0
Monday 30 Apr 2012 18:10

قومیں اپنے زورِ بازو پر زندہ رہتی ہیں، زندگی بھیک میں نہیں ملا کرتی، حسنین جاوید

قومیں اپنے زورِ بازو پر زندہ رہتی ہیں، زندگی بھیک میں نہیں ملا کرتی، حسنین جاوید
جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر حسنین جاوید کراچی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ 2000ء سے جے ایس او سے وابستہ رہنما مطالعہ کے شوقین، اچھے مقرر اور تنظیمی امور میں مہارت رکھتے ہیں۔ قومی مسائل کا حل اتحاد کو سمجھتے اور مایوسی کی بجائے جہد مسلسل پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ یکساں نظام تعلیم کو قومی ترقی کا راز گردانتے اور طلبہ یونینز کے انتخابات کو نئی سیاسی قیادت کی نرسری سمجھتے ہیں۔ پرامن تعلیمی ماحول کے خواہشمند، جے ایس او کے مرکزی صدر سے اسلام ٹائمز نے موجودہ حالات پر پہلا انٹرویو کیا ہے۔ جس کی پہلی  قسط قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ 

اسلام ٹائمز: جے ایس او کی بنیاد کب اور کیوں رکھی گئی۔؟
حسنین جاوید: جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی باقاعدہ بنیاد 29 جون 1997ء کو خیرپور میرس سندھ میں رکھی گئی۔ اس تنظیم کے بنانے کا بنیادی مقصد طلبہ کو ایک ایسا الٰہی پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا جو علماء اور بالخصوص نمائندہ ولی فقیہ کی سربراہی اور سرپرستی میں کام کر رہا ہو۔ ان دنوں طلبہ کے لیے ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی گئی جو حقیقی معنوں میں نظامِ ولایتِ فقیہ کے تحت کام کر رہا ہو۔ طلبہ اکتوبر 1996ء کے لاہور کنونشن میں ہونے والی بدمزدگی کے بعد مایوسی کا شکار ہو چکے تھے۔
 
بچی کھچی کسر ایک طلبہ تنظیم کے ماہانہ میگزین نے پوری کر دی اور جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جس کے نتیجے میں اچھے خاصے دین دار طلباء بھی قوم پرست تنظیموں میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ سندھ کے شیعہ طلبہ پہلے ہی ایک شیعہ طلبہ تنظیم سے بدظن ہو چکے تھے۔ ہمارے سینئرز نے ہر ممکن کوشش کی کہ بدظن شیعہ طلبہ کو مطمئن کیا جائے، مگر اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ سابق تنظیم کے دستور میں حذف کی جانے والی شق کو بحال کیا جائے کہ جس میں تحریر تھا کہ یہ تنظیم براہِ راست ولی فقیہہ اور پاکستان میں ان کے نمائندہ کی سربراہی اور نگرانی میں کام کریگی۔ تو اس طرح جے ایس او تشکیل پائی۔
 
اسلام ٹائمز: آپ کا تعلیمی ادارہ اور شعبہ کیا ہے اور جے ایس او میں کب سے ہیں۔؟
حسنین جاوید: میں نے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور سے شعبہ ریاضیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، جبکہ اس وقت جامعہ کراچی سے ادبیاتِ اردو میں ایم اے کر رہا ہوں۔ جے ایس او پاکستان میں 2000ء میں بطور ممبر شامل ہوا، جس کے بعد یونٹ جنرل سیکریٹری، یونٹ صدر، ڈویژنل جنرل سیکرٹری، مرکزی جنرل سیکرٹری، مرکزی سینئر نائب صدر اور پھر اس وقت لطفِ خدا سے مرکزی صدر کی ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں۔
 
اسلام ٹائمز: جے ایس او بنانے کے مقاصد کیا تھے۔؟ کس حد تک ان مقاصد کو حاصل کیا جا سکا۔؟
حسنین جاوید: جے ایس او بنانے کا مقصد کسی تنظیم، کسی ادارے یا کسی شخصیت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد طلبہ کو سیرتِ محمد و آلِ محمد سے روشناس کراتے ہوئے علماء کی قیادت، رہبری اور رہنمائی میں خطِ امام پر گامزن رکھنا ہے۔ طلبہ کے حقوق کے لیے موثر آواز اٹھائی جائے، تاکہ طلبہ حقوق کی پاسداری ہو سکے۔ جہاں تک اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کی بات ہے تو یہ ایک مسلسل عمل ہے، ہم اپنے اس عمل میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: تاثر ہے جے ایس او، آئی ایس او کے باغیوں نے بنائی؟ کیا کہتے ہیں؟
حسنین جاوید: (مسکراتے ہوئے) کون سی بغاوت؟ کس کے باغی؟ ہم نے تو کسی سے بغاوت نہیں کی۔ باغی تو وہ ہوتا ہے جو متعین الٰہی راستے، اہداف اور قیادت سے دور ہو جائے۔ ہمارا راستہ خطِ امام ہے، اہداف بھی وہی ہیں جو کہ بہت واضح اور روشن ہیں۔ قیادت بھی وہی ہے جس کا تسلسل قائدِ مرحوم علامہ سید محمد دہلوی، مفتی جعفر حسین اور قائدِ شہید علامہ عارف حسین الحسینی سے ہے، جس کے ہم پیرو ہیں۔ ہم شہدائے کربلا کے پیرو ہیں، جو مشکل حالات میں چراغ گل ہونے کے باوجود حسین ابن علی (ع) کو نہیں چھوڑتے۔ 

اسلام ٹائمز: تنظیمیں بڑے مقاصد کے تحت بنائی جاتی ہیں۔ جے ایس او ایک شخصیت کی قیادت کو بچانے کے لئے بنائی گئی، کیا کہتے ہیں۔؟
حسنین جاوید: جے ایس او کے بنانے کے مقاصد میں بیان کر چکا ہوں۔ جس میں کہیں بھی قیادت کو بچانے کی بات نہیں کی گئی۔ ایک بات بالکل واضح اور روشن ہونی چاہیے کہ قیادت کو ہماری نہیں، بلکہ ہمیں ایک قائد اور رہنما کی ضرورت ہے کیونکہ قومیں قیادت کی رہنمائی اور رہبری میں ہی آگے بڑھتی ہیں۔ نہ کہ اپنے رہبر کی رہنمائی کرتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ صرف وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جنہیں رہبریت میسر ہو کیونکہ مولائے کائنات امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا وہ عظیم فرمان ہماری رہنمائی کرتا ہے جس میں آقا و موالا نے فرمایا تھا کہ ”مجھے گمان ہے کہ یہ لوگ تم سے طاقت و اختیار چھین لیں گے، کیونکہ وہ باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر بکھرے ہوئے ہو، وہ باطل کی راہ میں اپنے رہبر کی اطاعت کرتے ہیں اور تم حق کی راہ میں اپنے رہبر کا حکم نہیں بجا لاتے۔“ 

جے ایس او کے قیام کے چھ ماہ بعد جب قائدِ ملتِ جعفریہ پاکستان و نمائندہ ولی فقیہ حضرت علامہ سید ساجد علی نقوی سے ہمارے بانیان کی پہلی ملاقات دسمبر 1997ء کو ملتان میں ہوئی تو جے ایس او کے بانیان نے قائدِ محترم سے سرپرستی اور رہنمائی کی اپیل کی۔ جے ایس او کو بنانے میں اور اس کو چلانے میں قائدِ محترم کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ہم ضرورت مند ہیں قیادت کے، نہ کہ قیادت ہماری ضرورت مند ہے۔ 

موجودہ قائد خود سے کسی عہدے پر فائز نہیں ہوئے بلکہ قیادتوں کا ایک تسلسل ہے جو کہ قائدِ مرحوم سید محمد دہلوی سے شروع ہوتا ہے اور موجودہ قیادت تک پہنچتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ ولی فقیہ امامِ راحل امام خمینی رہ اور آپ کی رحلت کے بعد موجودہ ولی امرالمسلمین امام حضرت سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی جانب سے آپ ہی کو میرے ملک کے لیے اپنا نمائندہ مقرر فرمایا گیا۔ یہ بات کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم طلباء کا کام قیادتیں بنانا اور ہٹانا نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی حدود میں رہنا ہو گا۔ 

اسلام ٹائمز: آپ جے ایس او کے مرکزی صدر ہیں۔ اس تنظیم کا دوسری طلبا تنظیموں سے تقابل کیا جائے تو اس کی rating کس نمبر پر دیکھتے ہیں۔؟
حسنین جاوید: ہر تنظیم کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، جے ایس او کی اپنی ترجیحات ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری طلباء تنظیمیں مالی و دیگر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے بہت آگے ہیں۔ ان کے پاس دفاتر، ملازمین، سالانہ بجٹ، گاڑیاں اور دیگر مادی وسائل موجود ہیں۔ ان کے برعکس ہمیں وسائل کی عدم دستیابی و دیگر مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر ان تمام زمینی حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو پھر ہماری تنظیم کی rating سب سے اوپر ہو گی۔

اسلام ٹائمز: جے ایس او سندھ اور جنوبی پنجاب سے باہر فعال کیوں نہیں ہو سکی۔؟
حسنین جاوید: یہ تاثر بے بنیاد اور غلط ہے کہ جے ایس او سندھ اور جنوبی پنجاب تک محدود ہے۔ ہماری تنظیم ملک گیر تنظیم ہے۔ اس کے یونٹس کراچی سے گلگت و بلتستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ میرے تنظیمی دورانیہ کی آخری مرکزی تربیتی ورکشاپ لاہور میں ہوئی، آخری مرکزی عاملہ کا اجلاس گجرات میں ہوا۔ گلگت کی حالیہ کشیدہ صورتحال میں ہمارے ایک نوجوان نوید رضا نے گلگت میں جامِ شہادت نوش کیا۔ اس سال جے ایس او پاکستان کا مرکزی کنونشن بھی اَپر پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں طے پایا ہے۔ جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جے ایس او پاکستان صرف سندھ اور جنوبی پنجاب تک ہی محدود نہیں ہے۔ 

اسلام ٹائمز: آپ نے جے ایس او کے کارکنان کی شہادت کی بات کی، ابتک تنظیم سے وابستہ کتنے نوجوان شہادت کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔؟
حسنین جاوید: قائدِ شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے فرمایا تھا کہ شہادت ہماری میراث ہے جو ہماری ماوں نے ہمیں دودھ میں پلائی ہے۔ جی ہاں اب تک تنظیم سے وابستہ 6 نوجوانوں نے راہِ حسین (ع) پر چلتے ہوئے شہادت کو گلے سے لگایا۔ اس سلسلے میں 28 اپریل 1999ء کو لاڑکانہ ڈویژن کے علاقے شہداد کوٹ میں 10 محرم الحرام کے دن تین نوجوانوں حیدر عباس سیلرو، ذوالفقار علی اور عمران علی لانگاہ دورانِ جلوس عزا فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہوئے۔
 
2010ء میں یوم القدس کو کوئٹہ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں جے ایس او صوبہ بلوچستان کے جنرل سیکرٹری برادر منور علی کولاچی درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ گلگت کے حالیہ خونی واقعات میں ہمارے ایک نوجوان نوید رضا نے گلگت میں جامِ شہادت نوش کیا۔ اسی طرح جے ایس او کراچی ڈویژن کے سابق صدر برادر گلزار علی بھٹو کچھ دن پہلے 19 اپریل کو لاہور میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ 

اسلام ٹائمز: ملکی حالات میں تشیع کے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکی کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں۔؟ 
حسنین جاوید: اس بدسلوکی کے اصل ذمہ دار ہم خود ہیں، قومیں اپنے زورِ بازو پر زندہ رہتی ہیں۔ زندگی بھیک میں نہیں ملا کرتی۔ دوسروں کے سہارے یا دوسروں کے رحم و کرم پر جینا بھی کوئی جینا نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایک قیادت کے زیرِ سایہ، ان کے حکم پر ووٹ کی طاقت کو اجتماعی طور پر استعمال کرنا ہو گا۔ ملی مفادات پر اپنا تن، من دھن قربان کرنا ہو گا۔ صرف باتوں سے نہیں، عملی میدان میں اس بات کو ثابت کرنا ہو گا۔ 
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
خبر کا کوڈ : 157676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش