2
0
Tuesday 7 Aug 2012 23:31

علامہ صفدر نجفی کی معذرت کے بعد علماء نے نوجوان علامہ عارف الحسینی کا قائد ملت جعفریہ کیلئے انتخاب کیا، آیت اللہ ریاض حسین نجفی

علامہ صفدر نجفی کی معذرت کے بعد علماء نے نوجوان علامہ عارف الحسینی کا قائد ملت جعفریہ کیلئے انتخاب کیا، آیت اللہ ریاض حسین نجفی
پرنسپل جامعتہ المنتظر لاہور آیت اللہ ریاض حسین نجفی 1941ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مدرسہ محمدیہ جلال پور جدید سرگودھا سے تعلیم دین کا آغاز کیا اور حفظ قرآن مجید بھی یہیں سے مکمل کیا۔ وہ وفاق علماء شیعہ پاکستان کے صدر رہ چکے ہیں۔ قومی تنظیموں کی سرپرستی اور درس و تدریس میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے مدارس دینیہ اور شیعہ قومیات کے حوالے سے انٹرویو کیا۔ جس کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: اتحاد بین المسلمین کے لئے ملی یکجہتی کونسل کا احیا کیا گیا ہے۔ اس کے ممکنہ فوائد کیا ہیں۔ اوپر تو قیادت دعوے کرتی ہے لیکن اتحاد کے اثرات نچلی سطح تک کیوں نہیں پہنچتے۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: ملی یکجہتی کونسل پہلے بنی تھی تو اس کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی بنے تھے۔ اور مولانا سمیع الحق صاحب کو اس کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ البتہ بعض لوگوں نے مولانا سمیع الحق سے اس وقت کہا بھی تھا کہ آپ اور ملی یکجہتی کونسل! یہ ماجرا کیا ہے، کیونکہ سپاہ صحابہ وغیرہ انہیں کی مرید ہیں۔ تو کہنے لگے کہ اب اس کے بعد کوئی شکایت نہیں سنیں گے۔ ملی یکجہتی کونسل کا بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ جس قدر وحدت و اتحاد کا فائدہ ہے۔ کسی اور چیز کا نہیں۔

اسی ملی یکجہتی کونسل کی وجہ سے تمام مسالک کی بڑی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل بنی۔ ورنہ تمام علمائے کرام اور مذہبی جماعتیں سب مل کر ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے پہلے قومی اسمبلی میں صرف 14 سیٹیں حاصل کرتی تھیں۔ بھٹو کے سیاست میں آنے کے بعد ان کی سات سیٹیں رہ گیئں۔ لیکن ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کی وجہ سے جب شیعہ سنی مل گئے تو ایسی صورت میں ان کی 68 سیٹیں ہو گئیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ تو بہت زیادہ ہے۔ مسلمانوں میں جتنا وحدت و اتحاد ہوگا اتنا فائدہ مند ہوگا۔

دیکھئے ہم شیعہ اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے ہیں۔ ظاہر ہے جب اہل بیت (ع) کے ماننے والے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کے بعد ہم اہل بیت (ع) کی پیروی کرتے اور ان کے ماننے والے ہیں۔ یقیناً یہ برحق ہیں۔ ان کے حق ہونے میں شک و شبے کی گنجائش نہیں۔ اگر امن ہوگا، اطمینان ہوگا، میل جول ہوگا۔ ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو اپنا مسلک بھی ان کے سامنے پیش کر سکیں گا۔ اہل بیت علیہم السلام کا تذکرہ ہوگا۔ اہل بیت علیہم السلام کا ذکر ہوگا۔ لوگ اچھائی کی طرف مائل ہوں گے، اور جہاں لڑائی جھگڑا ہوگا۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ لڑائی جھگڑا میں سب سے بڑا نقصان ہمارا ہے۔ اسی لئے دوسر ے گروپ یہی چاہتے ہیں کہ سنی شیعہ جھگڑے پر لڑائی جھگڑے جاری رہیں۔ تاکہ شیعت پھیل نہ سکے۔

اس طرح اوپر کی سطح پر اٹھائے گئے، اقدامات کے اثرات نچلی سطح پر بھی آتے ہیں۔ جب تک ملی یکجہتی کونسل نہیں بنی تھی۔ 1982ء کے بعد سے اہل سنت کے مدارس میں ہمارا آنا جانا بند ہوگیا تھا۔ وہ ہمارے ہاں آتے تھے، ہم نہیں جاتے تھے۔ سنی کی مسجد میں جا کر ہم نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ اگر پڑھتے بھی تو کہیں سفر پر جاتے ہوئے پٹرول پمپ کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ لیکن ملی یکجہتی کونسل اور پھر متحدہ مجلس عمل کے قیام کے بعد ان کے مدارس میں آنا جانا ہوا۔ تعلقات پیدا ہوئے۔ اب ہمارے تعلقات تمام مسالک کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ لیکن وحدت و اتحاد ہمارے لئے بہت مفید ہے۔ خود پاکستان کے لئے مفید ہے، ملک تب ترقی کرے گا، جب وحدت ہوگی، امن ہوگا۔ وحدت و اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی جو حالت ہے، ایسی کسی دوسرے ملک کی تو نہیں ہوتی۔ 

اسلام ٹائمز: ملت جعفریہ کی سیاسی صورت حال کیس نظر آ رہی ہے۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: اصل میں ملت جعفریہ کے لیڈر حضرات نے سیاست کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ تحریک جعفریہ نے کسی زمانے میں سیاسی پلیٹ فارم بننے کی کوشش کی تھی، لیکن بقول حجتہ الاسلام و المسلمین شیخ محسن علی نجفی کہ ہم سیاسی بنتے ہیں، صرف آدھ گھنٹے کے لئے، یعنی عام انتخابات کا اعلان ہو جاتا ہے۔ سپریم کونسل کی میٹنگ بلائی جاتی ہے۔ اس میں باقی تمام چیزوں پر بحث کرنے کے بعد سیاست کی بحث ہوتی ہے اور اس میں یہ ہوتا ہے کہ فلاں پارٹی کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔ دراصل پوری طرح سیاست کی طرف توجہ ہی نہیں کی گئی۔ ورنہ جہاں تک ملت جعفریہ کا تعلق ہے۔ کافی جگہیں ایسی ہیں کہ جہاں ہمارے نامزد امیدوار منتخب ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ لوگ آپس میں متحد ہوں تو ایسی تعداد 16/17 ہے۔ جہاں باضابطہ طور ہم منتخب ہوسکتے ہیں۔ 35/36 نشستیں ایسی ہیں کہ جہاں ہم دوسرے مسالک کے تعاون سے منتخب ہوسکتے ہیں۔

اگر اس قوم میں وحدت پیدا ہو جائے تو کوئی جماعت اس وقت تک نہیں جیت سکتی جب تک کہ ہم ساتھ نہ دیں۔ جیسے جب تحریک جعفریہ نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا تو جیت گئے۔ جب انہوں نے نواز شریف کا ساتھ دیا تو دو تہائی اکثریت اس نے حاصل کرلی تھی۔ اس لئے واضح ہے کہ ہم پاکستان میں بڑی قوت اور طاقت ہیں۔ صرف وحدت و اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگر وحدت و اتحاد پیدا ہو جائے تو صرف شیعوں میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں اتحاد ہو، اور یہ تو طے ہے کہ یہ صدی مسلمانوں کی صدی ہے۔ چاہے انہیں رگڑا جائے، مارا پیٹا جائے اور یہی حال شیعت کا ہے۔ شیعت میں اتحاد و وحدت پیدا ہوگا۔ 

اسلام ٹائمز: شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی ہے۔ آپ ان کے ساتھی رہے ہیں، بتائیں گے کہ انہوں نے کن حالات میں قیادت سنبھالی۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: بات دراصل یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کا جب شور و غوغا شروع ہوا،  تو اس وقت توجہ یہاں پاکستان میں ہوئی کہ ہمیں بھی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں 1978ء میں وفاق علما شیعہ پاکستان قائم ہوا۔ اور 1979ء میں بھکر میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (تحریک جعفریہ) قائم ہوئی۔ تو سب سے پہلے پہلے قائد علامہ مفتی جعفر حسین صاحب کو بنایا گیا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ کسی بھی عنوان سے متنازع نہیں تھے۔ نہ نظریات کے لحاظ سے، نہ خطابات کے لحاظ سے۔ بیبے آدمی تھے۔ اعلٰی شخصیت تھی۔ وہ قبلہ مولانا محمد یار شاہ قبلہ کے کلاس فیلو تھے۔ دونوں اکٹھے نجف اشرف میں پڑھتے رہے ہیں۔ اکٹھے وہاں سے پڑھ کر آئے، مولانا صاحب نے جلال پور جدید سرگودھا سے بارہ میل دور مدرسہ کھولا۔ مفتی صاحب نے بھی مدرسہ چلانے کی کوشش کی مگر چلا نہیں۔ 

مفتی صاحب بہت اعلٰی شخصیت کے مالک اور پڑھے لکھے تھے۔ تو انہیں طے کیا گیا۔ اس میں بہت کام مولانا صفدر حسین نجفی قبلہ نے کیا۔ یہاں گوجرانوالہ میں نوجوانوں کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس کے بعد سرگودھا میں اجلاس ہوا۔ اس کو بھی کور کر لیا گیا۔ جس میں پہلی دفعہ تحریک (نفاذ فقہ) جعفریہ کا نام آیا۔ تو اس کے بعد یہ نمایاں بھی ہوئے اور یہ قائد بن گئے۔

اب ان کے بعد قوم کی پوری توجہ قبلہ مولانا صفدر حسین نجفی قبلہ کی طرف تھی۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سینیئر نائب صدر بھی تھے۔ مگر وہ آگے نہیں آنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے طے کر لیا ہے کہ میں نے مدارس کے لئے کام کرنا ہے۔ دیکھئے پاکستان میں آپ نے نہیں دیکھا ہوگا کہ جس نے اپنے مدرسے کے ساتھ ساتھ اور 32 مدارس بنائے ہوں۔ بلکہ ایک مدرسہ ایران میں بنایا ہے۔ ایک مانچسٹر میں بنایا ہے۔ ایک امریکہ میں بنایا ہے۔ تو کہنے لگے میں یہ قبول نہیں کرسکتا، بلکہ حضرت آیت اللہ طاہری یہاں آئے ہوئے تھے۔ وہ خود چل کر ان کے گھر آئے، جہاں یہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ تو کہنے لگے کہ آپ تحریک کی قیادت قبول کریں۔ تو مولانا صفدر نجفی نے فرمایا کہ میں تو طے کر چکا ہوں کہ میں مدارس کے لئے کام کروں گا۔ آپ کے حکم کا انکار نہیں کرسکتا، آپ استخارہ کر لیں۔ تو میرے خیال میں استخارہ ان کا نہیں آیا، چونکہ دوبارہ انہوں نے رجوع نہیں کیا۔

اب اس صورتحال میں بھکر میں جب میٹنگ ہوئی، تو سب کی توجہ کا مرکز مولانا صفدر حسین نجفی صاحب تھے۔ سپریم کونسل اور مشاورتی کونسل جب بیٹھی تو سب نے طے کیا کہ مولانا صفدر حسین نجفی صاحب قائد ہوں گے، لیکن انہوں نے کہا کہ میں تو یہ کام نہیں کرسکتا۔ مجھ سے کام نہیں ہوتا۔ انکار کے بعد سوچا گیا کہ چلو یہ سرپرستی کریں اور کوئی جوان آدمی قیادت کے منصب پر آجائے۔ مولانا شہید سید عارف حسین الحسینی کی شخصیت جاذب تھی، جوان آدمی تھے، نجف اشرف میں آئے تو ان کی مونچھیں بھی نہیں آئی تھیں۔ تو وہاں بھی متحرک رہے۔ جب میٹنگز ہوئی تھیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں جب کنونشن ہوا تھا۔ اس میں ان کا کردار بہت اچھا اور نمایاں تھا۔ یعنی جوان آدمی پہلی دفعہ ظاہر ہوا۔ سامنے نکلا کہ کنونشن ہونا چاہیے ہمیں جلوس نکالنا چاہیے۔
 
کچھ علاقے کے لوگ ایسے تھے کہ کہتے تھے کہ اگر گولی چل گئی تو کیا ہوگا۔ کون ذمے داری لے گا۔ لیکن شہید عارف الحسینی شد و مد سے کہتے رہے اور علماء کی نظر میں نمایاں ہوگئے۔ کسی کا پتہ تو نہیں ہوتا کہ کس ذہن کا ہے۔ تو بھکر کنونشن میں آواز آئی کیوں نہ علامہ عارف الحسینی کو قائد بنا دیا جائے۔ پھر قصر زینب میں ہم پانچ چھ آدمی بیٹھے تھے۔ مولانا جواد ہادی بھی ساتھ تھے۔ مولانا شیخ علی مدد مرحوم تھے۔ مولانا صفدر حسین مرحوم تھے، میں تھا، مولانا کرامت علی شاہ صاحب، وزارت حسین نقوی صاحب بھی تھے۔ بات چیت ہوئی۔
 
پہلے علامہ عارف الحسینی سے بات چیت ہوئی کہ آپ قیادت قبول کریں، وہ قبول نہیں کر رہے تھے۔ ہم نے کہا کہ اگر تو قبول نہیں کرتے تو آپ نائب بن جائیں۔ لیکن شیخ علی مدد نے کہا کہ نیابت وغیرہ نہیں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ قیادت مکمل قبول کریں۔ تو وہاں پانچ چھ آدمیوں نے مشورہ کیا، انہین قائل کیا اور یقین دہانی کروائی کہ ہم آپ کی حمایت کریں گے، تو پھر یہ اس وقت قائد بن گئے۔ اور یہ خیال ہمارا تھا کہ یہ آدمی کام کرسکتا ہے۔ اعتماد پیدا ہونا شروع ہوا۔ اس کنونشن سے۔ انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا۔ انہوں نے پورے ملک کو اکٹھا کیا۔ ذاکرین، خطباء اور واعظین جیسے مفتی جعفر حسین کے زمانے میں اکٹھے ہوئے، ان کے زمانے میں بھی اکٹھے ہوگئے تھے۔ تو انہوں نے بہترین کام کیا۔ 

اسلام ٹائمز: ایک طبقے کا خیال ہے کہ شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد قومی تحرک وہ نہیں، جو ان کے دور میں تھا۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: قائد ملت جعفریہ کی شہادت کے اثرات اپنی جگہ پر ہوئے، لیکن قوم میں ایسا نہیں کہ تحرک نہیں رہا تھا۔ علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے فوراً بعد میرے خیال میں آٹھ دس دن میں علامہ ساجد علی نقوی کو ذی الحج کے آخری عشرہ میں قائد بنا دیا گیا تھا۔ جو پہلے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سینئر نائب صدر تھے۔ انہوں نے بھی پھر ملک گیر دورے کئے۔ جگہ جگہ گئے۔ تحرک ختم اس وقت ہوا جب تحریک جعفریہ پر پابندی لگا دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دوران ان کی پارٹی کو کالعدم قرار دیا گیا۔ ایک دو دن نہیں آٹھ دس سال سے کام کرنے پر پابندی ہو تو خاموشی تو چھا جاتی ہے۔ ورنہ جب تک یہ کام کرتے رہے ہیں۔ 

اسی طرح علامہ عارف حسین الحسینی کی طرح علامہ ساجد علی نقوی نے پورے ملک کے دورے کئے۔ ہر جگہ گئے کوئی چھوٹی بڑی جگہ نہیں، جہاں قائد ملت جعفریہ نہ گئے ہوں۔ ایک کراچی میں ہم اکٹھے تھے۔ وہاں بعض لوگوں نے علامہ ساجد علی نقوی کو مشورہ دیا کہ آپ اتنے سفر نہ کریں۔ آپ صرف وہاں جائیں جہاں ائر پورٹ ہوں۔ کسی اور جگہ نہ جائیں۔ یہ لوگ آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ میں اسی جگہ کھانا کھا رہا تھا تو مجھ سے انہوں نے پوچھا میں نے جواب نہیں دیا، قائد محترم نے پھر مجھ سے پوچھا تو میں کہا کہ سب سے بڑی صفت آپ کی تو یہ ہے کہ آپ ہر جگہ پہنچتے ہیں۔ پھر ہر جگہ نہ پہنچیں تو کوئی ڈانگ سوٹا تو نہیں اٹھانا۔ ہر جگہ پہنچنا یہ بہت بڑی بات ہے۔ ائیر پورٹ تو ہر جگہ نہیں، جہاں پہنچا جائے۔ تو جب تک پابندی نہیں لگی اس وقت تک بڑے تحرک سے کام ہوتا رہا۔ 

اسلام ٹائمز: شیعہ علماء کونسل اور مجلس وحدت مسلمین، آئی ایس او اور جے ایس او متوازی تنظیمیں بن چکی ہیں، اس کا فائدہ ہوگا یا نقصان۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: اصل میں جب تنظیموں میں اختلافات ہوتے ہیں، تو ایک تنظیم سے دوسری تنظیم نکلتی ہے۔ پھر کوئی نہ کوئی نئے آدمی آجاتے ہیں تو وہ اپنا برنامہ کہیں سے لے آتے ہیں۔ تو یہ معاملہ چلتا رہتا ہے۔ اصل میں یہ تنظیمیں مفید بھی ہوتی ہیں اور نقصان دہ بھی ہوسکتی ہیں۔ اگر ایک مقصد کو ساتھ لے کر چلیں، آپس میں نہ لڑیں۔ ایک دوسرے کی کھینچا تانی نہ کریں تو مفید ہیں۔ ایک تنظیم ایک کام کر رہی ہے۔ ایک علاقے میں وہ ایک تنظیم ہے تو دوسرے کوئی اور علاقے میں یا کسی اور موضوع اور مسئلے پر جیسے امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے زمانے میں علماء کی ایک ہی جماعت ہوتی تھی۔ جب علماء کی ایک اور تنظیم بنی تہران میں تو کچھ علماء کرام نے کہا کہ یہ تو بری بات ہے۔ تو امام نے کہا کہ جماعت بنانے میں حرج نہیں، اگر مقصد ایک ہو کہ آپ بھی کام کرتے رہیں وہ بھی کام کرتے رہیں۔ مسابقت ہو تو فائدہ ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ لڑیں تو مفید ہے۔ اور اگر لڑیں گے تو یقیناً نقصان دہ ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ان جماعتوں میں اتحاد ممکن ہے۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: جی! اتحاد یقیناً ممکن ہے، اس وقت حقیقتاً دیکھا جائے تو کوئی بہت بڑی لڑائی نہیں، یعنی یہ نہیں کہ جلسہ کوئی ہو رہا ہو۔ دھواں دھار تقریریں کرکے ایک دوسرے کو رگڑا پلایا جائے، ایسا نہیں ہے۔ تھوڑا بہت تو ہوتا رہتا ہے جیسے لطیف اشارے تو کر دیتے ہیں۔ یہ علامت ہے سیز فائر کی۔ جس قوم میں سیز فائر ہو، وہاں اتحاد بڑے آرام سے ہوسکتا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: حجتہ الاسلام و المسلمین آغا سید علی الموسوی وفات پاگئے ہیں۔ ان کی شخصیت اور خدمت دین کے حوالے سے ہمارے قارئین کو آگاہ فرمائیں۔؟
آیت اللہ ریاض حسین نجفی: آغا علی موسوی اعلٰی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے والد گرامی آغا حسن الموسوی بلتستان سے لاہور آئے اور چاہتے تھے کہ وہ زیارات کے لئے جائیں۔ اس زمانے میں زیارات پر اگر کوئی جانا چاہتا تو پہلے پاسپورٹ بنوانا پڑتا تھا۔ وہ بھی لاہور میں بنتا تھا۔ پھر اس کے بعد ویزے کی ضرورت ہوتی تھی۔ عراق کا ویزہ صرف کراچی میں لگتا تھا۔ اس وقت ہر جگہ سہولت نہیں تھی، تو اس زمانے میں ایسا آدمی جو زیارات کے لئے جانا چاہتا اسے کم از کم چھ مہینے لگ جاتے تھے۔ کوئی تیزی نہیں تھی، اس وقت نہ کوئی موبائل نہ ٹیلی فون نہ ای میل کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔
 
آغا حسن موسوی آئے تو مسجد نواب صاحب میں کافی کمرے بنے ہوئے ہیں۔ جہاں زیارات کے لئے آنے والے لوگ رہائش رکھتے تھے۔ وہاں انہوں نے رہائش رکھ لی، بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ بھی زیارات کے لئے ان کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ تو جب سفری کاغذات تیار ہوگئے اور ان کا خیال بنا کہ چند دنوں تک میں جانے والا ہوں۔ ایک اتفاق ایسا ہوا کہ موچی دروازہ میں محلہ شیعیاں میں چھوٹی سی مسجد شیعہ کشمیریاں تھی۔ اس کے اور حسینیہ ہال کے درمیان دو مکانات کو شامل کر کے یہ بڑی مسجد بعد میں بنی ہے۔

1953ء میں ہوا کچھ یوں کہ کچھ دوست احباب ہمارے کشمیری بھائی آئے ہوئے تھے۔ آغا حسن بلتستانی وہاں مسجد میں گئے تو 20/25 آدمی نماز پڑھ رہے تھے۔ جگہ بھی کم تھی تو انہوں نے کہا کہ آپ کے ہاں پیش نماز نہیں ہوتے۔ تو وہ جواب دینے لگے کہ ہمارے ہاں ہر آدمی نماز نہیں پڑھا سکتا۔ اس کے لئے تقویٰ ضروری ہے۔ تو انہوں نے نمازیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگے تو کیا یہ سب بدمعاش ہیں؟ جو نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ کلمہ ان کو ایسا لگا کہ اسی وقت یہ لوگ بیٹھ گئے۔ انہوں نے میٹنگ کی کہ پیش نماز ہونا چاہیے۔ 

کوئی ساڑھے بارہ بجے رات کے دروازہ کٹھکھٹایا۔ جہاں آغا حسن موسوی رہ رہے تھے۔ چونکہ اس زمانے میں بھی چوری ڈاکے سب کچھ ہوتا تھا۔ وہ ڈر گئے کہ یہ مجھے لوٹنے کے لئے آئے ہیں، کیونکہ میرے پاس پیسہ موجود ہے کہ میں زیارات کے لئے جا رہا ہوں۔ خیر آنے والوں نے حضرت عباس علمدار علیہ السلام کی قسم کھائی تو تب آغا حسن نیچے آئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ مہربانی فرمائیں ہمیں نماز پڑھائیں۔ آغا حسن نے کہا کہ میں تو زیارات کے لئے جا رہا ہوں۔ انہوں نے پھر منت سماجت کی۔ سید آل رسول تھا مان گیا کہ میں زیارت کو چند ماہ لیٹ کر لیتا ہوں تو آپ کو نماز پڑھانا شروع کر دیتا ہوں۔
 
یہ پہلی باجماعت نماز لاہور میں شروع ہوئی۔ ورنہ علامہ حائری مرحوم جو 1941ء میں فوت ہوئے تھے۔ ان کے بعد سے باجماعت نماز ختم ہوگئی تھی۔ لاہور میں نماز باجماعت نہیں ہوتی تھی۔ وسن پورہ جو لاہور سے باہر تھا۔ یہاں علامہ حائری کا گھر جامعتہ المنتظر کے لئے خریدا تھا تو اس کے ارد گرد جو کھیت تھے ان میں تمباکو لگا ہوا تھا۔ گوبھی لگی ہوئی تھی، شتالا تھا یا پھر برسیم تھا۔ اور کوئی آبادی ارد گرد نہیں تھی، بالکل خالی تھا، شاد باغ بھی اس زمانے میں نیا نیا بن رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ نماز نہیں ہو رہی تھی، تو یہاں نماز کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ 

اس وقت آغا علی الموسوی صاحب نجف اشرف میں پڑھ رہے تھے۔ بعد میں یہ کوئی 1962ء کے لگ بھگ لاہور میں آئے۔ نماز تو آغا حسن بلتستانی صاحب خود پڑھاتے تھے۔ لیکن انہوں نے ساتھ ہی دعاوں، تربیتی اور اصلاحی دروس دینے کا کام شروع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آغا علی بہت ساری چیزوں کے موجد ہیں، یعنی یہ جو ماہ رمضان المبارک میں 19، 21 اور 23 کو شب ہائے قدر کے اعمال کرتے ہیں۔ ان میں چھ دن کی قضا نمازیں پڑھنا، یہ ایجاد آغا علی الموسوی کی ہے۔ یہ دعائیں جس طریقے سے پڑھتے ہیں یہ انہیں کی ایجاد ہے۔ دعائے کمیل باقاعدہ مصائب کے ساتھ پڑھنا، یہ انہوں نے شروع کیا۔
 
انہوں نے لوگوں کی تربیت کی ہے۔ وہ لوگ جو نماز ہی نہیں پڑھتے تھے۔ اتنی بڑی کاوش سے عبادت کر رہے ہیں۔ تہجد گذار بن چکے ہیں تو یہ آغا علی کی محنت ہے۔ انہوں نے بہت زیادہ خدمت دین کی ہے۔ اپنے والد کی زندگی میں بھی، اور ان کے بعد بھی۔ اب ان کے بیٹے خدمت دین کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 185524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Spain
v nice
agr qibla hafiz riyaz najfi sb aur digar mulk bhar k bazurg aur milat ka dard rakhnay walay ulma-e-karam mil kr khaloos k sath sb shia tanzeemon ma wahdat ki amli koshish krain tu yh koi bara masla ni ha jis tarah khud hafiz sb qibla khud farma bhi rahay hn k ithaad mumkin ha......
ہماری پیشکش