0
Sunday 2 Feb 2014 23:26

مذاکراتی ڈرامہ، ہوشیار رہنا ہوگا

مذاکراتی ڈرامہ، ہوشیار رہنا ہوگا
تحریر: تصور حسین شہزاد

حکومتی مذاکراتی کمیٹی پر اظہار اعتماد کے بعد اب شدت پسند تنظیم نے بھی مولانا سمیع الحق، عمران خان، مولانا عبدالعزیز، پروفیسر ابراہیم اور مفتی کفایت اللہ پر مشتمل اپنی 5 رکنی مذاکراتی کمیٹی کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے، جسے انہوں نے اپنی طرف سے ثالثی کمیٹی کا نام دیا ہے۔ اس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا نام پیش کر کے انہوں نے سب کو چونکا دیا ہے۔ شنید ہے کہ ڈرون حملوں کے مسئلے پر عمران خان کے سخت موقف نے عسکریت پسندوں کے دل جیت لئے ہیں اور وہ جو کل تک عمران خان کو بھی جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے تھے، آج انہیں ثالث بنانے پر تیار ہیں مگر خود ثالث کیلئے نامزد عمران خان سخت شش و پنج کا شکار ہو کر حکمت عملی کے تحت اپنی جماعت کی کور کمیٹی کے فیصلے کے ذریعے ثالثی کے عمل سے بچ نکلنے کی فکر میں ہیں کیونکہ یہ قیاس آرائی خلاف حقیقت نہیں کہ شدت پسندوں نے ثالثی کمیٹی میں عمران خان کی نامزدگی سے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔

فریق مخالف کی طرف سے حکومتی چال کا جواب اس سے بھی بہتر انداز میں آیا ہے۔ شدت پسندوں نے حکومت کے غیر سرکاری اراکین پر مشتمل کمیٹی کے جواب میں اپنی شوریٰ میں سے اراکین پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی دینے کی بجائے جو نام بطور ثالث دیئے ہیں وہ ممکنہ مذاکرات کی امکانی تقدیر کا فیصلہ پہلے سے سنا رہے ہیں۔ لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز اپنی سخت گیری اور ہٹ دھرمی میں بےمثال ہیں، وفاقی دارالحکومت میں بیٹھ کر جن ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر انہوں نے سانحہ لال مسجد کو جنم دیا وہ آج بھی انہی کے ایماء پر اپنی ذہنی اختراع کردہ شریعت کے نفاذ کی قبل از بات چیت یقین دہانی چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا وعدہ وعید کرنا کسی کے بس میں نہیں جبکہ ابھی بقول ترجمان شدت پسند تنظیم کی شوریٰ کی جانب سے 22نکاتی ایجنڈا سامنے آنا باقی ہے۔ شدت پسندوں کی سخت گیری کے پیش نظر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے ایجنڈے میں کیا شرائط ہوں گی، فی الوقت تو سامنے آنیوالی چار اہم شرائط پاکستان میں نفاذ شریعت کا وعدہ، قبائلی علاقوں سے پاک فوج کا انخلاء، ڈرون حملوں کی بندش اور جیلوں میں بند عسکریت پسندوں کی رہائی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

ان مطالبات کی روشنی میں یہ توقع کرنا کہ مذاکرات میں باقی کی شرائط نرم ہوں گی بعید از قیاس ہے۔ دریں حالات کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونا زمینی حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ جن میں ایک حقیقت سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران شدت پسندوں سے مذاکرات اور اس مقصد کیلئے جس طرح کمیٹی کے ناموں کا اعلان کیا وہ بالکل اچانک تھا۔ یہاں تک کہ شدت پسندوں کا اصل ہدف بننے والی عسکری طاقت بھی اس ضمن میں مبینہ طور پر بےخبر رکھی گئی، حالانکہ ایک دن قبل وزیراعظم نے چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات کی تھی جس میں شمالی وزیرستان میں جاری غیر اعلانیہ فوجی آپریشن کو باقاعدہ سرکاری بنانے کی مبینہ اطلاعات ہیں لیکن اگلے دن جس طرح سے وزیراعظم نے مذاکرات کا اعلان کیا وہ دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کیلئے پرعزم عسکری قوت کو مخمصے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ اس بارے میں سامنے آنے والی آراء سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے شدت پسندوں سے مذاکرات کا اعلان کر کے اس سارے عمل کی نفی کر دی جو گذشتہ چند ماہ کے دوران وقوع پذیر ہونیوالے گردی کے واقعات کے بعد درپردہ آپریشن کی تیاری کے ضمن میں جاری تھا۔

مذاکرات اور اس مقصد کیلئے غیرسرکاری اراکین کی نامزدگی بھی ان مراکز کیلئے باعث حیرت ہے جو شدت پسندوں کیساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کیلئے بےتاب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ مذاکرات کے احیاء کا فیصلہ بالکل اچانک اور غیرمتوقع ہے تاہم عسکری ادارے نے بوجوہ اپنے سابق چیف اور وزیراعظم کی امن کوشش کو ایک آخری موقع دینے کی خواہش کے احترام میں چپ سادھنے پر اکتفا کر لیا ہے تاہم ابھی تک خبریں گردش میں ہیں کہ ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے حکومت کو نہ صرف اندرون ملک سیاسی و مذہبی حلقوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کرنا ہو گی بلکہ وہ غیر ملکی قوتیں اور عناصر جو پاکستان میں دہشتگردی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کر کے پاکستان کو زیردست رکھنے کیلئے کوشاں ہیں ان کیساتھ بھی روابط کیلئے ثالثوں کو بیچ میں ڈالنے کیلئے سخت محنت کرنا ہو گی۔ اس طرح اندازہ کیا جا رہا ہے کہ قیام امن کیلئے حکومت پاکستان کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑے گا کیونکہ بغیر کسی ہوم ورک کے اتنا بڑا فیصلہ جن مضمرات کا حامل ہے۔ اس کا ادراک کرنیوالے مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں، ماضی میں شدت پسندوں کیساتھ طے پانیوالے معاہدوں کا حشر سب کے سامنے ہے۔ اسی لئے سبھی حلقے متذبذب ہیں کہ اب کی بار ان مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا بعض دوربین نگاہیں تو اس اونٹ کے بیٹھنے سے پہلے ہی نکیل تڑوا کر بھاگ جانے کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔

شدت پسند تنظیم کی اب تک سامنے آنیوالی چار سخت ترین شرائط کے تناظر میں ایسا ہونا نوشتۂ دیوار ہے۔ اس لئے وہ حلقے جو پہلے دن سے حکومت کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قیام امن کیلئے ریاستی بالادستی کا تصور راسخ کرنا ازبس ضروری ہے موجودہ مذاکراتی کوششوں کو ایک ایسے کھیل سے تعبیر کر رہے ہیں جس کے اصل کردار میدان سے باہر بیٹھ کر کٹھ پتلیوں کا تماشہ دیکھ کر دل بہلانے کیساتھ ساتھ ایک دوسرے کو زک پہنچانے کے نئے سے نئے حربوں کیلئے وقت لے رہے ہیں۔ پیش منظر پر پیدا ارتعاش کسی نئے آنیوالے طوفان کا پیش خیمہ ہے کیونکہ ابھی سے حکومت کی نیک نیتی پر شک و شبے کا برملا اظہار خود ان عناصر کے اندر مخفی گمراہ کن سوچ کی چغلی کھا رہا ہے جو ہمیشہ سے اپنی بکھری ہوئی قوت مجتمع کرنے کیلئے ’’بات چیت‘‘ کا ڈرامہ رچا کر طاقت پکڑتے ہی قومی سلامتی کے ضامن اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں، انہی کی طرف سے اب کی بار بھی قومی خدشات ہیں کہ وہ اپنا پرانا حربہ ہی اختیار کئے وقت لے رہے ہیں جبکہ ان کے بیرونی سرپرست بھی اس تاک میں ہیں۔ اب یہ ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ سارے حالات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے چوکس رہیں اور کسی بھی لمحے حالات پر اپنی گرفت کمزور پڑنے کا اشارہ نہ دیں۔ آئین کے باغیوں اور ریاستی طاقت کو للکارنے والوں کیساتھ باتوں میں لگ کر تحفظ پاکستان کے فرض سے غفلت کا مظاہرہ ہمارے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، مشتری ہوشیار باش!!
خبر کا کوڈ : 347766
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش