0
Thursday 27 Jun 2013 15:57

قطر میں طالبان کا دفتر، مذاکرات اور توقعات

قطر میں طالبان کا دفتر، مذاکرات اور توقعات
تحریر: ثاقب اکبر 
 
بالآخر گذشتہ برس قطر میں امریکہ طالبان مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہونے کے بعد اب پھر جڑنے لگا ہے۔ اس سلسلے میں حتمی طور پر طرفین طالبان اور امریکہ ہیں یا طالبان اور کرزئی حکومت؟ اس سلسلے میں کرزئی حکومت کا موقف ہے کہ وہ افغان عوام کی نمائندہ ہے اور اصل مذاکرات اسی کو کرنے چاہئیں۔ ایسے میں طالبان کی حیثیت حزب اختلاف کی سی رہ جاتی ہے۔ 18 جون 2013ء کو وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر اہل کار نے اعلان کیا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے گا۔ اس پر کرزئی حکومت کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ صدر حامد کرزئی کے دفتر سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ افغان مذاکرات کار اس وقت تک قطر بات چیت سے دور رہیں گے جب تک غیر ملکی طاقتیں اس کی اجازت نہیں دیتیں کہ یہ عمل افغان عوام چلائیں۔ جب تک امن مذاکرات کا عمل افغانستان کے ہاتھ میں نہیں آتا، اعلٰی مذاکرات کونسل قطر میں طالبان سے مذاکرات میں شرکت نہیں کرے گی۔ یاد رہے کہ اعلٰی امن مذاکرات کونسل افغانستان 2010ء میں ایک گرینڈ جرگے کے فیصلے کی روشنی میں قائم کی گئی تھی۔
 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعاً کرزئی حکومت اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ وہ امریکہ سے کہے کہ اسے ’’اصل مذاکرات کار‘‘ کی حیثیت سے قبول کیا جائے اور پھر اس کے الگ ہونے سے مذاکرات کا عمل رک جائے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے مندرجہ ذیل حقائق کو سامنے رکھنا ہوگا:
(1) افغانستان میں نیٹو افواج نے حال ہی میں افغانستان میں سکیورٹی کا کنٹرول افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔
 
(2) نیٹو فورسز کو 2014ء کے اختتام تک اپنے اعلان کے مطابق افغانستان سے نکل جانا ہے لیکن امریکہ کی خواہش ہے کہ اس سے پہلے افغان حکومت کے ساتھ سکیورٹی کے ایک منصوبے کے نام پر چند ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رکھنے کا معاہدہ کرلے۔ ان دنوں کرزئی حکومت اور امریکی حکام کے مابین اس مجوزہ معاہدے پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ افغان حکومت نے قطر مذاکرات میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے اس بات چیت کو ملتوی کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ افغان حکومت اس مجوزہ معاہدے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم طالبان سے بات چیت کے دوران میں امریکہ اور افغان حکومت اس معاہدے کے حوالے سے طالبان کی تائید بھی حاصل کرنا چاہیں گے کیونکہ ان کی تائید کے بغیر بھی یہ معاہدہ خطرے سے دوچار رہے گا۔
 
(3) 2014ء میں افغانستان میں انتخابات بھی منعقد ہونا ہیں۔ افغان حکومت اور امریکہ دونوں کی خواہش ہے کہ طالبان مزاحمت ترک کرکے ان انتخابات میں حصہ لیں۔ اس طرح وہ موجودہ آئین کو قبول کرلیں گے اور انتقال اقتدار کا مرحلہ ان کی شرکت سے مکمل ہو جائے گا۔ یہ تو بظاہر ابھی خواہش سے زیادہ کچھ نہیں، ایسے میں اصل اور بنیادی کردار موجودہ افغان حکومت ہی کا رہ جاتا ہے۔ امریکہ اسے ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
 
اسی دوران میں ایک اور مسئلہ بھی پیش آگیا اور وہ یہ کہ قطر میں طالبان کے دفتر کے باہر’’دفتر امارات اسلامی افغانستان‘‘ کا بورڈ لگایا گیا تھا۔ علاوہ ازیں دفتر کی عمارت پر افغانستان میں طالبان دور کا جھنڈا بھی لگا دیا گیا۔ افغان صدر کے ترجمان نے اس مجموعی صورت حال کے بارے میں کہا کہ افغانستان امن مذاکرات کے حوالے سے امریکی حکومت کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ افغان حکومت نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب تک طالبان کے دفتر سے ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کی تختی اور عمارت سے اس کا جھنڈا نہیں ہٹایا جاتا، وہ مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔ ترجمان نے کہا کہ صدر کرزئی طالبان کے دفتر کے نام سے خوش نہیں ہیں۔ ہم اس نام’’ امارات اسلامی افغانستان‘‘ کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ایسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔
 
امریکہ نے افغان ردعمل کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ جس کے بعد قطر حکومت نے دفتر سے ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کی پلیٹ ہٹوا دی۔ البتہ خود طالبان کے لیے ایسا کرنا ایک کڑوی گولی نگلنے کے مترادف تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنی بات منوانے اور افغان حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے طالبان کو دھمکی دی کہ اگر طالبان صحیح سمت میں آگے نہیں بڑھتے تو دوحہ میں طالبان کا دفتر بند کرنا ہوگا۔ یہ کہہ کر جان کیری نے اس کھلے راز کو اور بھی کھول دیا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا دفتر امریکی اشارے پر ہی قائم کیا گیا ہے اور قطری حکومت محض سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ 

دوسری طرف طالبان نے بھی پہلی مرتبہ افغان حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ اس سے قبل وہ ہمیشہ افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں، اصل فریق مسئلہ امریکہ ہے، لہٰذا ہم امریکہ سے بلاواسطہ بات کریں گے۔ قطر میں طالبان دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے اس سلسلے میں کہا کہ ان کا دفتر تمام افغانوں کے لیے ہے، جو بھی آئے گا، اس سے بات کی جائے گی۔
 
بظاہر امریکہ یہ تاثر دینے لگا ہے کہ دوحہ میں دو افغان گروہوں کے مابین مذاکرات ہونے جا رہے ہیں اور امریکہ انھیں مدد اور حمایت فراہم کر رہا ہے۔ 25 جون کی صبح کابل میں افغان صدارتی محل کے قریب طالبان کے حملے کے بعد وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر اور افغان صدر نے آپس میں بات کی ہے اور اس امر کی توثیق کی ہے کہ افغانیوں کی زیر راہنمائی امن و مصالحت کا عمل تشدد کو ختم کرنے، افغانستان میں پائیدار امن اور خطے میں استحکام قائم کرنے کا یقینی راستہ ہے۔ ترجمان نے کہا کہ دونوں صدور نے افغان امن کونسل اور طالبان کے مجاز نمائندوں کے درمیان بات چیت کے لیے دوحہ میں دفتر کے قیام کے لیے اپنی حمایت کو دہرایا۔

بعض لوگوں کے ذہن میں ابھی تک یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ مذاکرات کے لیے ’’قطر‘‘ کی سرزمین کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے، جبکہ طالبان کی حکومت کو قطر نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ طالبان حکومت کو صرف تین ملکوں نے تسلیم کر رکھا تھا اور وہ ہیں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ بظاہر طالبان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔ اس سوال کا ایک سادہ سا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ ’’قطر‘‘ طالبان اور افغان حکومت دونوں کے لیے’’غیر جانبدار‘‘ مقام ہے، لہٰذا دونوں کے لیے قابل قبول ہے۔ علاوہ ازیں ایک طالبان نمائندے کا کہنا ہے کہ اگرچہ قطر حکومت نے باقاعدہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن ان کے قطری حکومت سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے بعض اہم طالبان راہنما قطر میں تجارت اور کاروبار کے عنوان سے مقیم ہیں۔ یہ لوگ بیشتر پاکستان کے راستے ہی قطر میں پہنچے ہیں اور کئی سالوں سے بعض طالبان راہنماؤں کا امریکی حکام سے رابطہ ہے۔ یہی رابطہ بالآخر دوحہ میں ان کے دفتر کے قیام کا باعث بنا ہے۔
 
البتہ قطر کے انتخاب کی بنیادیں اس سے کہیں زیادہ گہری ہیں اور معاملہ اس سے وسیع تر ہے۔ قطر کو امریکہ مشرق وسطٰی کی سیاست میں سعودی عرب کے متوازی آگے لا رہا ہے اور اب بہت سے معاملات میں قطر پیش پیش ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ جن کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
* مشرق وسطٰی میں ’’اسلامی بیداری‘‘ کے اثرات سعودی عرب میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں، لہٰذا سعودی عرب میں ممکنہ طور پر تبدیلی یا انقلاب کی لہر کسی بھی وقت تیز ہوسکتی ہے۔
*قطر آبادی کے لحاظ سے ایک نسبتاً چھوٹا ملک ہے اور وہاں عوام کو قابو میں رکھنا نسبتاً آسان ہے۔ وہاں بھی ایک خاندانی بادشاہت قائم ہے اور ابھی تک وہاں تبدیلی کی کوئی قابل ذکر لہر بھی نمودار نہیں ہوئی۔
 
*قطر میں حکمران خاندان کے اسرائیل سے بہت گہرے اور قریبی روابط ہیں۔ بعض فلسطینی گروہوں کو قابو میں رکھنے کے لیے قطری وسائل ماضی میں بھی استعمال ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ حماس نے بھی چند ماہ پہلے شام کو ترک کرکے قطر میں اپنا مرکز قائم کر لیا ہے۔ اس طرح سے گویا حماس بلاواسطہ امریکہ اور اسرائیل کی زیر نگرانی آگئی ہے۔ شامی حکومت کے حوالے سے حماس نے جو پینترا بدلا ہے اس سے اس کا پس منظر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
 
*شام کے مسئلے میں قطری حکومت سو فیصد امریکی اور اسرائیل پالیسی پر کار بند ہے۔
*قطر کے پاس بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں اور وہ علاقے کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔ امریکا اس کے وسائل کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
*قطری حکومت کے عرصۂ سیاست میں سرگرم ہونے سے امریکی اتحادیوں کا علاقائی محاذ اور بھی مضبوط ہو گیا ہے۔
 ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو طالبان کے دفتر اور مذاکرات کے مرکز کے موجودہ انتخاب کی ’’حکمت‘‘ سمجھ میں آسکتی ہے۔
 
زیر بحث موضوع کا آخری اور سب سے اہم نکتہ اس دفتر کے قیام سے وابستہ توقعات کا ہے۔ ہماری رائے میں وقت آج جس مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اس میں ’’طرفین‘‘ یا ’’اطراف‘‘ میں سے کوئی بھی مذاکرات کے راستے کو ترک کرنے کی ’’عیاشی‘‘ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بھی بارہا مذاکرات کے اس عمل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی مذہبی قیادت نے بھی عام طور پر ان مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ تحریک انصاف جیسی پارٹیوں نے بھی مذاکرات کے عمل کی حمایت کی ہے۔ اگر ناٹو افواج کو 2014ء کے آخر تک افغانستان سے نکلنا ہے اور 2014ء کے انتخابات کو سب گروہوں کے لیے قابل قبول بنانا ہے، ناٹو فورسز کے بعد افغانستان میں باہمی سرپھٹول سے بچنا ہے اور امریکہ کو افغانستان کے مستقبل میں اپنا کچھ حصہ بچا کر رکھنا ہے تو اس کا راستہ فی الوقت مذاکرات کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے لیکن کون کس طرح سے اپنے گھوڑے پیادے آگے بڑھاتا ہے اور میدان میں کون کسی کو مزید کتنا دباؤ میں لاسکتا ہے یہ پہلو بھی ان مذاکرات پر موثر ہوں گے۔ سب کو کچھ بچانے کے لیے کچھ دینا ہوگا۔ مذاکرات کی ضرورت پر سب کا اتفاق ظاہر کرتا ہے کہ سب کچھ لو کچھ دو پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ تاہم کسی بھی مرحلے پر کوئی جذباتی طرز عمل افغان مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 277275
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش