظر آتی ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں ٹائمز سکوائر کے واقعہ کے پس منظر میں یہی عندیہ دیا تھا کہ اب امریکہ پاکستان کو عسکریت پسندوں کیخلاف کارروائی تیز کرنے کیلئے کہے گا،جبکہ امریکا کے نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا رابرٹ بلیک کی جانب سے فوجی آپریشن کو افغان سرحد سے پنجاب تک وسعت دینے کے تقاضے کیساتھ ساتھ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوجی کمانڈر جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے بھی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کر کے شمالی وزیرستان میں فوری طور پر آپریشن شروع کرنے کا تقاضہ کیا ہے،اس لئے ٹائمز سکوائر واقعہ کی آڑ میں پاکستان پر دبائو بڑھانے اور اسے ’’ڈومور‘‘ کے زیر بار رکھنے کیلئے سارا ڈرامہ تیار کیا گیا ہے۔اس دوست نما دشمن سے ہم بھلا اپنے لئے خیر کی توقع کیسے کرسکتے ہیں جبکہ وہ اپنے مفادات کی جنگ میں تباہ ہونے والی ہماری معیشت کا نقصان بھی ہم سے ہی پورا کرانا چاہتا ہے۔اس سلسلہ میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کے اس بیان سے صرفِ نظر کرنے کی حماقت نہیں کی جانی چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 35 ارب ڈالر کے نقصان کو پورا کرنے کیلئے پاکستانی عوام پر مزید ٹیکس لگائے جائیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ نے ہماری افواج کو بھی اپنے شہریوں کے مدمقابل کھڑا کیا ہوا ہے اور آپریشن کا دائرہ افغان سرحد سے پنجاب تک بڑھانے کا تقاضہ کر رہا ہے جبکہ وہ خود بھی آئے روز کے ڈرون حملوں کے ذریعہ ہمارے ملک کی دھرتی کو اجاڑنے،ہمارے بے گناہ شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کا خونِ ناحق بہانے اور ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں مصروف ہے اور اس کا نقصان بھی ہمارے بے بس اور مظلوم شہریوں سے ہی پورا کرنا چاہتا ہے۔ لگتا ہے امریکہ ہر طریقے سے پاکستان کو ڈی سٹیبل کرنا چاہتا ہے اس لئے کیا اب ضروری نہیں ہو گیا کہ اس کمبل سے مستقل طور پر جان چھڑالی جائے اور اسے بھارت جیسا اپنا بدترین دشمن قرار دے کر اس کے ساتھ دشمن والا ہی سلوک کیا جائے؟ اس کے مفادات کی جنگ میں ہماری معیشت کو پہنچنے والے اربوں ڈالر کے نقصان کا اس سے ہرجانہ وصول کیا جائے،اس کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کردیا جائے اور اسے بوریا بستر سمیٹ کر افغان دھرتی سے بھی اپنے ملک واپس لوٹنے پر مجبور کیا جائے۔
جو ہو چکا سو ہو چکا۔اب مزید اس کے ناز نخرے اور نادر شاہی احکام برداشت نہ کئے جائیں اور اسے آزاد و خود مختار ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہونے کا ثبوت فراہم کیا جائے،فیصل شہزاد کے معاملہ میں حکومت کو امریکہ سے کسی قسم کی ہدایات لینے اور اسے اپنی فرمانبرداری کا یقین دلانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ہمارے لئے دفاع وطن ہی اولین ترجیح ہے جبکہ ہمارے وزیر خارجہ کیساتھ سر جوڑنے والی ہلیری کلنٹن کا بیان ہماری آزادی و خودمختاری کیلئے کھلم کھلا چیلنج ہے۔اس صورت حال میں ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو دفاع وطن کے تقاضے بہر صورت نبھانے ہوں گے۔
 "روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 25516
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش