0
Monday 30 Sep 2013 18:50

اعتماد بہ نفس ملی، عالمِ اسلام کے لئے ایران کا ایک گراں قدر تحفہ

اعتماد بہ نفس ملی، عالمِ اسلام کے لئے ایران کا ایک گراں قدر تحفہ
تحریر: سید راشد احد

رہبر انقلابِ اسلامی ایران آیت ﷲ سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں ایک بار پھر اسلامی ایران کے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ کسی بھی ملک کو عام تباہی پھیلانے والے جوہری اسلحے بنانے اور رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ ایران نے بارہا اپنے اس موقف کا اعلان کیا ہے کہ وہ جوہری اسلحہ سازی کا شدید مخالف ہے اور عالمی ایٹمی نگرانی کا ادارہ IAEA بھی ایران میں جوہری اسلحہ سازی کے کسی پروگرام کا کوئی مشاہدہ کرنے سے اب تک عاجز رہا ہے یعنی اس عالمی ادارے کو کوئی بھی ایسے ثبوت و شواہد نہیں ملے ہیں جس کی بنیاد پر امریکہ اور مغرب کے اس بے بنیاد الزام کی تصدیق ہو سکے کہ ایران جوہری اسلحہ سازی میں مصروف ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود آخر کیوں ایران کو اس کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے مغرب اور امریکہ کی طرف سے بار بار دھمکیاں دی جا رہی ہیں ؟ یہ دراصل ایک بہانہ ہے جسے امریکہ اور اسرائیل ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس بہانے کو دراصل ایران پر دباؤ بڑھانے کے لئے استعمال کیا جار ہا ہے اس امید پر کہ اس طرح ایران کے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوگا اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ بلا وجہ ایران کی حکومت جوہری اسلحے کے پروگرام پر اصرار کرتے ہوئے اپنے عوام کو اقتصادی مشکلات سے دو چار کر رہی ہے اور اسرائیل اور امریکہ کے خیال خام کے مطابق یہ بے چینی اس حد تک بڑھے گی کہ بالآخر ایرانی عوام اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور ایران کے اسلامی نظام کا خاتمہ کردیں گے۔ لیکن مغرب، امریکہ اور اسرائیل کی یہ محض اپنی خواہش ہے اس کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔

دوسری بات یہ کہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام پر استعماری قوتیں جو شور مچا رہی ہیں اس کا مقصد ایک یہ بھی ہے کہ ایران جیسے ایک ملک کو جو مشرقِ وسطیٰ کا ایک اہم ملک ہے اور ایک اسلامی ملک بھی ہے، ٹیکنالوجی کے میدان میں خود انحصاری و خود کفالتی سے ہرگز ہمکنار نہ ہونے دیا جائے۔ ایران نے اپنے پرامن جوہری پروگرام میں اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ اس میدان میں باآسانی وہ اپنی صلاحیت کے ایسے جوہر دکھا سکتا ہے جو ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے دکھایا اور دکھا سکتے ہیں۔ اگر آپ جوہری توانائی کی تولید پر قادر ہیں تو آپ بہت ساری چیزیں اپنے ملک میں تیار کرسکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ کار بنا سکتے ہیں، آپ ٹیلی ویژن بنا سکتے ہیں ،بڑے پیمانے پر اجناس کی پیداوار کرسکتے ہیں، آپ کپڑوں کی صنعت میں خود کفیل ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اسرائیل اور امریکہ جس بات سے وحشت میں مبتلا ہیں وہ ان امور میں ایران کا خود کفیل ہونا ہے یعنی وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایران آئندہ کچھ دنوں میں تیار مال مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو فراہم کرنے لگے گا جبکہ آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک مغربی پیسوں اور مغرب کی صنعتوں کے تیار شدہ مال پر انحصار کر رہے ہیں بالخصوص فوجی ساز و سامان اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں۔ اس حوالے سے مغرب، امریکہ اور اسرائیل کسی بھی اسلامی ملک کو خود کفیل دیکھنا گوارہ نہیں کرتے ہیں لہٰذا پاکستان بھی اس معاملے میں مغرب کے عتاب کا یکساں شکار ہے۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ مغرب کی یہ ساری چالیں بہت سارے پہلوؤں سے اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ ایرانی حکومت پر دباؤں بڑھانے کی خاطر ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی یقینی ہے کہ مغرب اس امر کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایران کسی بھی طرح اس قابل نہ ہوسکے کہ خطے کے ممالک میں تیار شدہ مال کی فراہمی کے حوالے سے مغرب کا مدِمقابل قرار پائے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو امریکہ سے انتہائی سستے داموں پر ان کی ضروریات کی چیزیں فراہم کرنے لگے۔ لیکن ایک نہ ایک دن ایسا ہو کر رہنا ہے اس لئے کہ گزشتہ سالوں میں ایران نے فوجی، اقتصادی، سائنسی اور زندگی کے بیشتر اہم شعبوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ یہ ترقی دنیا کے لئے حیران کن اور شگفت آور ہے اس ترقی سے بن جامن نیتن یاہو جیسے لیڈروں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ایران اپنی جنگی ضروریات کے اسلحے خود بنا رہا ہے وہ باہر سے کوئی ٹیکنالوجی امپورٹ نہیں کر رہا ہے، یہ خود سٹیلائٹس تیار کر رہا ہے۔ ایران اپنی فوجی ٹیکنالوجی میں اس حد تک خود کفیل ہے کہ وہ امریکی ڈرونوں کو باآسانی زمین پر اتار لیتا ہے اور ضرورت پڑنے پر فضاء میں بھی مار گراتا ہے حتیٰ کہ قبضے میں لئے ہوئے امریکی ڈرونوں کے تمام اسرار و رموز کو ڈی کوڈ یعنی فاش کر لیتا ہے۔ آپ کو مسلمانوں کے حوالے سے مغرب کے خواص و عوام کا نقطۂ نظر اچھی طرح معلوم ہے۔ مغرب کے لوگ مسلمانوں کو کم تر ذہنی صلاحیت کا حامل جانتے ہیں بلکہ انہیں اس حد تک پسماندہ خیال کرتے ہیں جو خود اپنی نگہداشت اور فلاح و بہبود پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مغرب اور امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے جو ان کا نقطۂ نظر ہے وہ دنیا میں عام ہو تاکہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ مسلمان اپنے امور کی دیکھ بھال خود نہیں کرسکتے ہیں اور اپنے حالات اور معاشرے کی تنظیم بطور خود ان کے بس کی بات نہیں لہٰذا مسلمانوں کو تہذیب یافتہ اور مہذب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مغرب کی ٹیکنالوجی اور ان کی روش پر انحصار کریں تب ہی وہ دنیا میں ایک مہذب قوم کی حیثیت سے دیکھے جاسکتے ہیں ورنہ بصورتِ دیگر وحشت و بربریت ہی ان کی حقیقی شناخت ہوگی۔

چنانچہ ایران نے صرف ٹیکنالوجی ہی میں ترقی نہیں کی ہے، نہ ہی فقط سیٹیلائٹس بنانے میں مہارت حاصل کی ہے، نہ ہی محض فوجی ٹیکنالوجی میں اپنی برتری کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ ہی جوہری ٹیکنالوجی میں اپنے بے نظیر کارناموں سے دنیا کو حیران کیا ہے بلکہ اس نے میڈیسن اور اس طرح کے تمام دوسرے شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ اس ترقی نے اس ذہنیت پر ضرب کاری لگائی ہے جو مسلمانوں کو ایک وحشی، غیر متمدن اور جاہل و پسماندہ قوم کی حیثیت سے متعارف کراتی ہے۔ چنانچہ مغرب کی یہ خواہش ہے کہ مسلمانوں کی جو بھیانک تصویر اس نے اپنے پروپیگنڈے کی طاقت کے ذریعے دنیا کے لوگوں میں بنائی ہے اسے بہرحال باقی رکھے۔ لہٰذا ایران کی ترقی کے خلاف مغرب کا آہ و واویلا اسی مقصد کے پیش نظر ہے۔ لیکن ایران نے اپنی روز افزوں فوجی قوت نیز ہوشیاری پر مبنی سفارتکاری اور غیر معمولی اسلامی بصیرت کے ساتھ مغرب کو ناکام بنا دیا ہے اور اسے ناک رگڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایران نے اپنے عوام کی قوتِ ارادی اور ان کے اندر موجود خود اعتمادی کو فروغ دیکر ہی ترقی کی ان حیرت انگیز منازل کو طے کیا ہے یعنی ایران کی ڈیولپمنٹ ڈاکٹرائن میں ’’ اعتماد بہ نفسِ ملی ‘‘ کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ عالم اسلام کے دیگر ممالک کو بالخصوص پاکستان جیسی عالم اسلام کی ایک اہم قوت کو بھی ایران کی الٰہی روش سے استفادہ کرنا چاہئے اور اعتماد بہ نفس ملی کے ذریعے اپنے آپ کو کمال کی اس منزل پر لے جانا چاہئے جس کے بعد کوئی قوم دنیا میں عزت و عظمت سے ہمکنار ہوتی ہے اور لوگوں کی نگاہِ تحسین کو اپنی جانب جذب کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 306954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش