0
Tuesday 2 Jul 2013 15:37

قطر میں اقتدار کی منتقلی کے پس پردہ عوامل

قطر میں اقتدار کی منتقلی کے پس پردہ عوامل
اسلام ٹائمز- سیاسی عہدیداروں کی تبدیلی اور ان کی اقتدار سے برکناری اور ان کی جگہ دوسرے افراد کو جمہوری یا غیرجمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی ایسے رائج امور میں سے ہے جو عام طور پر نہ فقط کسی تعجب کا باعث نہیں بنتا بلکہ سیاست کی دنیا میں ہمیشہ ہی اس کے ایک یا چند مصادیق موجود رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مختلف ممالک کے حکومتی عہدیداروں میں تبدیلی اور اس کی ھیئت حاکمہ میں دگرگونی کوئی غیرمعمولی یا خلاف توقع چیز نہیں سمجھی جاتی اور ہم ہر ہفتے یا ہر مہینے دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے متعدد نمونے دیکھتے رہتے ہیں۔ 

لیکن اس کے باوجود تین ماہ قبل جب قطر کے امیر کی سبکدوشی کی باتیں شروع ہوئیں اور اس کے ساتھ ہی اس کی جگہ اس کے 33 سالہ بیٹے کے برسراقتدار آنے کی افواہیں بھی میڈیا کی فضا میں اڑنے لگیں تو کسی نے بھی اسے ایک معمولی اور فطری امر قرار نہ دیا۔ لہذا اس موضوع کے بارے میں لاتعداد اور بعض اوقات متضاد تجزیات سامنے آنا شروع ہو گئے اور تیل سے مالامال ایک چھوٹے سے ملک قطر میں ممکنہ سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں مبہم اور پراسرار خبریں شائع ہونا شروع ہو گئیں۔ 

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جب امیر قطر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے منگل 25 جون کو ایک تقریب کے ذریعے اقتدار رسمی طور پر اپنے 33 سالہ بیٹے شیخ تمیم کو منتقل کر کے ان افواہوں کو حقیقت بخش دی تب بھی اس واقعے کی پراسراریت اور ابہام میں کوئی کمی نہ آئی۔ جیسا کہ کسی نے بھی امیر قطر کی جانب سے اقتدار کی پرامن منتقلی کو اپنے اس فعل کا مقصد بیان کرنے پر یقین نہ کیا بلکہ سب کی یہی کوشش رہی کہ اس اہم سیاسی تبدیلی کی حقیقی وجوہات کو سیاسی محققین اور تجزیہ نگاروں کے بیانات اور ان کی تحریروں میں جستجو کریں یا پھر خود سے اقتدار کی اس منتقلی کے پس پردہ حقائق کو جاننے کیلئے تحقیق انجام دیں اور قطری حکام کے بیانات سے قطع نظر اور ان سے وابستہ مغربی اور عربی میڈیا پر آنے والے تجزیات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنی طرف سے مختلف قیاس آرائیاں پیش کریں۔ 

قطر کے مستعفی ہونے والے امیر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کی اخلاقی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بعید نظر آتا ہے کہ وہ اقتدار میں باقی رہنے کی خواہش نہ رکھتے ہوں۔ امیر قطر وہی شخص ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اقتدار کی خاطر اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی۔ دوسرے الفاظ میں انٹرنیشنل ریلیشنز سے وابستہ تقریبا تمام سیاسی محققین اور تجزیہ نگار اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اقتدار کی یہ منتقلی مکمل طور پر غیرمتوقع ہے۔ ہم اسی تناظر میں اس واقعے کو غیرمتوقع قرار دینے والے افراد کی جانب سے پیش کئے جانے والے دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اس کے پراسرار ہونے میں کارفرما عوامل اور ان سے مربوطہ چند اخبار کا جائزہ لیں گے۔

قطر میں اقتدار کی منتقلی غیرمتوقع کیوں؟
اول یہ کہ قطر کے سابق امیر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کے ماضی پر نظر دوڑانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے شخص نہیں جو اپنے دل سے چاہتے ہوئے اس اقتدار کو اپنے جوان بیٹے کے حوالے کر دیں جسے انہوں نے خود چند سال پہلے اپنے باپ سے چھینا تھا۔ طاقت کے حصول کیلئے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کرنے والا شخص کا دل کیسے راضی ہو سکتا ہے کہ اسی طاقت کو پلیٹ میں رکھ کر کسی اور شخص کے حضور پیش کر دے چاہے وہ شخص اس کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو؟

دوسرا یہ کہ شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کی عمر اس وقت 61 سال ہے اور عرب دنیا اور کلی طور پر دنیا میں یہ کوئی ایسی عمر نہیں سمجھی جاتی جس میں شخص حکومتی امور انجام دینے سے قاصر یا معذور ہو جائے۔ خاص طور پر اس وقت جب خطے کے دوسرے عرب ممالک کے حکمران انتہائی بڑی عمر کے ہیں۔ مثال کے طور پر کویت کے امیر شیخ صباح احمد جابر صباح اس وقت 83 سال کے ہیں جبکہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبداللہ بھی زندگی کی 86 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ یہ افراد قطر کے مستعفی ہونے والے امیر سے تقریبا 20 سال زیادہ بوڑھے ہیں۔ لہذا زیادہ عمر کا بہانہ بھی منطقی محسوس نہیں ہوتا۔ 

تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تقریبا تین ماہ قبل تک شیخ حمد کی بیماری کے بارے میں کوئی خبر منظرعام پر نہیں آئی تھی اور اس کے بعد بھی جو خبریں سننے کو ملیں ان پر کسی نے سنجیدگی ما مظاہرہ نہیں کیا اور انہیں افواہیں قرار دے کر نظرانداز کر دیا گیا۔ دوسری طرف خطے کے دوسرے عرب حکمرانوں کے بارے میں بھی شدید بیماری کی خبریں موجود ہیں جیسا کہ الجزائر کے صدر بوتفلیقہ، عراق کے صدر جلال طالبانی اور سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبداللہ۔ ان رہنماوں کی بیماری کے بارے میں رسمی طور پر رپورٹس بھی منظرعام پر آ چکی ہیں لیکن کسی نے اس بیماری کی وجہ سے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کی بات نہیں کی۔ 

چوتھی بات یہ کہ عرب ممالک میں بغیر کسی کشمکش اور انتہائی پرامن انداز میں اقتدار کی منتقلی ایک غیرمعروف امر ہے جس کا ماضی میں کوئی سابقہ نہیں ملتا۔ 
ان تمام نکات کی روشنی میں ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ظاہری طور پر ہی سہی قطر میں اقتدار کی یہ منتقلی انتہائی غیرمتوقع تھی۔ 

قطر میں اقتدار کی منتقلی "پراسرار" کیوں؟
عرب دنیا پر حکمفرما سلطنتی خاندانوں میں سیاسی مہروں کی تبدیلی کا انتہائی خفیہ اور غیراعلانیہ ہونا اور ساتھ ہی قطر میں اقتدار کی منتقلی میں سابق امیر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کی تیسری بیوی شیخہ موزہ بنت ناصر المسند کی جانب سے مرکزی کردار ادا کرنے پر مبنی خبروں نے خطے میں انجام پانے والی اس اہم سیاسی رویداد کے بارے میں سسپنس اور پراسراریت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ان کے علاوہ مندرجہ ذیل عوامل بھی قطر میں اقتدار کی اس منتقلی میں موثر ثابت ہوئے ہیں:

1.    قطر حکومت کی جانب سے انتہائی مخصوص انداز میں ایک ہی وقت میں ایک طرف برطانیہ، امریکہ اور فرانس جیسے مغربی ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات اور دوسری طرف فلسطینی گروہوں اور اخوان المسلمین کے ساتھ تعلقات جو دوسرے عرب ممالک کی جانب سے مغربی دنیا اور فلسطینی گروہوں اور اخوان المسلمین کے ساتھ تعلقات سے بالکل مختلف نوعیت کے ہیں، باعث بنے ہیں کہ قطر کا سیاسی برتاو انتہائی پیچیدگی کا شکار ہو جائے اور اس کی حقیقت کو سمجھنا شدید مشکل ہو جائے۔

2.    قطر حکومت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور امیر قطر کے اسرائیلی رہنماوں کے ساتھ ذاتی تعلقات۔

3.    قطر میں اقتدار کی منتقلی کا دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے قیام کے ساتھ ہمزمان ہونا۔

4.    اقتدار کی اس منتقلی کا شام میں حکومت مخالف مسلح گروہوں کی شدید سیاسی اور فوجی شکست کے ساتھ ہمزمان ہونا۔ اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ القصیر معرکے میں قطر کے سابق امیر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے ذاتی طور پر شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں کی سرپرستی اور ان کی پلاننگ کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ دوسری طرف القصیر معرکے میں حکومت مخالف مسلح گروہوں کی شکست کے نتیجے میں ایک مضبوط اور اسٹریٹجک اہمیت کا حامل مورچہ ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ 

5.    خاندانی اختلافات، وزیراعظم اور ولی عہد کے درمیان اختلافات، سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے بعض دوسرے ممالک کی جانب سے قطر میں سیاسی تبدیلیاں لانے کی کوششیں اور مشرق وسطی سے مربوط دوحہ کی پالیسیوں پر خطے کی بعض اہم شخصیات اور سیاسی رہنماوں کی جانب سے شدید تنقید بھی اقتدار کی اس منتقلی کی اہم وجوہات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ 

6.    قطر میں اقتدار کی منتقلی کا لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملے کی تحقیقات جس میں امریکی سفیر بھی ہلاک ہوا تھا، اور قطر کے حمایت یافتہ تکفیری گروہوں کا اس حملے میں مورد الزام ٹھہرائے جانے سے ہمزمان ہونا۔ 

7.    قطر میں خطے کے اہم ترین امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی جس کے باعث امریکہ اس ملک میں انجا پانے والی ہر سیاسی فعالیت اور تبدیلی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور ضرورت پڑنے پر کسی قسم کی مداخلت سے دریغ نہیں کرتا۔ 

نتیجہ گیری:
پہلے حصے میں بیان ہوئی چار وجوہات اور دوسرے حصے میں ذکر ہوئے سات عوامل امیر قطر کی سبکدوشی اور انکی جگہ ان کے بیٹے کے برسراقتدار آنے کے بارے میں وسیع پیمانے پر چہ مگوئیاں اور قیاس آرائیوں کی پیدائش کا باعث بنے تھے۔ اسی وجہ سے ہر نیوز چینل یا ہر سیاسی تجزیہ نگار بعض مشترکہ نظریات کے علاوہ بالکل مختلف قسم کے سیاسی تجزیئے پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قطر میں اقتدار کی اس غیرمتوقع تبدیلی اور منتقلی کے بارے میں پیش کئے جانے والے مختلف نظریات اور وجوہات کی چند مثالیں کچھ یوں ہیں۔

•    خاندانی اختلافات اور جھگڑے اور شہزادوں کے درمیان طاقت کی جنگ پر قابو پانے میں سابق امیر قطر کی ناکامی۔
•    سابق امیر قطر کی خرابی صحت۔
•    وزیراعظم اور ولیعہد کے درمیان اختلافات۔ 
•    مشرق وسطی میں شدت پسندی کو کنٹرول کرنے کیلئے امریکی حکمت عملی۔
•    لیبیا میں امریکی قونصیٹ پر حملہ۔
•    موجودہ شکل میں تکفیری شدت پسندی کا آوٹ آف ڈیٹ ہو جانا اور اس ضرورت کا احساس کہ تکفیری گروہوں کو بے سرپرست رہنا چاہئے۔
•    شام میں عملی منصوبوں کا ناکام ہو جانا اور ترک وزیراعظم اردگان جیسے تجربے کا تکرار۔ 
•    شام کے دو فوجی اور سیاسی محاذوں پر دوحہ کی شکست اور امیر قطر کی غیرموجودگی میں شام سے متعلق اجلاس کا انعقاد۔
•    امریکہ اور برطانیہ کے درمیان قطر پر قبضے کی جنگ۔ 
•    سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے بعض دوسرے عرب ممالک کی جانب سے قطر میں سیاسی تبدیلیوں کی کوشش۔
•    مشرق وسطی سے مربوط قطر کی پالیسیوں کے خلاف خطے کی بعض اہم سیاسی شخصیات کی جانب سے شدید تنقید۔ 
•    عربی غربی پالیسیوں کی وجہ سے قربانی کا بکرا بننا۔
 
خبر کا کوڈ : 278906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش