1
0
Saturday 23 Apr 2011 21:08

برحق اور واضح موقف

برحق اور واضح موقف
 تحریر:محمد علی نقوی
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ خطے میں اسلامی بیداری یقینا نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے آج صوبۂ فارس کے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دنیا اور خطے کی حساس صورتحال کی وضاحت کی اور فرمایا کہ آج اسلام اور ایران کے اسلامی انقلاب کی بدولت خطے میں عام اسلامی بیداری پیدا ہوئی ہے جو یقینا ویسے ہی نتیجہ خیز ثابت ہو گی جیسے بعض دوسرے ممالک میں نتیجہ خیز ثابت ہوئي ہے۔ آپ نے خطے کی صورتحال پر امریکہ، یورپ اور صیہونیوں کی بوکھلاہٹ کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ سامراجی طاقتوں کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ خطے کی صورتحال کو اپنے کنٹرول میں کر لیں، لیکن اسلامی بیداری کا سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے۔ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بحرین، یمن اور لیبیا کے بارے میں فرمایا کہ خطے کی موجودہ صورتحال خاص کر ان تینوں ممالک کی صورتحال کے منصفانہ جائزے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یورپی طاقتوں نے لوگوں پر ظلم کیا ہے اور یہ ایسے ظالم اور مجرم ہیں جن کے جرائم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
آپ نے خطے کے عوام پر امریکہ اور یورپ کے ظلم کی اصل وجہ ناجائز اسرائیلی حکومت کے مذموم مفادات کا حصول قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے امور میں ایران کی مداخلت کے دعوے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے برحق اور واضح موقف کو بیان کرتے وقت کبھی بھی خوفزدہ نہیں ہوا ہے۔ 
ادھر خلیج فارس کے عرب ملکوں میں عوامی تحریکوں کے پھیلنے کے خوف سے ان ملکوں کے سیاسی اور صحافتی حلقوں نے عرب ممالک میں ایران کی مداخلت کے الزامات لگانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ سعودی عرب سے وابستہ ٹی وی چینل العربیہ نے کویت کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ انہوں نے ایران پر بحرین میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا ہے۔ کویت کے وزیراعظم نے اس چینل سے انٹرویو میں ملت بحرین کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کو بحرین میں مداخلت بند کرنی چاہیے اور خلیج فارس تعاون کونسل کے اقتدار اعلٰی کا احترام کرنا چاہیے۔ قابل ذکر ہے ایران پر یہ الزام ایسے عالم میں لگایا جا رہا ہے کہ اسلامی بیداری کا سلسلہ شمالی افریقہ کے ملک تیونس سے شروع ہو کر تیزی سے مصر، یمن اردن، بحرین اور سعودی عرب میں پھیل گيا ہے۔ بحرین میں عوامی انقلاب کی کامیاب اور سعودی عرب پر اس کے بھرپور اثرات سے لاحق شدید تشویش کی بنا پر خلیج فارس تعاون کونسل کے ممالک نے ہاپھ پیر مارنا شروع کر دیا ہے کیونکہ ان ملکوں میں دسیون برسوں سے خاندانی آمرانہ حکومتوں کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ 
عوامی انقلابوں نے ان حکمرانوں کو اپنے سارے اختلافات بھلا کر اپنی بقا کے لئے متحد ہونے پر مجبور کر دیا ہے، اسی کے نتیجے میں یہ حکمران عوامی انقلاب کا مقابلہ کرنے کے لئے دوسروں کو اپنے مسائل کا ذمہ دار قرار دے رہے ہيں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ جس طرح سے خلیج فارس کے عرب حمکرانوں نے کبھی بھی عوام کو کوئی وقعت نہيں دی اور ہمیشہ ان کے مطالبات کو نظرانداز کیا اب بھی جبکہ عوام قیام کرچکے ہیں ان کو نظرانداز کر رہے ہیں اور ایران پر مداخلت کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ خلیج فارس کے عرب ملکوں کا یہ اقدام ایسے عالم میں سامنے آ رہا ہے کہ انہوں نے علاقے کے حالات میں بیرونی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے بحرین میں سعودی عرب سمیت دیگر ملکوں کی فوجی موجودگی اور عوام کے بہیمانہ قتل عام کا جواز بھی پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی جواز کی اساس پر بحرین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جب تک غیرملکی مداخلت کا خطرہ لاحق رہے گا بحرین میں سعودی فوجیں موجود رہیں گي۔
 خلیج فارس کے عرب ملکوں میں عوامی انقلابوں کو کچلنے کے اقدامات کے تحت امارات کے وزیر خارجہ نے بھی ایران پر مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ تہران کو علاقائي ملکوں کے حوالے سے اپنی پالیسیون میں نظرثانی کرنی چاہیے۔ یاد رہے خلیج فارس کے عرب ممالک تیل کے عظیم ذخائر کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے نام نہاد روایتی حلیف بھی شمار ہوتے ہیں اور یہ ممالک امریکہ اور یورپ کی مصنوعات کی بڑی منڈی بھی ہیں۔ ان ملکوں میں امریکی فوجی موجودگي کی بناپر امریکہ کی سربراہی میں سامراجی ملکوں نے ایک جیسے مسائل کے حوالے سے دوہرے رویئے اپنائے ہیں۔ امریکہ اور اسکے ٹولے نے جہاں لیبیا پر لشکر کشی کر دی ہے وہاں بحرین میں انسانیت سوز جرائم پر آنکھیں بند کئے اور خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے بلکہ خلیج فارس کے عرب ملکوں کی حمایت کر رہا ہے۔ کیا امریکہ کو لیبیا کی طرح سعودی عرب اور بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی دکھائي نہیں دیتی ہے؟
 اس سلسلے میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کمیشن کی سربراہ کا بیان قابل غور ہے جسمیں انہوں نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کو علاقے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ بحرین کا دارالحکومت منامہ اس وقت اسرائیلی جاسوسوں کے مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے اور بحرین میں جس بڑے پیمانے پر اسلامی شعائر کی توہین ہو رہی ہے، خواتین کی عزت لوٹی جا رہی ہے اور لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے یہ سب اسرائیل اور امریکہ کی سرپرستی میں ہو رہا ہے اور یہ کام سعودی عرب و بحرین کی حکومتیں انجام دے رہی ہيں۔
دراصل مصر اور تیونس میں عوامی انقلاب کے بعد اسرائیل نے جو اپنا وجود خطرے میں پڑتا دیکھ رہا تھا اپنے دیرینہ خفیہ اتحادی آل سعود کی خدمت حاصل کر کے علاقے کی تحریکوں کو ناکام بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا ہے اس کے لئے اس نے بحرین میں عوام کی پرامن تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر وہابیوں اور سلفیوں کے ٹولوں سے گھری آل سعود کی حکومت کو بحرین میں فوجی مداخلت کرنے پر مجبور کیا اور یوں بحرینی عوام کے مسلمہ اور جائز مطالبات کو شیعہ و سنی رنگ دینے کی کوشش کی، جبکہ بحرینی عوام کی تحریک کی ماہیت وہی ہے جو مصر، تیونس و لیبیا کے عوام کی تحریک کا مقصد ہے۔ ان تمام ملکوں میں لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہيں بس اس فرق کے ساتھ کہ ان دیگر ملکوں میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے اور بحرین میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے جبکہ ان کے ساتھ سنی مسلمان بھی تحریک میں شانہ بشانہ شریک ہیں۔ مگر چونکہ آل سعود اور اسرائیل دونوں کو ہی ان عوامی تحریکوں کے نتیجے میں اپنا وجود خطرے میں پڑتا نظر آ رہا ہے اس کے لئے انہوں نے بحرین میں کسی بھی طرح کے ظلم سے اب تک دریغ نہيں کیا ہے۔
 اسی لئے رھبر رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے عوام پر امریکہ اور یورپ کے ظلم کی اصل وجہ ناجائز اسرائیلی حکومت کے مذموم مفادات کا حصول قرار دیا اور خطے کے امور میں ایران کی مداخلت کے دعوے کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے برحق اور واضح موقف کو بیان کرتے وقت کبھی بھی خوفزدہ نہیں ہوا ہے۔
مصنف :
خبر کا کوڈ : 67364
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
This has made my day. I wish all positgns were this good.
ہماری پیشکش