0
Thursday 6 Jun 2013 13:18

سید روح اللہ کا سیاسی تفکر

سید روح اللہ کا سیاسی تفکر
تحریر: سید میثم ہمدانی
mhamadani@ymail.com

سید روح اللہ الموسوی امام خمینی (رح) بیسویں صدی کی ایک ایسی اسلامی انقلابی شخصیت ہیں کہ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ امام خمینی (رح) کی پوری زندگی استکبار مخالف کوششوں میں گذری۔ آپ جہاں عصر حاضر کے عظیم فقیہ، بلند مرتبہ فلسفی، نامدار عارف اور بے نظیر قائد و رہبر مانے جاتے ہیں وہیں سیاسی زندگی میں بھی آپ بے مثال ہیں۔ امام خمینی (رح) کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ آپ نے اسلام کے سیاسی نظام کو کہ جو ایک عرصہ تک زمانے کی آنکھوں سے اوجھل رہا فقہ کی کتابوں سے نکال کر معاشرے میں رائج کیا اور اسی وجہ سے امام کا سیاسی تفکر جو حقیقی اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے، دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ آپ کا سب سے پہلا قدم دین اور سیاست میں جدائی کے نظریہ کو باطل کرنا تھا۔ 

جب سے اسلامی دنیا میں امامت، خلافت میں تبدیل ہوئی اور پھر یہ خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور مسیحی دنیا میں قرون وسطٰی میں گرجا گھر کی حکومت نے عقل مخالف فیصلہ دیا اور ظلم کے نئے باب رقم کئے تو اس کے ساتھ ساتھ دین کی سیاست سے جدائی کے تفکر کا نظریہ بھی رواج پاگیا اور بالآخر انقلاب فرانس اور رنسانس کے ساتھ ہی دین کو مکمل طور پر سیاست سے جدا کر دیا گیا اور یہی فکر اسلامی دنیا کے علمی مراکز میں بھی رائج ہوگئی اور یہاں بھی سیاست کو شجر ممنوعہ بلکہ خبیثہ جان کر اس سے دوری کو واجب جانا جانے لگا۔ استکبار کے لئے بھی یہ نظریہ بہت اہمیت کا حامل تھا چونکہ اس طرح وہ مکمل آزادی کے ساتھ تمام ممالک پر قابض ہو کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرسکتا تھا۔
 
امام خمینی نے جب ایران میں موجود باطل شہنشاہیت اور اس کے آقا و مرشد امریکہ کے خلاف آواز اٹھائی تو آپ کو بالآخر اپنے ہی ملک سے جلا وطن کر دیا گیا اور آپ سب سے پہلے ترکی، پھر عراق اور فرانس کی جانب ملک بدر کر دیئے گئے۔ امام خمینی (رح) نے عراق میں اپنی جلاوطنی کے دوران حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ولایت فقیہ کے موضوعات پر اپنے دروس کا آغاز کیا اور ملت کو دین اور سیاست میں جدائی کے زہریلے نظریئے سے آشنا کیا۔ آپ کی نگاہ میں سیاست کوئی شجر ممنوعہ نہیں بلکہ ایک الہی ذمہ داری ہے کہ جسکو انجام دینا دینی علماء کا فریضہ ہے۔ آپ نے قرآن و احادیث اور منقولہ ادعیہ کی روشنی میں ثابت کیا کہ انسانی معاشرے میں سیاست کی ذمہ داری انبیاء، آئمہ اور ان کے بعد علماء پر عائد ہوتی ہے۔ آپ کا یہی سیاسی نظریہ تھا کہ جس نے اسلامی دنیا میں امید کی نئی کرن ایجاد کی اور ایران جیسا معاشرہ کہ جو اڑھائی ہزار سالوں سے نسل در نسل مختلف بادشاہوں اور نظام ملوکیت میں زندگی گزار رہا تھا، اس باطل نظام کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہو اور امامت و ولایت کے نظام کی طرف پلٹ آیا۔
 
امام خمینی (رح) کا سیاسی تفکر محکم اصول و قواعد بر مبنی ہے کہ جو اسلامی تعلیمات سے اخذ کئے گئے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای (مدظلہ العالی) امام خمینی کی زندگی پر حاوی تین بنیادی اصولوں کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ امام خمینی اپنی زندگی میں تین بنیادی اصولوں پرقائم رہے: 
1۔ خدا پر یقین
2۔ عوام پر اعتماد
3۔ اپنی ذات پر اعتماد، یعنی امام خمینی (رح) سب سے پہلے خدا پر یقین کامل رکھتے تھے اور اسی وجہ سے انکی سیاسی زندگی اور سیاسی تفکر میں بھی خدا کا رنگ بہت نمایاں ہے۔
جب ایرانی فورسز نے خرم شہر فتح کیا اور وہاں سے بعثی افواج سے کو نکال دیا تو امام کو اس واقعہ کی خبر دی گئی۔ امام نے خرم شہر کی فتح کی خبر سننے کے فوراً بعد فرمایا: "خرم شہر را خدا آزاد کرد" یعنی خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا۔ 

آپ کے سیاسی تفکر میں عوام الناس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ آپ نے لوگوں کو حقیقی طور پر ملکی معاملات میں شریک کیا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی اور بقا کا راز بھی ایران کے عوام اور لوگوں کی حمایت ہے۔ اسی طرح آپ خود اعتمادی کی نعمت سے بھی مالا مال تھے۔ ایک دفعہ اوائل انقلاب میں جب آپ فرانس سے ایران تشریف لائے تو لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کو آرہے تھے، آپ ہر روز ایک مخصوص وقت میں گھر سے باہر موجود لوگوں کے نعروں کا جواب دینے کیلئے آتے، اسی دوران جب ہزاروں لوگ آپ کی حمایت میں اور استکبار اور شاہ کے خلاف نعرے لگا رہے تو آپ نے اپنے قریب موجود ایک شخصیت سے فرمایا: اگر یہ سب لوگ جو آج میری حمایت میں نعرے لگا رہے ہیں یہی سب لوگ میری مخالفت میں نعرے لگانا شروع کر دیں تو بھی میں وہی کام انجام دوں گا جو ابھی دے رہا ہوں۔
 
امام خمینی (رح) کے سیاسی تفکر میں چند ایک بنیادی اصولوں کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: 
1۔ شرعی ذمہ داری:
 امام اپنے تمام کاموں حتی سیاسی امور کو بھی شرعی ذمہ داری کے طور پر انجام دیتے تھے۔ امام خمینی ایک موقع پر فرماتےہیں: "ما بنا داریم بہ تکلیف عمل کنیم" (صحیفہ نور، جلد ۶) یعنی ہم اپنی شرعی ذمہ داری کو انجام دیں گے۔
2۔ خاص شرائط کا خیال رکھنا:
امام فرماتے ہیں "زمان و مکان دو عنصر تعین کنندہ در اجتہاد اند" (صحیفہ نور، جلد ۲۱) زمان و مکان اجتہاد میں دو بنیادی عناصر ہیں۔
3۔ اسلام و مسلمین کی مصلحت۔ 
4۔ ولایت الہی۔
5۔ تبلیغ اسلام۔
6۔ عدالت۔ 
7۔ استعمار اور استکبار کی نفی۔ 
8۔ مظلومین کی حمایت۔
9۔ دین اور سیاست کا جدائی ناپذیر ہونا۔ 
10۔ عقلانیت اور آزاد اندیشی۔ 
11۔ لوگوں کو حکومت میں شریک کرنا۔
12۔ اہم کو مہم پر مقدم کرنا۔ یعنی اسلامی نظام کی حفاظت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔
خبر کا کوڈ : 271083
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش