3
0
Tuesday 25 Feb 2014 19:44

کل رات بے حسوں کے دیس میں

کل رات بے حسوں کے دیس میں
تحریر: رضا مہدی، کراچی

میری آنکھوں کو آنسؤں کی چادر نے ڈھانپ لیا ہے اور ذھن تیزی سے ماضی کے اوراق پلٹتا جا رہا ہے۔ شاید خدا کی سب سے زیادہ تیز رفتار مخلوق یہی انسانی ذھن ہے جب ہی تو ان پچیس چھبیس سالوں کا سفر پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں طے کرلیا۔ ذھن ایک صفحے پر آکر رک گیا ہے، شاید اسی صفحے کی تلاش میں تھا۔ ایک کلاس روم کا منظر ہے۔ سارے بچے تین چار سال کی عمر کے ہیں۔ یہ اس سکول کی سب سے چھوٹی کلاس ہے جسے اصطلاحاً نرسری کہتے ہیں۔ ٹیچر خاموش ہیں لیکن پھر بھی بچے شور نہیں مچا رہے بلکہ اکثر کے چہروں پر انتظار اور کچھ گھبراہٹ کے آثار واضح ہیں۔ آج سکول میں رزلٹ ڈے ہے۔ معاشرے میں موجود ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی اندھی دوڑ سے شاید یہ بچے بھی مستثنٰی نہیں ہیں، بلکہ غیر اختیاری طور پر خود بھی اس کا حصّہ بن چکے ہیں۔
 
آج پہلی دوڑ کا نتیجہ آنے والا ہے، کلاس میں نسبتاً اچھا پڑھنے والے بچے بے چین ہیں کہ دیکھیں پہلی پوزیشن کس کے نصیب میں آتی ہے۔ میں بھی اسی قبیلے کا ایک فرد ہوں۔ استاد نے رزلٹ سنانا شروع کر دیا ہے۔ میری امیدوں کے برخلاف میں نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ ٹیچر نے پہلی پوزیشن کا اعلان کر دیا ہے۔ "اکبر علی۔" یہ پہلی دفعہ ہے کہ میں اس لڑکے کے طرف پوری طرح متوجہ ہوا ہوں۔ یہ دوسروں سے قدرے مختلف لڑکا خراماں خراماں رزلٹ کارڈ لینے کے لیے آگے جا رہا ہے۔ رزلٹ کارڈ لیتے ہوئے اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ بھی  ہے، لیکن اس مسکراہٹ میں فاتحانہ غرور نہیں بلکہ دوستی کی گرماہٹ نمایاں ہے۔ یہیں سے ہماری دوستی کی ابتدا ہوئی۔ 

اب ذھن میں تیزی سے منظر بدل رہے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی فلم چل رہی ہو۔ تھوڑے ہی عرصے میں ہماری دوستی بہت زیادہ  بڑھ گئی اور اور ہم ایک دوسرے سے کافی آشنا ہوگئے۔ وہ بھی میری طرح اپنے گھر میں سب سے بڑا بھائی ہے۔ اس کے والد اسی سکول میں چوکیداری کے فرائض انجام دیتے ہیں اور وہ لوگ اسی سکول میں ایک کواٹر میں رہتے ہیں۔ مختلف رزلٹ ڈے ہیں اور ہربار اول آنا اسی کے نصیب میں ہے۔ بالاخر دو سال ایک  ساتھ پڑھنے کے بعد میرے والدین نے میرا داخلہ ایک دوسرے سکول میں کروا دیا اور پھر ہماری ملاقاتوں میں بہت کمی آگئی۔ مگر پھر بھی کبھی کبھی مسجد میں ملاقات ہوجاتی۔ میری یاداشتوں میں چلنے والی فلم یہاں پہنچ کر گویا رک سی گئی ہے اور ذھن نے پھر ماضی کے اوراق پلٹنا شروع کر دیئے ہیں۔ جیسے میرا دماغ کسی خاص صفحے کی تلاش میں ہے۔ شاید مطلوب صفحہ مل گیا ہے، تب ہی تو اس نے ورق گردانی بند کر دی ہے۔

یہ منظر پھر تفصیلی ہے۔ یہ بس اسٹاپ ہے اور میں سی اے کی کلاس سے واپس آتے ہوئے گھر کے نزدیک بس سے اتر رہا ہوں۔ میں نے گھر کی طرف چلنا شروع کیا ہے کہ کسی نے میرا نام پکارا ہے۔ پکارنے والا موٹر سائیکل پر سوار ہے اور وہ موٹر سائیکل روک کر میری طرف بڑھ رہا ہے۔ چہرہ شناسا لگ رہا ہے لیکن میں پہچان نہیں پا رہا ہوں۔ ارے یہ تو اپنا اکبر ہے۔ میں اسے غور سے دیکھ رہا ہوں، وہ شلوار قمیص میں ملبوس ہے، اُس نے کوٹی پہن رکھی ہے اور سر پر کپڑے کی ٹوپی۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس ٹوپی کو کیا کہتے ہیں، لیکن یہ وہ ٹوپی ہے جو عموماً مسجدوں میں رکھی ہوتی ہے، تاکہ سر ڈھانک کر نماز پڑھنے کی سنّت ادا ہوسکے۔

مجھے ایک جھٹکا سا لگا ہم تقریباً سات آٹھ سال بعد مل رہے ہیں، لیکن اس کا یہ حلیہ میری توقع کے بالکل برعکس ہے۔ میں ابھی سنبھل نہیں پایا ہوں کہ اس نے ایک بار پھر مجھے پکارا، "ارے۔۔ بھائی" مجھے دوسرا جھٹکا لگا ہے پہلے سے بھی زیادہ شدید۔ اس سے پہلے کبھی بھی اس نے میرے نام کے آگے "بھائی" نہیں لگایا تھا۔ جتنی دیر میں، میں اس کے حلیہ کا مشاھدہ کر رہا تھا وہ بھی میرے حلیہ کا جائزہ لے رہا تھا۔ میری پینٹ شرٹ اور کندھے سے لٹکا ہوا بیگ۔ مجھے لگا کہ وہ دیوار کے پیچھے سے بول رہا ہے وہ ان دیکھی دیوار جو ہمارے بیچ میں حائل ہوچکی ہے۔ سلام دعا کے بعد اس نے خود ہی بولنا شروع کر دیا، وہ میری نگاہوں کے سوال کو سمجھ چکا ہے، شاید مجھے زبان سے اسے ادا کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوئی۔

وہ بتا رہا تھا کہ اس کے بابا کی اس سکول میں نوکری ختم ہوئی تو اسے بھی سکول چھوڑنا پڑا۔ مالی مسائل سے تنگ آکر وہ لوگ بلتستان واپس چلے گئے اور پھر ایک دو سال بعد پلٹے اور اس کے بعد بھی آنے جانے کا سلسلہ چلتا رہا، ان حالات کی گردش میں اس کی پڑھائی کہیں پیچھے رہ گئی۔ البتہ ان سب چیزوں کے باوجود بھی اس نے پرائیویٹ انٹر کیا ہے اور ساتھ ساتھ چند سال مدرسے میں بھی پڑھا ہے۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ علم سے اس کا قلبی لگاو ہی ہے کہ جس نے پڑھائی سے اس کا ناتا جوڑے رکھا ہے، مگر مزید پڑھنا فی الحال اس کی ترجیحات میں نہیں تھا۔

اس نے بتایا کہ ان دنوں  وہ علی الصبح گھروں میں اخبار ڈالتا ہے اور شام میں بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے۔ وہ کچھ شرما کر بتا رہا تھا کہ چند سال پہلے اس کی شادی ہوگئی ہے اور اس کے دو بچّے ہیں رباب اور عاطف، لڑکی کی عمر چار سال ہے اور لڑکا تقریباً ڈھائی سال کا ہے۔ میں نے پوچھا ہے کہ بچوں کو کہاں ایڈمیشن کرانے کا ارادہ ہے؟ اس نے ایک بہترین سکول کا نام لیا، جس سے مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ انشاءاللہ یہ پہیہ پھر اسی طرح نہیں گھومے گا۔ اوں ہوں میرے ذھن میں دوبارہ فلم چلنا شروع ہوگئی ہے۔ میں اس فلم میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ پھر شروع ہوچکا ہے، وہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے دوسرے کم سن بچوں کو بھی اسی  سکول میں داخلہ دلوانے کیلئے کوشاں ہے۔ میں اس سے مدد کا وعدہ کرچکا ہوں۔ ہمیں اس سلسلے میں کامیابیاں نصیب ہوئیں ہیں، جس پر ہم دونوں کافی خوشحال ہیں۔

ہم لوگ پہلے دن بچوں کو خود سکول چھوڑنے جا رہے ہیں۔ اس فلم میں وہ ہمیشہ اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے سرگرداں ہے۔ کبھی کسی کی فیس ہے تو کبھی کسی کی یونیفارم، کسی کے گھر کا کرایہ ہے تو کبھی کسی کی دوائی۔ وہ مسجد کے امور میں بھی کافی فعال ہے۔ میں اس کی ہمت پر حیران ہوں۔ میں پڑھنے کے لئے ملک سے باہر آچکا ہوں مگر پھر بھی ہمارا تعلق باقی ہے۔ ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ملاقات ضرور ہوتی ہے۔ یونہی کئی سال گزر گئے ہیں۔ وہ مجھے دکھ سے بتا رہا ہے کہ وہ لوگ گھر بدلنے پر مجبور ہیں اور بہت ہی دور علاقے میں جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے اب اس کے بچے اس  سکول میں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ میں چاہنے کے باوجود بھی کچھ کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ پہیہ پھر اسی رخ پر گھومنے جا رہا ہے۔ میں اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر انٹر نیٹ پر خبریں پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ شاید میرا دماغ اس فلم سے فرار چاہتا ہے جس میں میرے دوست کی زندگی کا پہیہ ایک ہی سمت میں گردش کر رہا ہے۔

مجھے اپنے دوست کے بچوں کی زندگی کا پہیہ بھی اسی طرح گردش کرتا لگ رہا ہے۔ اتنے میں انٹر نیٹ پر مجھے ایک خبر مل گئی ہے۔ ایک ایسی خبر جس نے میرے ذھن کی اسکرین کو صاف کر دیا ہے۔۔۔ بالکل صاف۔ میں یادوں کی دنیا سے باہر آگیا ہوں۔ ۔۔ بالکل باہر۔ ۔۔ میرے جسم پر خوف، غم، وحشت، دہشت اور نجانے کس قسم کے جذبات نے کپکپی طاری کر دی ہے۔۔۔ میرا گلہ دکھ سے ریجھ گیا ہے ۔۔۔ میری سماعتوں نے سننے سے انکار کر دیا ہے ۔۔۔ میرے کانوں سے غم و غصے کے مارے دھواں نکل رہا ہے۔۔۔  میری آنکھوں کو آنسؤں کی چادر نے ڈھانپ لیا ہے۔۔۔۔ 

یہ خبر پڑھنے کے بعد مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا۔۔۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔ میں نے ابھی ابھی انٹرنیٹ پر پڑھا ہے کہ مسجد کے متولی مولانا اکبر علی کو مذہبی دہشت گردوں نے کل رات فائرنگ کرکے شہید کر دیا ہے۔ گویا کل رات بے حسوں کے دیس میں اور پتھروں کے شہر میں دین کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں ایک اور معصوم انسان مارا گیا۔۔۔ ایک اور گھر کا چولہا بجھ گیا، ایک اور کنبے کا کفیل نہیں رہا اور یہ دنیا ایک مرتبہ پھر ایک انسان دوست، ایک ہمدرد دل اور ایک مہربان شخصیت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئی۔
خبر کا کوڈ : 355463
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

دلچسپ تحریر ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت ہے، یا فرضی ہے۔
حسینی
100 فیصد حقیقت ہے
100 فیصد حقیقت
ہماری پیشکش