0
Friday 16 Sep 2011 22:56

دو روزہ بین الاقوامی اسلامی بیداری کانفرنس

دو روزہ بین الاقوامی اسلامی بیداری کانفرنس
 تحریر:محمد علی نقوی
ہفتہ کے روز سے ایران کے دارالحکومت تہران میں اسلامی بیداری کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس شروع ہو رہی ہے، جسکا افتتاح رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کریں گے۔ تہران کی میزبانی میں ہونے والی اس کانفرنس کے مدعوین میں مسلمانوں کے ہر مسلک و مذھب سے تعلق رکھنے والے عمائدین، قائدین، اور اسکالرز موجود ہیں۔ اس کانفرنس کا محرک اور باعث رہبر انقلاب اسلامی کے وہ فرامین اور ارشادات ہیں جو آب گذشتہ کئی برسوں خصوصاً پچھلے ایک سال کے دوران مختلف موقعوں پر بیان فرماتے رہے ہیں۔ دنیا کی نظروں میں بہار عرب کو رہبر انقلاب اسلامی، اسلامی بیداری کا مقدس عنوان بہت پہلے عطا کر چکے ہیں اور یہ وہ موضوع کہ جس پر بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ خاص تاکید کرتے تھے۔
 آپ فرماتے ہیں "نوجوان نسل اور روشن فکر تحریک کی آگاہی اور بیداری کا عمل بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے، اور اپنے قطعی انجام کو، جو بلاشبہ بیرونی طاقتوں کے ایجنٹوں کے خاتمہ، اور اسلامی اقدار کا نفاذ ہے، پہنچے گا۔" ایک اور موقع پر آپ بڑی شیطانی طاقتوں کے بارے میں فرماتے ہیں "مسلمان اقوام کو چاہیے کہ بڑی طاقتوں کو اپنا دشمن اور فریبی سمجھیں مگر یہ کہ اس نظریئے کے برخلاف ان پر عیاں اور ثابت ہو جائے۔"
اگر دیکھا جائے تو بڑی شیطانی طاقتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں یا ان سے وابستہ حکمرانوں نے عالمی سطح پر اپنی قومی غیرت و حمیت اور حتٰی اقتدار اعلٰی کو نہایت ہی ذلت آمیز طریقے سے گروی رکھ دیا ہے۔ اقتصادی معاشی فوجی حتٰی علمی میدان میں بھی پیچھے اور پسماندہ ہیں اور اپنی قوموں کو مغرب کا بے دام غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔
اس وقت عالم عرب کی حالت دیکھئے، بیشتر ممالک میں موروثی حکومتیں ہیں، جن کا اپنا اختیار صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی چاہے جیسے گذاریں، یورپ اور امریکہ میں عیاشی کے لئے جزیرے بک کرائیں، اربوں ڈالر مالیت کے ذاتی سپر لگژری ہوائی جہاز خریدیں، سامان تعیشات آراستہ تیرتے ہوئے محل (بحری جہاز) بنائیں اور جتنی اونچی سے اونچی عمارت کھڑی کر سکتے کر لیں، لیکن علاقائی اور عالمی سیاست میں صرف اتنا ہی بولیں جتنا ان سے کہا جائے۔ علاقے کی اسلامی عوامی اور حتٰی جمہوری تحریکوں کو ہرگز پنپنے نہ دیں۔ قدس کی غاصب صہیونی حکومت کے خلاف زبان کھولنے سے پہلے اس کو کاٹ ڈالیں اور اس طرح کی بہت سی ذلت آمیز ہدایات و احکامات جن پر مو بہ مو عمل کرنا عرب حکام اپنا فریضہ عینی سمجھتے ہیں۔
 سن ستاسی کے موسم حج کو تاریخ کبھی نہیں بھلا سکے گی، جب مشرکین سے برائت اور بیزاری کا اظہار کرنے والے حجاج کو سعودی فورسز نے حرم امن الہی میں گولیوں سے بھون ڈالا۔ ان حجاج کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے امام خمینی رہ کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے عصر حاضر کے سب سے بڑے مشرک یعنی امریکہ کے خلاف مردہ باد کا نعرہ بلند کیا تھا، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرئیل کو غاصب حکومت قرار دیا تھا۔ فرقہ پرستی کی نفی کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کا نعرہ لگایا تھا۔
 ظاہر ہے یہ سب باتیں امریکہ کو پسند تھیں نہ اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے لئے خوش آئند تھیں، لہذا اس وقت کے سعودی فرمانروا ملک فہد بن عبدالعزیز نے امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی کے لئے ایک دو کو نہیں بلکہ 400 حجاج کرام کو منٰی کی بجائے مکہ میں قربان کر دیا۔ چھ دسمبر کو 1992ء بابری مسجد کی انتہا پسند ہندؤں کے ہاتھوں شہادت کے المناک واقعے کے بعد عرب ممالک خصوصاً دبئی میں مقیم مسلمانوں کے ردعمل کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، شائد لوگوں کو یاد نہ ہو، لیکن لبنان کے خلاف 33 روزہ صہیونی جارحیت اور غزہ کے نہتے اور معصوم شہریوں پر صہیونی حکومت کے جنگی طیاروں کے وحشیانہ حملوں اور معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کے خون آلود جسم اور بکھرے ہوئے اعضا بدن، آج بھی ذہنوں کو متاثر کئے ہوئے ہیں، لیکن اس زمانے میں بھی مغرب نواز عرب حکمران، امریکہ اور اسرائیل کا ہی کلمہ پڑتے دکھائی دئیے۔
ظاہر ہے کہ قومیں اتنی ذلت کو برداشت نہیں کر سکتیں، برداشت اور تحمل کی بھی حد ہوتی ہے۔ چنانچہ بن علی جیسا مغرب زدہ ڈکٹیٹر جب انتہائی رسوائی کے عالم میں بھاگا تو مغرب کے کسی بھی ملک نے اس کو پناہ نہ دی، ایسے موقع پر آل سعود نے اس کو بڑھ کر اپنی آغوش میں لے لیا۔ علاقے میں صیہونی حکومت کے سب سے بڑے محافظ کو جب مصر کے ایوان صدر سے نکالا تو سعودی عرب نے اس کو بھی قوم کے عتاب سے بچانے کوشش کی، یمن کا ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح بھی اپنی جان بچا کر اس وقت سعودی عرب میں پناہ لئے ہوئے ہے اور بحرین کے شاہی نظام کو بچانے کے لئے تو سعودی عرب نے اپنی فوج تک بحرین کے گلی کوچوں میں تعینات کر رکھی ہے۔ قذافی کے معاملے میں سعودی عرب نے اس لئے چپ سادھ لی کہ وہاں بظاہر خود امریکہ اور مغربی ممالک میدان میں اتر آئے اور لیبیا کے عوامی انقلاب کو منحرف کرنے کی کوشش کی۔ 
شام کے حوالے سے سعودی عرب کا کردار امریکہ اور صہیونی حکومت کے موقف سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ اسرئیل اور امریکہ دونوں ہی شام میں حکومت کی تبدیلی کے حق میں ہیں، لیکن یہاں بھی ان کو اس بات کا یقین نہیں کہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں ان کے موافق کوئی حکومت برسر اقتدار آئے گی یا موجودہ حکومت کی طرح ان کی مخالف۔ اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ نتیجہ بالکل واضح ہو کر سامنے آتا ہے کہ دنیا کے جس ملک میں بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے وہاں امریکہ مخالف حکومت ہی برسر اقتدار آئے گی، خصوصاً عرب اور اسلامی دنیا میں۔ 
بہر حال اس وقت تہران ایسے مہمانوں کی میزبانی کر رہا ہے کہ جن کا تعلق اسلامی اور عرب دنیا سے جڑا ہوا ہے اس ناطے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس معاملے میں ملت ایران اور ایرانی قیادت واقعاً قابل تحسین ہے کہ اپنا فریضہ بخوبی نبھا رہی ہے۔ بہرحال دارالحکومت تہران میں اسلامی بیداری کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے، کیونکہ اس میں دنیا کے ستر ملکوں کے علماء اور دانشور جو کہ اسلامی بیداری سے اپنی شناخت کو جوڑتے ہیں، شرکت کر رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا میں کوئي بھی اسلامی ملک اتنا آزاد نہیں ہے کہ اسے اسلامی بیداری کے حوالے سے عالمی کانفرنس کرانے کی اجازت ہو اور وہ اسلامی علماء اور دانشوروں کے لئے ایسا پلیٹ فارم بھی مہیا کر سکتا ہو۔ 
امریکہ کی سرکردگی میں مغرب کی جانب سے ایران کو بھی شدید دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا تھا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن ان دھمکیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے ارادوں میں نہ صرف یہ کہ تزلزل پیدا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے آزادی، استقلال اور سامراج دشمنی کی روش کو جاری رکھا ہوا ہے اور اسلامی بیداری کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بھی اسی پروگرام کا حصہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 99189
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش