1
0
Monday 21 May 2012 23:38

قومی پلیٹ فارم کی مضبوطی میں ہی تشیع کی قوت اور عزت ہے، علامہ مظہر عباس علوی

قومی پلیٹ فارم کی مضبوطی میں ہی تشیع کی قوت اور عزت ہے، علامہ مظہر عباس علوی
علامہ مظہر عباس علوی ضلع اٹک کے گاوں چمہٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ علامہ سید ساجد علی نقوی کے ہونہار شاگردوں میں سے ہیں۔ مدرسہ آیت اللہ الحکیم سے قضاوت کا کورس مکمل کر چکے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم میں سالہا سال تحصیل علم کے بعد 1993ء سے فیصل آباد میں مقیم ہیں۔ فیصل آباد میں ایک مسجد کے امام جمعہ ہونے کے  علاوہ مختلف تنظیمی عہددوں جیسے سٹی صدر، ضلعی صدر اور صوبائی نائب صدر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اسلام آباد میں 18 سے 20 مئی کو ہونیوالے شیعہ علماء کونسل کے اجلاس میں انہیں ایس یو سی پنجاب کے سربراہ کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز نے علامہ مظہر عباس علوی سے انکی ماضی کی مصروفیات اور شیعہ علماء کونسل پنجاب کے نئے سربراہ ہونے کے ناطے انکے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں ایک انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جو قارئین کے استفادے کے لئے پیش خدمت ہے۔
 
اسلام ٹائمز: ابتدائی تعارف کروا دیں، تعلیم کہاں سے حاصل کی اور عملی زندگی میں کیسے آنا ہوا۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: میرا نام مظہر عباس علوی ہے، ضلع اٹک کے ایک گاؤں چمہٹ میں میری پیدائش ہوئی اور بنیادی تعلیم میں نے وہیں سے حاصل کی، اس کے بعد پاکستان کے مدارس دینیہ مدرسہ آیت اللہ الحکیم ، قائد ملت جعفریہ کا میں باقاعدہ شاگرد ہوں اور ان کے سامنے میں نے زانوئے تلمذ دراز کئے، پھر جامعۃ المنتظر میں جس وقت، ضیاءالحق صاحب نے اعلان کیا کہ اسلامی عدالتیں اور اسلامی قاضی ہوں گے، تو جامعۃ المنتظر کے اساتذہ اور علماء کرام نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ ہمارے پاس بھی قاضی ہونے چاہیں، تو مدرسہ آیت اللہ الحکیم کی طرف سے کلیۃ القضاء کی پہلی کلاس میں مجھے جانے کا موقع ملا اور باقاعدہ میں نے قضاوت کا وہ کورس کیا۔ اس کے بعد میں تعلیم حاصل کرنے حوزہ علمیہ قم چلا گیا، اپنی بساط کے مطابق علم حاصل کیا اور واپس آکر فیصل آباد میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ 1993ء سے اب تک فیصل آباد میں مقیم ہوں، وہاں ایک مسجد میں امام جمعہ کے ساتھ ساتھ تنظیمی ذمہ داریاں بھی انجام دے رہا ہوں اور 1993ء اب تک تنظیم کے کسی نہ کسی عہدے سٹی صدر، ضلعی صدر، صوبائی نائب صدر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز:  پنجاب پاکستان کی 60 فیصد آبادی والا بڑا صوبہ ہے، اس حوالے سے اس صوبے کی ذمہ داری ایک بڑی ذمہ داری ہے، اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے آپ کے پاس کیا لائحہ عمل ہے۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: جی اتنے بڑے صوبے میں ان حالات میں کافی وقفے کے بعد تنظیم کو ازسر نو بحال کیا گیا ہے، یقیناً مشکلات ہیں، لائحہ عمل کے حوالے سے میرے پاس تنظیمی تجربہ ہے، اس سلسلے میں پورے صوبے کا ایک ہنگامی دورہ ہونا چاہیے، تنظیمی سیٹ اپ اور نظم کے ساتھ تنظیم کی ازسرنو بحالی کے بنیادی اصول پر کام کیا جائے۔ یونٹ کی سطح تک ممبر سازی کی جائے، جب یونٹ کی سطح تک ممبر سازی ہو گی اور یونٹ بحال ہوں گے تو خود بخود تنظیم فعال ہو جائے گی۔
 
اس کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے ذیلی شعبے جن میں اسٹوڈنٹس کا ونگ ہے، جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن یا اسلامک ایمپلائز ہے، اس کے علاوہ میں کچھ آگے بڑھنا چاہتا ہوں کہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی ایک باقاعدہ ونگ ہو مثلاً وکلاء کا ہونا چاہیے اسلامک لائرز ،اسی طرح اسلامک ٹیچرز، اسلامک ڈاکٹرز اور خصوصاً میں قائد ملت جعفریہ کی خصوصی رہنمائی اور ان کی ہدایت کی روشنی میں خواتین کے شعبہ کو فعال کرنا چاہتا ہوں، جب تک ہماری خواتین قومی دھارے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گی، اس وقت تک قومیات میں ہمارا نظام ادھورا رہے گا۔

اسلام ٹائمز: حکومت پنجاب دہشتگرد گروپوں کو پناہ دیئے ہوئے ہے اور شیعہ قوم کے ساتھ مخاصمت کا رویہ رکھتی ہے، اس حوالے سے آپ کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: ایسی صورت نہیں ہے کہ پنجاب حکومت سے ہماری کوئی مخاصمت چل رہی ہے، میری نظر میں یہ ایک تاثر ہے جو پیدا ہو گیا ہے۔ پنجاب حکومت پاکستان میں اگر کسی جماعت کو شیعہ قوم کا ترجمان سمجھتی ہے تو وہ شیعہ علماء کونسل ہی ہے، اگر وہ کسی شخصیت کو شیعوں کا لیڈر مانتے ہیں تو وہ قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی صاحب کو ہی تسلیم کرتے ہیں۔ باقی رہا چھوٹی موٹی باتیں، مخاصمت وغیرہ تو ہم اس کو ہر فورم پر پوائنٹ آؤٹ کریں گے۔ چونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے تو ہم اس سلسلے میں اپنے قائد محبوب کی رہنمائی میں معاملات کو چلائیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا ملت جعفریہ نواز لیگ کے ساتھ اتحاد کر سکے گی۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: پاکستانی سیاسی کلچر میں کوئی بھی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی، موقعہ کی مناسبت سے جو فیصلے مناسب سمجھے جاتے ہیں وہی کئے جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ سیٹ اپ میں شیعہ قوم کے لئے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا ایک آسان کام ہے اور اس سلسلے میں کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: یقیناً مشکل کام ہے، لیکن تشیع کو سیاسی دھارے میں اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہیے اور یہی چیزیں قوموں کے زندہ ہونے کی علامت ہوتی ہیں، جس طرح قائد محترم فرما رہے ہیں، ہم سیاسی عمل میں شامل ہوں گے، اب رہی بات کہ کس طرح شامل ہوں، اس سلسلے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے کئی تجاویز آئی ہیں، اس سلسلے میں ان تجاویز اور قائد محترم کی ہدایات کی روشنی میں ہم فیصلہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: اتحاد بین المومنین کی مخدوس صورتحال کے سلسلے میں آپ کیا لائحہ عمل رکھتے ہیں۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: ہمارے قائد محترم، قائد محبوب کا، ہمیشہ سے بحیثیت ایک شفیق اور مہربان باپ پوری قوم پر دست شفقت رہا ہے، قائد محترم نے یا ان کے ورکرز نے کسی کو دور نہیں کیا، ہم ہر مومن، عزادار، کلمہ پڑھنے والے خصوصاً اہل بیت ع کی در پر جبین کو جھکانے والوں کو دعوت دیتے ہیں اور ان کے ساتھ پیش پیش ہوتے ہیں۔ ہم نے کبھی کسی کو دور نہیں کیا۔ ہم ہر وقت ساتھ چلانے کی کوشش کرتے ہیں، البتہ بہت سارے لوگوں اور گرہوں کے ہم سے دور رہنے میں انکے اپنے مفادات مضمر ہوتے ہیں، چونکہ ان کیلئے اپنے وجود کا اظہار کرنا یا کچھ چیزیں حاصل کرنا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب وہ مرکز سے دور ہوں اور الگ سے اپنے وجود کا اظہار کریں، تو ان کی وہ خواہش تب ہی پوری ہو گی۔
اسلام ٹائمز: قائد شہید نے جب قوم کا شیرازہ بکھرتے دیکھا تو ایک خالی کاغذ علامہ سید حامد موسوی کو بھیجا کہ شرائط آپ لکھیں، میں آپ کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہوں، یعنی صرف اس لئے کہ قوم اکٹھی ہو جائے، اس وقت کیا کسی کے پاس ایسا لائحہ عمل موجود ہے۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: آل پاکستان شیعہ علماء کانفرنس اس بات کی دلیل ہے کہ قائد ملت جعفریہ نے تمام طبقات کو دعوت دی ہے اور یہی بہترین طریقہ ہے کہ پوری قوم اپنے قومی پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جائے، اس قومی پلیٹ فارم کو مضبوط کیا جائے، اسی میں تشیع کی قوت اور اسی میں تشیع کی عزت ہے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ علماء کونسل کی جنرل کونسل کے حالیہ اجلاس میں جو دستوری ترامیم عمل میں لائی گئیں ہیں وہ کیا ہیں۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: اب میرے سامنے وہ ترامیم تو نہیں ہیں، لیکن چند ایک ترامیم جو ہوئیں ہیں ان میں کچھ تو تنظیمی ڈھانچے کے متعلق تھیں، مدت یا tenure کا تعین کیا گیا ہے، اسی طرح انتخابات کا طریقہ کار کیا ہو گا، یہ چند ترامیم کی گئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: رہبر معظم کی بھی خواہش ہے کہ تشیع پاکستان اتحاد و اتفاق سے رہیں اور سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے بھی اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ہم پاکستان میں اتنی کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں، تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ شیعہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں، اس میں کیا عوامل مانع ہیں۔؟
علامہ مظہر عباس علوی: لائحہ عمل یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک قومی جماعت اور قومی قیادت موجود ہے، یہ کوئی عقلمندی نہیں ہے کہ اتنا مضبوط پلیٹ فارم، اتنی محترم اور بابصیرت قیادت جو پورے عالم اسلام میں تشیع کے وقار کی دلیل اور علامت ہے، کو چھوڑ دیا جائے۔ آپ نے شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی بات کی، تو ابھی شہید کا بھی ابتدائی دور تھا اور حامد علی موسوی صاحب بھی اپنے آپ کو قائد کے طور پر متعارف کرا رہے تھے، تو اس وقت کے حالات کا تقاضا یہی تھا کہ آغا شہید یہی طریقہ اختیار کریں کہ ٹھیک ہے کہ آپ آجائیں اگر قوم کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں، لیکن آج کے دور میں قومی قیادت کا کسی سے موازنہ کریں گے تو قومی قیادت ختم ہو جائے گی۔   
خبر کا کوڈ : 163848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام، گفتگو بہترین تھی لیکن بیچ میں سی کئ جگہ پوری لائین ھی حذف تھی
ہماری پیشکش