0
Tuesday 21 Aug 2012 14:34

سانحہ بابوسر سول اور ملٹری انتظامیہ کی ناکامی کا شاخسانہ ہے، منظور پروانہ

سانحہ بابوسر سول اور ملٹری انتظامیہ کی ناکامی کا شاخسانہ ہے، منظور پروانہ
منظور پروانہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ تاہم ان کی پہچان گلگت بلتستان کے قوم پرست سیاسی رہنما کی حیثیت سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی و سماجی گرمیوں کا آغاز اس وقت کیا آپ جب اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ نویں جماعت میں بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی ممبر شپ اختیار کی۔ 1999ء میں BSF کے مرکزی صدر کی ذمہ داری سنبھالی۔ 2006ء میں گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے چئیرمین منتخب ہوئے۔ 2009ء میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبر کے لئے اسکردو حلقہ 4 سے الیکشن میں حصہ لیا۔ 2010ء میں گلگت بلتستان کی حکومت نے انہیں بغاوت کے مقدمہ میں جیل بھیج دیا۔ آپ صحافی، تجزیہ نگار، مقرر اور شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی مقبولیت کی بنیادی وجہ ان کی گلگت بلتستان کو ایک آزاد ریاست بنانے کا نظریہ ہے۔ آپ مشہور زمانہ میگزین کرگل انٹرنیشنل کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے آپ سے ایک انٹرویو کیا ہے، جو محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے آپ گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے مقاصد کے بارے میں ہمارے قارئین کو آگاہ فرمائیں؟
منظور پروانہ: گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کی بنیاد 5 مئی 2004ء کو اسکردو میں رکھی گئی۔ یہ بلتستان کی سرزمین پر قیام عمل میں آنیوالی پہلی ’’ قومی سیاسی جماعت ‘‘ ہے۔ گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے قیام کا مقصد گلگت اور بلتستان کے عوام کو علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصبات سے نکال کر ایک متحد قوم بنانا ہے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام ایک آزاد اور خودمختار قوم بن کر دنیا کے سامنے ابھر سکیں۔ گلگت بلتستان کی عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں کو گلگت بلتستان کی قومی جماعت اور ان تنظیموں کے کارکنوں کو قوم پرست کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ GBUM ایک قوم پرست سیاسی تنظیم ہے۔

GBUM کا نقطہ نظر یہ ہے کہ گلگت بلتستان تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے ایک آزاد اور خودمختار ملک کے معیار پر اترتا ہے اور یہاں کے قدرتی وسائل اس خطے کو ایک آزاد ریاست کے طور پر چلانے کے لئے کافی ہیں۔ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی ملک میں شامل نہیں ہے۔ لہذا یہاں کے عوام کو حق خودارادیت ملنا چاہیئے تاکہ یہاں کے باسی ایک باوقار قوم کی حیثیت سے ایک آزاد ریاست میں آزادی کی زندگی گزار سکیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کی تنظیم اسلامی تحریکوں کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟
منظور پروانہ: GBUM دنیا کی ہر حریت پسند تحریک کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان کی حمایت کرتی ہے بشرطیکہ اس میں جبر و تشدد اور دہشت گردی کا عنصر موجود نہ ہو۔ ہم ان نام نہاد اسلامی تحریکوں کے سخت خلاف ہیں جو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ سوچ کی حامل ہوں۔ ہماری تحریک ایک قومی تحریک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں پائیدار امن کے لئے گلگت بلتستان میں قومیت کے تصور کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان میں بسنے والے ایک قوم ہیں ان کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مفادات ایک ہیں۔ ان کا جینا مرنا گلگت بلتستان سے وابستہ ہے، اگر گلگت بلتستان میں قومیت کے تصور کو پڑوان چڑھایا گیا تو مذہبی منافرت کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کو اپنے مقاصد میں کامیابی نظر آرہی ہے؟
منظور پروانہ: گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ اپنے اہداف سے قریب تر ہوتی جارہی ہے، یہ تنظیم ابھی اپنے ارتقائی مراحل میں ہے، پہلے مرحلے میں زیادہ تر کام لوگوں میں اپنے حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے جو کہ انتہائی حد تک پورا ہو چکا ہے۔ دوسرا مرحلہ لوگوں کے دلوں سے خوف نکالنا ہے اور انہیں ایک منظم تحریک کے لئے تیار کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں انتخابی سیاست کے ذریعے لوگوں میں گراس روٹ تک جانا ہے۔ یہ تجربہ بھی کامیابی سے قریب تر ہوچکا ہے۔ گلگت بلتستان جغرافیائی اہمیت کا حامل ایک متنازعہ خطہ ہے، اس لئے عالمی برادری کو اس خطے کی صورتحال اور مسائل سے آگاہ کرنا اور انہیں قائل کرنا ہے ایک اہم مرحلہ ہے۔ اس کے لئے بھی GBUM کوشاں ہیں۔ GBUM کی کوششوں سے آج گلگت بلتستان کا ہر شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اور یہ خطہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں اور نہ ہی آئینی صوبہ ہے۔ یہیں سے گلگت بلتستان کی اپنی آزاد حیثیت اور یہاں کے لوگوں کی حق خودارادیت کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ لوگوں میں اپنی آزاد ریاست کی ضرورت کا احساس بیدار ہورہا ہے جو کہ ہماری تنظیم کا بنیادی ہدف ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں گلگت بلتستان کے حالیہ سانحات کا ذمہ دار کون ہے؟
منظور پروانہ: سانحہ کوہستان، سانحہ چلاس، سانحہ گلگت، سانحہ مناور اور سانحہ بابوسر حکومت پاکستان اور گلگت بلتستان کے جعلی صوبے کے وزیراعلیٰ، سول اور ملٹری انتظامیہ کی ناکامی کا شاخسانہ ہے۔ اپنی ناکامی چھپانے کے لئے حکومت ان واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہے۔ اگر یہ فرقہ وارانہ ہے تو چلاس کے مقامی لوگوں نے اسکردو کے سینکڑوں شیعہ مسافروں کی جان کیسے بچائی اور اسکردو کے لوگوں نے اہل سنت کے لوگوں کو تحفظ کیسے دیا۔ گلگت میں اہل سنت و الجماعت کی ریلی پر گرنیڈ حملے کے چند منٹ کے اندر چلاس میں مشتعل افراد کی شاہراہ قراقرم پر موجودگی اور مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کا عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں واقعات ایک سوچ اور ایک سازش کا حصہ ہے۔ جس کے پیچھے سرکاری ایجنسیوں کی موجودگی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

شاہراہ قراقرم پر مسافروں کی نسل کشی اور گلگت بلتستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی بنیادی وجہ ناانصافی، احساس محرومی اور حکومتی سطح پر زیادتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سکیوریٹی اداروں کی ناکامی کا نتیجہ بھی ہے۔ سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ دہشت گرد سکیوریٹی فورسز اور ایجنسیوں کے سامنے بے گناہ لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں لیکن سرکاری ایجنسیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ شاہراہ قراقرم پر دہشت گردوں کا راج ہے حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ گلگت بلتستان کو دوسرے ہمسایہ ملکوں سے ملانے والے راستوں کی مسلسل بندش سے خطے میں معاشی بدحالی نے ڈیرے جما لئے ہیں۔ آئینی پیکج کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیا گیا ہے، فرقہ واریت کے نام پر پرامن لوگوں کو آپس میں لڑا کر سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے موجودہ سیٹ اپ کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان ہزاروں سال پہلے سے کرہ ارض پر اپنی تاریخِ تہذیب و تمدن، رسم و رواج، زبان اور ثقافت کے ساتھ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا حامل رہا ہے۔ 1947ء میں یہاں کے لوگوں نے ڈوگروں کے 100 سالہ جابرانہ تسلط سے آزادی حاصل کرکے ایک آزاد ریاست جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی تھی۔ 16 نومبر 1947ء کو اس نوزائیدہ جمہوریہ پر شب خون مارا گیا۔ 28 اپریل 1948ء کو حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار ابراہیم اور مسلم کانفرنس کے سربراہ چوہدری غلام عباس سے ساز باز کرکے ’’ معاہدہ کراچی ‘‘ کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کے انتظامی معاملات پر رسائی حاصل کی اور گلگت بلتستان کی عوام کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال دیا جو 65 سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کا مقدر بنا ہوا ہے۔

امپاورمنٹ اینڈ سلف گورنینس آرڈیننس 2009ء ایک ڈرامہ،ٖ فراڈ اور دھوکہ ہے۔ گلگت بلتستان کی عوام اسے ’’ غلام ساز آرڈیننس ‘‘ سے تشبیہ دیتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدامات بذات خود پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں اور نہ ہی وفاقی کابینہ کے اراکین گلگت بلتستان کے عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور گلگت بلتستان وفاقی کابینہ کے JURISDICTION میں نہیں آتا۔ لہٰذا یہ آرڈیننس غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہونے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی عوام کی خواہشات کے منافی ہے۔ یہ آرڈیننس اقوام متحدہ کی UNCIP کی قراردادوں کی خلاف ورزی کے مترادف بھی ہے۔ UNCIP کی قراردادوں کے مطابق حکومت پاکستان، گلگت بلتستان میں ’’ لوکل اتھارٹی حکومت ‘‘ کے قیام کی پابند ہے۔ لیکن یہ نام نہاد صوبائی طرز کی حکومت لوکل اتھارٹی حکومت کا نعم البدل نہیں اور پیکج میں اندرونی خودمختاری کا ذکر صرف اور صرف بین الااقوامی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ آرڈیننس حکومت پاکستان پر موجود غیر محسوس بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے، جو وہاں کے لوگوں کی طرف سے چلانے والے آزادی اور خود مختاری کی تحریک کو DEFUSE کرنے کے لئے DESIGN کیا گیا ہے۔ 2009ء میں متعارف کرائے گئے صوبائی طرز کے سیٹ اپ نے گلگت بلتستان کی سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی صورت حال کو مزید ابتر کیا ہے یہ صدارتی آرڈر لوگوں کی محرومیوں میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانی، دہشت گردی، علاقائی و مذہبی منافرت اور لسانی تعصبات کو فروغ ملا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ عوام عدم تحفظ کا شکار ہے، بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، معاشرتی ناانصافی حد سے بڑھ گئی ہے، سیکوریٹی ادارے اور سرکاری ایجنسیاں مادر پدر آزاد ہو گئیں ہیںِ، گلگت بلتستان میں صوبائی طرز کی حکومت کے نام پر جنگل کا قانون نافذ ہے، عوامی نمائندے اور بیوروکریسی سرکاری فنڈز پر عیاشیاں کر رہے ہیں اور ایک استحصالی طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کا معاشرہ زوال پذیر ہے۔

آزادی اظہار پر مکمل پابندی ہے، گلگت بلتستان کی مقامی سیاسی جماعتوں پر جلسے جلوس نکالنے کی پابندی ہے، اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھانا جرم سمجھا جاتا ہے اور انسانی حقوق پر بات کرنے کو بغاوت تصور کیا جاتا ہے۔ جو قوم مسئلہ کشمیر کی سولی پر لٹکی ہوئی ہو ان کی آزادی اور خودمختاری کا کیس عالمی عدالتوں میں ہو، اس قوم کو صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑنا انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ لوگوں کو اپنے ساتھ ہونے والے مذاق کا ادراک ہونا چائیے۔

اسلام ٹائمز: دنیا کی حریت پسند تحریکوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
منظورپروانہ: اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور اسلام بذات خود ایک حریت پسند دین ہے۔ دنیا کے انسانوں کو اپنے گھر، محلے اور زمین پر اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہے۔ جو قوتیں لوگوں سے ان کی آزادی کا حق چھینتی ہیں وہ ظالم و غاصب ہیں۔ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے دنیا کے حریت پسندوں سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کو مربوط اور منظم کریں اور بین الاقوامی سطح پر ایک اتحاد بنائیں۔ اس اتحاد سے دنیا کی حریت پسند تحریکوں کے درمیان ایک ربط پیدا ہوگا اور غاصبوں پر دباؤ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ حریت پسندوں کی تحریک چاہے اسلامی ہو یا غیر اسلامی سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنے اور ہر ایک کی آزادی کا برابری کی بنیاد پر احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح دنیا کے آزاد ملکوں کا اقوام متحدہ کے نام سے اتحاد ہے اسی طرح دنیا کی حریت پسندوں کا ایکا ہونے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 188874
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش