0
Monday 16 Sep 2013 04:12

امریکی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کی خالق بھی اور استعمال گر بھی

امریکی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کی خالق بھی اور استعمال گر بھی
تحریر: صابر کربلائی (ریسرچ سکالر)  

بات جب کیمیائی ہتھیاروں کی ہو رہی ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں ہمیں ایسے واقعات نظر آتے ہیں جس سے ایک بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار اور دنیا میں امن قائم کرنے کا ذمہ دار سمجھتا ہے، خود ہی ان مہلک اور انسان دشمن کیمیائی ہتھیاروں کا خالق بھی رہا ہے اور ان سے استفادہ بھی کرتا رہا ہے، بات عراق کی ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ آخر عراق میں صدام حسین جیسے ڈکٹیٹر کو مہلک اور کیمیائی ہتھیار کس نے سپلائی کئے اور پھر کس طرح ان ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا، جس سے ہزاروں انسانی جانوں کو نقصان بھی پہنچا اور پھر بعد میں یہ بات مختلف حوالوں سے منظر عام پر آتی رہی کہ امریکہ نے عراق میں ڈکٹیٹر صدام حسین کو 1980ء سے 1988ء کے دوران ایران پر جنگ مسلط کرنے کے بعد کیمیائی ہتھیار فراہم کئے، جسے عراقی ڈکٹیٹر نے بے دھڑک استعمال کیا، جس کے شواہد آج بھی ایران میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ جہاں امریکی حکومتوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا پھیلائو کیا اور استعمال کیا ہے، وہاں امریکی حکومت نے اپنے ہی ملک کے شہریوں پر بھی ان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے دریغ نہیں کیا ہے۔ آج امریکہ کے پاس یہ بہترین بہانہ موجود ہے کہ جس ملک پر حملہ کرنا ہو یا وہاں بحران پیدا کرنا ہو تو کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر حملہ کر دیا جاتا ہے اور حال ہی میں یہی ماجرا شام اور شام کی حکومت کے ساتھ پیش آ رہا ہے کہ جہاں امریکی پشت پناہی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہ علی الاعلان امریکہ سے اپنے اتحاد کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ بھی علی الاعلان ان کی مسلح اور مالی معاونت کر رہا ہے، انہی دہشت گردوں کی جانب سے اگست کی 21 تاریخ کو شام کے علاقے الغوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے، جس کے بعد امریکہ کے لئے شام پر حملے کا جواز مل گیا ہے۔ تاہم مغربی دنیا کے کئی ممالک اور یورپی ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امریکہ کو عراق سے سبق حاصل کرنا چاہئیے، لیکن امریکی صدر طاقت کے نشے اور غرور و تکبر میں ہیں اور شام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، بہرحال یہ تو بعد کی بات ہے کہ شام پر امریکی حملہ کارگر ثابت ہوگا یا نہیں یا پھر یہ امریکی صدر اوباما کی گیدڑ بھبکیاں ہی ہیں۔

زیر غور بات تو یہ ہے کہ آج کی جدید دنیا میں بہت سے لوگ شاید یہ بات بھول چکے ہیں کہ امریکہ ماضی میں نہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کو دوسرے ممالک میں سپلائی کرچکا ہے بلکہ خود امریکہ میں اپنے ہی 70شہریوں کو بھی انہی کیمیائی مہلک ہتھیاروں کے ذریعے قتل کرچکا ہے۔ حال ہی میں whatreallyhappened.com نامی ایک ویب سائٹ نے اس بات کی طرف یاد دہانی کروائی ہے کہ 28 فروری 1993ء میں امریکی فورس BATF نے Branch Davideans کے علاقے Waco Texas. میں ایک چرچ پر چھاپہ مار کارروائی کی اور اس کارروائی کا خاتمہ امریکن ایف بی آئی اور فورسز کی جانب سے خطرناک کیمیائی گیس CS کا استعمال کیا گیا، جس کے باعث چرچ میں گیس کے بھر جانے سے وہاں پر معصوم بچوں سمیت خواتین اور متعدد افراد جان بحق ہوگئے۔

واضح رہے کہ سی ایس نامی کیمیائی گیس کا استعمال جنگ کے دوران بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے، تاہم امریکی حکومت نے اس خطرناک گیس کو نہ صرف جنگ بلکہ ایک چرچ کے اندر استعمال کیا اور صرف سی ایس گیس ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ خطرناک اور حیات انسانی کے لئے شدید مہلک ترین گیس methylene chloride کا بھی استعمال کیا۔methylene chloride نامی گیس انتہائی زہریلی گیس ہے اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے اس مہلک گیس پر بھی شدید نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، تاکہ حیات انسانی کو نقصان سے محفوظ کیا جاسکے، لیکن کیا کہا جائے امریکہ اور امریکی حکومت کے لئے کہ جو دنیا بھر میں تو قتل و غارت کر ہی رہی ہے، اپنے ہی ملک میں بھی معصوم انسانی جانوں پر زہریلی اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ methylene chloride گیس ایک ایسی خطرناک گیس ہے جو انسان کے Tissues کو تیزی سے متاثر کرتی ہے اور پھر چند ہی لمحوں میں انسان اپنی زندگی کی رونقوں سے موت کی گود میں جا چکا ہوتا ہے۔

اس واقعہ میں امریکی فورسز نے چرچ کو درج بالا گیسوں کے استعمال سے بھر دیا اور پھر اس کے بعد چرچ کو نذر آتش کر دیا گیا، تاکہ کسی قسم کا کوئی ثبوت نہ ملے، لیکن بعد ازاں ہونے والی تحقیقاتی رپورٹس میں آیا ہے کہ امریکی فورسز کی جانب سے استعال ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں سے ہی چرچ میں موجود معصوم بچوں سمیت خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوچکی تھی، جس کی وجہ ان کے پھیپڑوں میں زہریلی گیس کا بھر جانا بتایا گیا تھا، جسے امریکی انتظامیہ کی جانب سے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ وہ مہلک کیمیائی گیسز تھیں کہ جن کا استعمال جنگوں میں بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ جو کہ خود ایک ایسی حکومت ہے جس کی تاریخ سیاہ ہو اور انسانیت کے قتل عام میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں دہشت گردی کی ایجاد میں بھی سرفہرست رہی ہو، ناگا ساکی ہو، عراق ہو یا افغانستان، یا ایران اور عراق جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا گھنائونا استعمال ہو یا پھر شام میں دہشت گرد گروہوں کو کیمیائی ہتھیار کی سپلائی ہو، یہ تمام تر وہ جرائم ہیں جو ناقابل معافی ہیں۔ تاہم دنیا کی باضمیر ریاستوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ امریکہ پوری دنیا مین دہشت گردی کی جڑ ہے اور دہشت گردی کا بانی بھی ہے، امریکہ شر مطلق ہے، جس سے کبھی بھی خیر کی امید نہیں کی جاسکتی، تاہم امریکی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ شام پر حملے کی باتیں کرے یا پھر حملہ کرے۔ امریکہ جو کہ خود اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرسکتا ہے تو بعید نہیں ہے کہ امریکہ ہی شام میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کی سپلائی اور استعمال میں براہ راست ملوث ہو۔
خبر کا کوڈ : 302117
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش