1
0
Thursday 26 May 2011 17:16

اوباما کی تقریر میں ان کہی باتیں

اوباما کی تقریر میں ان کہی باتیں
تحریر: مہدی محمدی
اگرچہ مشرق وسطی سے متعلق امریکی صدر براک اوباما کی تقریر کو کچھ دن ہی گزرے ہیں لیکن اسکی تنقید میں شائع ہونے والے کالمز کی تعداد سینکڑوں سے بھی زیادہ ہے۔ بہت پہلے جب یہ اعلان کیا گیا تھا کہ امریکی صدر جمعرات کے روز اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دورہ امریکہ کی مناسبت سے مشرق وسطی کے سیاسی حالات کے بارے میں تقریر کریں گے تو بعض تجزیہ نگاروں کی رائے یہ تھی کہ اس بار اوباما گذشتہ کی طرح ادھر ادھر کی نہیں ماریں گے اور ہمیں کچھ نئی باتیں سننے کو ملیں گی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ جب امریکی صدر نے خطے میں اس قدر اہم سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں 6 ماہ سے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے تو اب جب وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو یقیناً اس اہم موضوع کے بارے میں اظہار نظر ضرور فرمائیں گے!۔ لیکن کچھ دوسرے افراد کا خیال یہ تھا کہ اوباما کی تقریر میں کوئی نئی بات سننے کو نہیں ملے گی اور وہ صرف اپنی اور اپنی حکومت کی بری رپوٹیشن کو صحیح کرنے کی کوشش کریں گے۔
مشرق وسطی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور امریکی حکام خوفزدہ ہیں کہیں اس چلتی ٹرین سے نیچے نہ رہ جائیں۔ براک اوباما کی تقریر کے ہر جملے میں یہ خوف قابل مشاہدہ تھا۔ وہ اصلی سوال جن سے امریکی صدر نے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی یہ ہیں:
۱۔ مشرق وسطی کا مستقبل کیا ہو گا؟
مشرق وسطی اپنی موجودہ سیاسی صورتحال سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی اس سیاسی صورتحال سے دور ہو رہا ہے جسے امریکہ نے کئی عشروں کی محنت اور کوشش کے بعد ایسی حالت میں برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی جو اسکی قومی سلامتی اور بنیادی مفادات کے یقینی تحفظ کیلئے ضروری تھی۔ اوباما نے اپنی تقریر میں اس نکتے کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی ہے کہ مشرق وسطی کا نئے مرحلے میں داخل ہونے اور قدم بقدم گذشتہ سیاسی صورتحال سے دور ہونے کا مطلب امریکہ کے بنیادی مفادات کے یقینی تحفظ سے دوری اختیار کرنا ہے۔ البتہ اس خاموشی کی وجہ انتہائی واضح ہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ اوباما کی تقریر کے حقیقی مقاصد میں سے ایک یہ ہو کہ وہ 2012 کے صدارتی الیکشن کی مہم کی دہلیز پر اپنی جانب سے انتہائی مطمئن اور خوداعتمادی پر مبنی تاثر دینا چاہتے ہوں تو پھر ایسی بحث چھیڑنا جس میں خطے میں گذشتہ تمام امریکی محنت پر پانی پھر جانے اور اسکے مقابلے میں امریکی حکومت کی بے بسی کا تذکرہ ہو شاید الٹا نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اسکے علاوہ اوباما کے سیاسی حریف بھی ان کمزوریوں کو ایشو بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔
۲۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ خطے میں سیاسی تبدیلی لانے والی قوتیں کون سی قوتیں ہیں؟، اور امریکہ کس حد تک ان پر اثر و رسوخ رکھتا ہے؟۔
یہ سوال پہلے سوال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اسی وجہ سے براک اوباما نے ترجیح دی کہ وہ اسے مکمل طور پر نظرانداز کر دیں۔ یہ امریکہ کیلئے ایک خوفناک حقیقت ہے جو لحظہ بلحظہ مزید شدت اختیار کر رہی ہے کہ امریکہ کا خطے میں رونما ہونے والی عوامی تحریکوں میں مرکزی کردار ادا کرنے والی قوتوں، چاہے وہ تنظیموں کی شکل میں ہوں یا عام سرگرم عمل افراد کی صورت میں، کوئی رابطہ نہیں ہے۔ کچھ پہلے ہی امریکہ نے یہ کوشش شروع کی ہے کہ عالم اسلام کے مغربی حصے میں رونما ہونے والی تنظیم "اخوان المسلمین" کے بارے میں کچھ سوجھ بوجھ پیدا کرے یا یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ لبنان کی حدود سے باہر حزب اللہ کی آپریشنل صلاحیت کس قدر ہے؟۔ خطے کے مزاحمتی گروہ جو اب تربیت یافتہ اور منظم افراد کی بابت خطے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، امریکہ کے تاریخی دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی حکومت ابھی 7 ماہ قبل ہی خطے کے ڈکٹیٹر حکمرانوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ان گروہوں کو نابود کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف تھی۔ اب جب یہ مزاحمتی قوتیں خطے کے سیاسی حالات پر کنٹرول حاصل کر چکی ہیں تو کس منطق کے تحت یہ احتمال دیا جس سکتا ہے کہ وہ ذرہ بھر امریکی مفادات کیلئے قدم اٹھائیں گی؟۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ اخوان المسلمین مصر نے یہ مشورہ دیا ہے کہ ایران، ترکی اور مصر کے درمیان اسٹریٹجک مذاکرات میں شام کا مسئلہ بھی ڈسکس کیا جائے، اور امریکہ کا کوئی ذکر بھی نہیں کیا گیا۔
امریکہ نے خطے میں رونما ہونے والے انقلابات کے پہلے دن سے ہی یہ کوشش کی ہے کہ ان میں مرکزی کردار کے حامل گروہوں کے ساتھ رابطہ برقرار کرے۔ حتی ان انقلابات کے عروج کے دنوں میں اسی مقصد کیلئے امریکہ کی قومی سلامتی کونسل میں درپردہ تبدیلیاں بھی لائی گئی ہیں۔ ان کا ایک نمونہ قومی سلامتی کونسل کے مشرق وسطی سے مربوط شعبے کی صدارت اسٹیون سائمن جیسے شخص کو دینا ہے جو واشنگٹن کے سیاسی حلقوں میں حزب اللہ کے ساتھ مذاکرات کی طرفداری کرنے میں مشہور ہے۔ [امریکی حکام نے حالیہ تحریروں میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان کو دنیا کا طاقتور ترین سویلین گروہ سمجھتے ہیں جو القاعدہ سے بھی کئی گنا طاقتور ہے]۔ ان تمام کوششوں کے باوجود خطے کی عوام پر امریکی ظلم و ستم نے آج تک اس بات کی اجازت نہیں دی اور مستقبل میں بھی نہیں دے گی کہ خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی گروپس ایک قدم امریکی مفادات کی جانب جھک جائیں یا امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کریں۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے اپنی تاریخ میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس نے آج تک ایک بار بھی صداقت اور خلوص کے ساتھ خطے کی عوام کے حقوق کا دفاع نہیں کیا۔
خطے کے انقلابات میں سرگرم عمل عام افراد جو کسی تنظیم یا گروہ کا حصہ نہیں ہیں، بھی امریکہ کی نسبت یہی رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اوباما نے اپنی تقریر میں انتہائی واضح انداز میں کہا ہے کہ خطے میں اپنے مفادات اور اقدار کے تحفظ میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ لیکن پھر اپنی اس بات کی توجیہ کیلئے یہ بھی کہا ہے کہ امریکی مفادات خطے کی عوام کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ یہ وہی نکتہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اوباما کی تقریر کا صرف یہ ایک جملہ ہی اس حقیقت کو آشکار کرنے کیلئے کافی ہے کہ امریکہ نے ان 5 ماہ کے دوران نہ خطے میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کو صحیح طور پر درک کیا ہے اور نہ ہی ان عوامی انقلابات کی آواز کو سنا ہے۔ اگر مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں رونما ہونے والی یہ عوامی تحریکیں صرف ایک پیغام کی حامل ہوں تو وہ یہ ہے کہ خطے کی عوام کے مفادات اور انکی اقدار ان مفادات اور اقدار سے بالکل مختلف ہیں جنہیں امریکہ فوجی حملوں، منفی پروپیگنڈے اور خطے کے ڈکٹیٹر حکمرانوں کی حمایت کے ذریعے وہاں کی عوام پر ٹھونسنے کے درپے ہے۔ خطے کی عوام نے صرف اس لئے انقلاب کا راستہ اختیار کیا ہے کیونکہ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ جن حالات میں وہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور جو حالات ان پر مسلط کر دیئے گئے ہیں انکا محصول ذلت اور تحقیر کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگرچہ اوباما نے اس حقیقت کا ذکر نہیں کیا لیکن کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس تحقیر اور ذلت کا اصلی ذمہ دار صرف امریکہ ہے جس میں خطے کی عوام کئی عشروں سے مبتلا ہیں۔
امریکی تحقیقاتی اداروں کی جانب سے انجام پانے والے جدید ترین رائے گیری ظاہر کرتی ہیں کہ خطے میں امریکی حکومت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ مثال کے طور پر براک اوباما جو کسی زمانے میں اس کوشش میں مصروف تھا کہ امریکہ اور عالم اسلام کے درمیان پائے جانے والے تمام مسائل کو حل کر کے ایران کو مکمل طور پر گوشہ نشینی کا شکار کر دے اس وقت خود مشرق وسطی کی عوام کے نزدیک منفور ترین شخص بن چکا ہے۔
خلاصہ یہ کہ خطے کے انقلابات میں سرگرم عمل گروہ اور افراد یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہر قیمت پر خطے میں قائم شدہ امریکی نظام نابود ہونا چاہئے کیونکہ اس نظام کی پہلی ترجیح امریکی حکومت کے مفادات کا تحفظ تھی جس کیلئے وہ خطے میں موجود قدرتی وسایل اور دولت لٹانے میں مصروف تھے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ عوامی اقدار اور مفادات کو نہ صرف نظرانداز کرتے تھے بلکہ انہیں امریکی مفادات کے آگے قربانی کا بکرا بنائے ہوئے تھے۔ خطے کے کٹھ پتلی حکمران اپنی عوام کی تحقیر میں مصروف تھے۔ اوباما کی تقریر میں ان حقائق کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے خطے میں جاری عوامی تحریکوں کی حمایت کی بو تک آتی ہو۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اسلام کا نام تک نہیں لیا جو یقیناً خطے میں رونما ہونے والے انقلابات کا بنیادی عامل ہے۔ البتہ ایک جگہ انہوں نے اسلام کا نام لیا اور وہ اس وقت جب انہوں نے اسامہ بن لادن کے قتل کا تذکرہ کیا اور اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ انکے خلاف انتقامی کاروائی ہو سکتی ہے۔ اوباما نے اپنی تقریر میں خطے میں موجود آمرانہ حکومتوں کی جانب سے اصلاحات کے امریکی پیکج کو اجراء کرنے کی صوت میں اپنی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ خطے کے ڈکٹیٹرز اگر باتوں کی حد تک بھی ان اصلاحات کو مان لیں تو اوباما عوامی تحریکوں کی زبانی حمایت کرنا بھی چھوڑ دیں گے۔ صدر اوباما نے اپنی پوری تقریر میں ایک لفظ بھی سعودی عرب کے بارے میں نہیں بولا کہ کہیں تیل کے کنووں اور ہر سال امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جیب میں جانے والے کروڑوں ڈالر کے مالکین برا نہ مان جائیں۔ اردن کے بارے میں بھی کچھ بولنے سے گریز کیا کیونکہ جناب عبداللہ اب تک اسرائیل کی سلامتی کیلئے اپنے وظائف ادا کرنے میں مشغول ہیں۔ جب بحرین کی باری آئی تو اوباما نے انتہائی واضح الفاظ میں کہا کہ عوام کی قتل و غارت میں مصروف بحرینی حکومت ملک کا دفاع کر رہی ہے اور ملکی سلامتی [بے دفاع خواتین اور غیرمسلح جوانوں کے مقابلے میں] کو اہمیت دیتی ہے۔ یمن کے صدر عبداللہ صالح کو انتہائی محتاطانہ اور محترمانہ انداز میں مشورہ دیا کہ خلیج تعاون کونسل کی جانب سے پیش کردہ امریکی منصوبے کو مان لیں۔ لیبیا کے بارے میں اوباما نے کہا کہ قذافی کو جانا ہو گا لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ کیسے؟ اور اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا کہ نیٹو کے جنگی طیارے کیوں قذافی کی رہائشگاہ کو نشانہ بنانا پسند نہیں فرماتے؟ اور یہ کہ قذافی کے ساتھ خفیہ مذاکرات کس مرحلے میں ہیں؟۔
لمبی لمبی فضول اور بیہودہ باتیں کرنا آسان کام نہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ براک اوباما اس کام میں سپشلائزیشن رکھتے ہیں۔ کاش انہوں نے ان تمام باتوں کی بجائے امریکی روزنامے "کریسٹین سائنش مونیٹر" کے اس مشورے پر عمل کر لیا ہوتا اور صرف ایک جملہ کہ دیا ہوتا کہ: آئی ایم سوری۔
خبر کا کوڈ : 74772
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
I bow down humbly in the pernesce of such greatness.
منتخب
ہماری پیشکش