1
0
Tuesday 28 Jan 2014 00:43

ملک دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہی ہوگا

ملک دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہی ہوگا
تحریر: تصور حسین شہزاد

صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی حجت پوری کر دی گئی ہے اب فوج دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کیلئے بالکل تیار ہے جونہی اشارہ ملے گا کارروائی شروع کر دی جائے گی۔ حکومت نے مذاکرات کی بہت کوشش کی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اب عام لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے شدت پسندوں کیخلاف اقدام ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ یہ مسئلہ ملک کی ساکھ اور انسانی زندگیوں کے بچاؤ کا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کالعدم شدت پسند تنظیم کے ترجمان کی جانب سے مذاکرات کی نئی پیش کش پر مبنی بیان کے جواب میں کہا ہے کہ حکومت اس پیش کش کا جائزہ لے گی کہ آیا شدت پسندون کا یہ بیان سیاسی ہے یا وہ واقعی ملک اور آئین کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ ہیں۔ ادھر مولانا فضل الرحمٰن امیر جمعیت العلمائے اسلام نے ہتھیار بدست شدت پسندوں کو شریعت کے نام پر فتنہ و فساد کھڑا کرنے سے اجتناب اور ہتھیار رکھنے کی اپیل کی ہے جبکہ دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعد فضائیہ کے اڈوں، سول ہوائی اڈوں اور دیگر اہم تنصیبات و عمارتوں پر سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسی اثناء میں گذشتہ روز ہنگو کے علاقے میں ایک گھر کے باہر کھلونا بم دھماکے میں 4سگے بھائیوں سمیت ایک ہی خاندان کے  6 بچے جاں بحق اور 9 زخمی ہو گئے۔ دریں حالات یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ شدت پسندوں کی جانب سے حکومت کو مذاکرات کی پیش کش سوائے ایک روایتی حربے کے کیا ہو سکتی ہے۔

شدت پسندوں کی جانب سے آنیوالے اس بیان کو ماضی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ حربہ ہی ہے کیونکہ اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ شدت پسندوں نے حکومت کو بات چیت کا جب بھی پیغام بھیجا اسے ہمیشہ ایک آڑ کے طور پر استعمال کر کے مزید تیاری کیساتھ ملک میں تخریب کاری میں اضافہ کیا۔ اب بھی اطلاعات ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کسی بھی ممکنہ آپریشن سے بچنے کیلئے اپنا مرکز شمالی وزیرستان سے شمال مغربی افغانستان کی جانب منتقل کر رہی ہے اس کیلئے اسے فوج کیساتھ تصادم سے گریز کی حکمت عملی اختیار کر کے اپنے نئے مرکز میں مکمل اطمینان سے ترک سکونت کرنے کیلئے فی الوقت پرامن ماحول درکار ہے۔ اسی لئے اس کی جانب سے حکومت کو مذاکرات کی پیش کش کا بیان محض چکمہ دے کر اپنا مقصد پورا کرنے کیلئے وقت لینا ہے جونہی ان کی قوت کا سرچشمہ شمالی وزیرستان سے افغانستان کے مغربی حصے میں منتقل ہو گا یہ ازسر نو تیاری کیساتھ حکومت اور سکیورٹی اداروں کیخلاف سرگرم عمل ہو کر دہشت گرد کارروائیاں تیز کر دیں گے۔

طالبان کے مختلف ناموں سے گروہ بندی کی خبریں بھی ان کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کے ذریعے وہ پاکستانی حکومت اور سکیورٹی فورسز کو مخمصے میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے پرہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ملک بھر میں شدت پسندوں کی جارحانہ کارروائیاں یک دم تیز کرنے کے پس پردہ یہی محرکات ہیں کہ وہ پاکستان کی سالمیت کے ضامن اداروں کی توجہ اندرون ملک شورش کی طرف مبذول کرا کے اپنا مرکز تبدیل کرنے کیلئے آسانیاں پیدا کر لیں۔ ظاہر ہے کہ اس سارے گیم پلان کے ماسٹر مائنڈ ان پڑھ اور جاہل شدت پسند نہیں ہو سکتے بلکہ وہ ماہرین جنگ ہیں جنہوں نے انہیں باقاعدہ گوریلا جنگ کی تربیت دی ہے۔ یہ پیشہ ور گوریلا جنگ لڑنے والے مبینہ طور پر افغانستان، بھارت اور امریکا کی زیر سرپرستی قائم کیمپوں میں دن رات مشقوں میں مصروف ہیں جہاں سے ان شدت پسندوں کو بڑی تیاری کروا کے بڑی مہارت سے آراستہ کرکے پاکستان کے مختلف علاقوں میں داخل کر کے روپوش کیا جا رہا ہے۔ شنید ہے کہ اس وقت جنوبی پنجاب میں ان کی خفیہ آماجگاہوں میں چھپے شرپسندوں کی تعداد میں یک لخت کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جن میں غیر ملکیوں کی کثیر نفری شامل ہے۔

ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ممکنہ فوجی آپریشن کی ڈھنڈیا پیٹ کر شمالی وزیرستان سے عوام کے گروہ در گروہ مہاجر بنا کر ان کی آڑ میں پوری عسکری تربیت سے لیس افراد کو پاکستان کے اہم شہروں میں بھیجا جا رہا ہے، جنہیں فوج کی طرف سے کسی بھی قسم کے آپریشن کے شروع ہوتے ہی ملک بھر میں تباہی کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ حکومت اور فوج کے خفیہ ادارے اندرون ملک شورش بپا کرنے کے دشمنوں کے سارے منصوبوں کی مصدقہ اطلاعات کی روشنی میں دشمنوں کے مذموم مقاصد ناکام بنانے کی حکمت عملی ترتیب دے چکے ہیں اسی لئے صدر مملکت ممنون حسین اور حکومتی ترجمان وزیر اطلاعات پرویز رشید کا پراعتماد لہجہ شدت پسندوں کیساتھ مذاکرات کے حوالے سے فوجی آپریشن کی ترجیح کا عندیہ دے رہا ہے اس ضمن میں حکومت طالبان کے حامیوں کیساتھ بھی رابطے میں ہے تا کہ انہیں احساس دلایا جا سکے کہ اب بات چیت کی بساط بچھانے کا وقت گزر چکا ہے، عسکریت پسند ہمیشہ اپنے حامیوں کو بھی مذاکراتی عمل کی آمادگی کا جھانسہ دے کر ان کے ذریعے مہلت حاصل کر تے رہے ہیں اور اسی مہلت کا فائدہ اٹھا کر نئی صف بندی کر کے ،منظم ہو کر نئی قوت پکڑ کے پھر سے شورش بپا کرنے میں جت جاتے ہیں۔

اس تناظر میں اب انتہا پسندو ں کو ڈھیل دینا ملک و قوم کیلئے مہلک ہو گا اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو سکے قومی سلامتی کیلئے شوریدہ سر عناصر کی سرکوبی کیلئے فیصلہ کن اقدام بنا وقت ضائع کئے کرنا، وقت کی آواز ہے۔ اس صدا پر کان نہ دھرنا ہمارے لئے مزید تباہ کن ہو گا۔ جو لوگ شدت پسندوں کیلئے مزید مہلت طلب کر رہے ہیں انہیں بھی ہوش کے ناخن لیکر حکومتی اقدامات کی تائید کرنی چاہیئے کہ اس وقت سب کا ایک زباں ہونا قومی بقا و سالمیت کیلئے ناگزیر ہے۔ جو لوگ اس گمان میں ہیں کہ شدت پسندوں کی پیشکش کو زیر غور لایا جائے کہ شاید وہ واقعی دل سے قیام امن پر تیار ہوں محض خام خیالی ہے کیونکہ اب تک کے تجربات شاہد ہیں کہ اس قسم کی مذاکراتی پیشکشیں شدت پسندوں کا وقت نکالنے کا روایتی حربہ ہیں مگر اس بار پوری قوم چاہتی ہے کہ یک بارگی ان کیساتھ دو دو ہاتھ کرکے سرکش عناصر کو ایسا سبق سکھایا جائے جو آئندہ کیلئے باغیانہ روش رکھنے والوں کیلئے سامان عبرت ہو۔ جو لوگ شدت پسندوں کی نام نہاد جنگی صلاحیتوں کے معترف بن کر قوم کو ان سے مرعوب کرنا چاہتے ہیں وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا اصل استاد کون تھا؟ لہٰذا ان کی گیدڑ بھبھکیوں میں آئے بغیر ملک دشمنوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا سود مند نہیں ہو گا!
خبر کا کوڈ : 345694
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Japan
جتنا جلدی ہوسكے اس سانحہ كے ذمہ داروں كو ان كے كئے كی سزا ملنا چاہیئے تاكہ ان جیسی دھشتگردوں كے لئے واضح ہو جائے كہ اب پانی سر سے گذر چكا ہے اور ان كی دھشتگردی كو تحمل كرنا ناممكن ہوگیا ہے
ہماری پیشکش