0
Saturday 14 Jul 2012 22:23

والد ہر نماز میں شہادت کی تمنا کرتے تھے، انکی بہادری پر ہمیں فخر ہے، فرزند علامہ حسن ترابی

والد ہر نماز میں شہادت کی تمنا کرتے تھے، انکی بہادری پر ہمیں فخر ہے، فرزند علامہ حسن ترابی

اسلامی تحریک پاکستان (شیعہ علماء کونسل) سندھ کے شہید صدر علامہ حسن ترابی اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے، آپ نے اپنی تمام زندگی مسلمانوں کے اتحاد اور پاکستان میں ملت تشیع کی سربلندی کی کوششوں میں صرف کی، آپ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی قیادت میں ملت کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے رہے اور ان کی شہادت کے بعد علامہ سید ساجد علی نقوی کے ہمراہ جدوجہد میں شریک رہے، اسی وجہ سے علامہ ساجد نقوی نے آپ کو اپنا بازو قرار دیا، آپ متحدہ مجلس عمل سندھ کے رہنماء بھی تھے، علامہ حسن ترابی کو 6 سال قبل آج ہی کے روز کراچی میں اسرائیل مخالف احتجاج سے واپسی پر دہشتگردوں نے بھتیجے سمیت خودکش حملہ میں شہید کردیا، تاہم آپ آج بھی ملت تشیع کے دلوں میں زندہ ہیں، شہید حسن ترابی کی برسی کے موقع پر اسلام ٹائمز نے ان کی ناقابل فراموش اور خوبصورت یادوں کو تازہ کرنے کیلئے ان کے فرزند محمد جمال ترابی کیساتھ انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے بحیثیت والد شہید ترابی کو کیسا پایا۔؟
محمد جمال ترابی: وہ ایک اچھے والد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رہنماء، ایک دوست اور اچھے ساتھی تھے، کبھی کوئی غلطی ہوتی تھی تو بڑے پیار سے سمجھاتے تھے، وہ ہمیں ویسے تو بہت کم ٹائم دیا کرتے تھے، ہم ان سے اس بات کا گلہ کرتے تھے تو وہ جواب دیتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی ملت کیلئے وقف کر دی ہے، میرا جینا اور مرنا ملت کیلئے ہے، انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ اگر میں زندہ ہوں تو ملت کیلئے اور اگر میں شہید ہوگیا تو وہ بھی ملت کیلئے ہوں گا۔

اسلام ٹائمز: تحریکی سرگرمیوں کی وجہ سے اہل خانہ کو کم وقت دے پاتے تھے، آپ لوگ اس بات کا گلہ تو شہید سے کرتے ہوں گے۔؟
محمد جمال ترابی: بہت کم وقت دیتے تھے، مجھے یاد ہے کہ ہم سال میں صرف ایک یا دو بار ہی ان کے ساتھ کہیں پکنک پر جا پاتے تھے، انہوں نے ملت کی خدمت کو اپنا فرض سمجھا ہوا تھا، اس کا احساس ہمارے گھر والوں کو بھی تھا، اور اسی وجہ سے ہم ان سے زیادہ گلہ بھی نہیں کرتے تھے، خدا ان کی خدمت کو قبول کرے۔
 
اسلام ٹائمز: شہید کو کیا دہشتگردوں کی جانب سے کبھی کوئی دھمکی ملی تھی۔؟
محمد جمال ترابی: دھمکیاں تو ہر روز ہی ملتی تھیں، کبھی ان کی کار پر فائرنگ، کبھی گھر پر پارسل بم بھیجتے تھے، کبھی ریمورٹ کنٹرول بم تو کبھی خودکش حملے کی دھمکی دی جاتی تھی، جب کبھی ایسی کال آتی تو والد ہمیں کہتے تھے کہ ''دیکھو، یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک چھوڑ جائو، لیکن ان کو پتہ نہیں ہے کہ ترابی نہ ملک چھوڑ کر جائے گا اور نہ اتحاد کی بات کرنی چھوڑے گا۔'' انہیں کئی بار پیسوں کی آفر بھی کی گئی، پرویز مشرف نے بھی کال کرکے پیسے کی پیشکش کی، لیکن والد نے کہا '' ترابی کو تم نہیں خرید سکتے۔'' اور ان کی کال ریسیو کرنے سے انکار کیا۔

اسلام ٹائمز: علامہ حسن ترابی پر اس سے قبل بھی ایک بم حملہ ہوا تھا، کیا حکومت نے اس پر کوئی ایکشن لیا تھا اور کیا انہیں مناسب سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔؟
محمد جمال ترابی: اس وقت کے وزیراعظم نے کوئی مناسب سکیورٹی نہیں دی، جو سکیورٹی پہلے تھی وہی رہی، اور حکومت نے پہلے دھماکے پر کوئی ایکشن بھی نہیں لیا۔

اسلام ٹائمز: جس دن آپ کے والد شہید ہوئے، اس روز شہادت سے پہلے کے وقت بارے میں کچھ بتائیں۔؟
محمد جمال ترابی: اس روز میں ان کے ساتھ تھا، کچھ فون کالز آرہی تھیں، جن پر بات کرنے کے بعد ابو تھوڑا غصے ہو رہے تھے، جب ہم مظاہرے سے واپس آئے تو ابو کو شک ہو رہا تھا اور اس کا ذکر ابو کر بھی چکے تھے، اس لئے ابو نے مجھے اپنے ساتھ اپنی کار میں بٹھا لیا تھا۔

اسلام ٹائمز: شہادت کے بعد اس عظیم صدمے کا آپ، آپ کی والدہ اور دیگر اہلخانہ نے کس طرح مقابلہ کیا۔؟
محمد جمال ترابی: اللہ تعالٰی جب کسی کو کوئی دکھ دیتا ہے تو اس کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے، یہ سب خدا کا کرم تھا کہ اس نے ہمارے والد کو ایک عظیم مقام عطا کیا، ہمارے والد تو اپنی ہر نماز میں دعا کیا کرتے تھے کہ ''اے خدا مجھے بستر پر موت مت دینا، میں شہید ہو کر مرنا چاہتا ہوں''۔ جب ان پر پہلا بم حملہ ہوا تو انہوں نے اپنی کار سے اترتے ہی کہا ''خدا نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ شہادت عطا کرتا''۔ قرآن میں خدا کا فرمان ہے کہ شہید زندہ ہے اور ہمارے ساتھ ہے، لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں۔

اسلام ٹائمز: شہید کے قتل میں کون ملوث ہوسکتا ہے اور آپ لوگوں نے کس پر شک کا اظہار کیا۔؟
محمد جمال ترابی: شہید کے قتل میں بیرونی ہاتھ ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ اندرونی لوگ بھی ملوث ہیں، جن میں سے کچھ کو عمر قید اور موت کی سزاء ہوچکی ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ مسلمان ایک ہوں، جنہوں نے سعودی شاہ فیصل کو شہید کیا، جنہوں نے پاکستان میں مفتی شامزئی کو شہید کیا، اور انہوں نے ہی علامہ حسن ترابی کو شہید کیا، کیونکہ وہ کسی اور کے کہنے پر اس ملک کو چلا رہے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ شیعہ، سنی ملکر رہیں اور پاکستان مسلمانوں کی ریاست بنے۔

اسلام ٹائمز: شہید کیساتھ گزرے وقت کا کوئی یادگار واقعہ جو اسلام ٹائمز کے قارئین کو بتانا چاہیں۔؟
محمد جمال ترابی: واقعات تو بہت ہیں، والد کو شہادت کی تمنا بہت تھی، اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں، شہید ہمیشہ ہمیں کہتے تھے کہ خدا مجھے بستر پر موت نہ دے، اے خدا مجھے موت دینا تو جنگ کے میدان میں دینا، اور مجھے شہادت کی موت دینا، جب ان پر پہلا بم حملہ ہوا اور وہ بچ گئے تو کچھ دوست ان کے پاس مبارکباد دینے آئے تو وہ غمزدہ ہوگئے، دوستوں نے وجہ پوچھی کہ آپ خوش نہیں ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ خدا نے مجھ گناہ گار کو اس قابل نہیں سمجھا کہ شہادت عطا کرے، اور اس کے بعد میرے والد کے دوست ان کے گلے لگ کر رونے لگے، ابو کی ہمت اور بہادری کو دیکھ کر ہمارا سر آج بھی فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملت کو ایک شہید کے فرزند کی حیثیت سے موجودہ حالات کے تناظر میں کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
محمد جمال ترابی: میں یہی پیغام دوں گا کہ اگر کوئی مسلمان شہید ہوتا ہے تو اس کی شہادت کو مسلمانوں کے اتحاد کیلئے استعمال کریں، نہ کہ مسلمانوں میں تفرقہ کیلئے۔ ہم اس کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے، جو کسی بے گناہ انسان کے قتل کو جائز قرار دے۔
(شہید کے فرزند نے گفتگو کا اختتام اس شعر سے کیا)
یزیدیت کے مقابل بنے رہے مختار
سلام کیوں نہ کیا جائے اس حسینی پر
حسن ترابی نے ملت پہ کر دی جاں نثار

خبر کا کوڈ : 179074
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش