0
Saturday 17 Nov 2012 23:48

گیس پائپ لائن میں ایرانی سرمایہ کاری ہو تو امریکی ناراضگی سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی

گیس پائپ لائن میں ایرانی سرمایہ کاری ہو تو امریکی ناراضگی سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی معروف سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ وہ بین الاقوامی امور کے ساتھ پاکستان کی سیاست اور دفاعی امور پر بھی دسترس رکھتے ہین اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیتے ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے چئیرمین بھی رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر حسن عسکری پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی محبوب شخصیت اور غیر جانبدار تجزیہ کار مشہور ہیں۔ اسلام ٹائمز نے حالیہ بین الاقوامی امور پر ان سے انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں امن کے لئے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کہاں تک پہنچ گئے ہیں اور ان کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: ابھی تو مذاکرات شروع ہی نہیں ہوئے اور جو امریکیوں کے ساتھ ماضی میں مذاکرات ہوئے بھی ہیں تو وہ ناکام رہے ہیں، لیکن اب ایک نیا راؤنڈ شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لئے صلاح الدین ربانی وفد کے ساتھ پاکستان آئے اور حکومت کے سامنے افغانیوں اور طالبان کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پھر پاکستان نے افغانیوں اور طالبان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
اس سے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، یہ ایک نئی کوشش ہے، جس کا آغاز اب کیا جائے گا۔ لیکن اس سطح پر مذاکرات کی کامیابی کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ ماضی کا تجربہ تلخ ہے۔ اس سلسلے میں احتیاط ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں کامیابی سے 2014ء تک نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے لئے طالبان محفوظ راستہ دینے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: امریکہ کیلئے افغانستان سے نکلنے کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور محفوظ راستے کی انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اگر امریکہ اتنے عرصے سے افغانستان میں رہ رہا ہے تو خالی بھی وہ اپنی مرضی سے ہی کریں گے۔ میرا نہیں خیال کہ امریکیوں کو افغانستان سے نکلنے کے لئے طالبان کی اجازت یا حمایت کی ضرورت ہوگی۔ 

اسلام ٹائمز: طالبان کو پاکستانی جیلوں سے رہا کرنے کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں، کیونکہ طالبان دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ جس میں حساس اداروں پر حملے بھی شامل ہیں۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: دیکھیں یہ جو حملوں کے الزامات ہیں براہ راست افغان طالبان پر نہیں لگے بلکہ اس طرح کے الزامات پاکستانی طالبان پر لگے ہیں اور افغان طالبان کو پاکستان جو رہا کر رہا ہے یا کرے گا، یہ فیصلہ بنیادی طور پر افغان حکومت کو خوش کرنے کیلئے کیا گیا ہے، کیونکہ کرزئی حکومت کا مطالبہ تھا اور ماضی میں بھی افغان حکومت اور امریکہ نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان قیام امن کے لئے طالبان سے مذاکرات میں ان سے تعاون نہیں کر رہا اور مذاکرات اس لئے کامیاب نہیں ہوئے۔

اب پاکستان نے ان کی بات مان لی ہے کہ ہم طالبان کو رہا کرنے میں تعاون کریں گے تو یہ پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے کہ اس سے افغان حکومت کو accomodate کر رہے ہیں اور امریکہ کو بھی کہ افغان حکومت اگر راستہ نکال سکتی ہے تو نکال لے، وہ اس لئے کہ پاکستان کو فکر یہ ہے کہ اگر 2014ء کے بعد افغانستان میں طوائف الملوکی رہی تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی وہ آجائے گی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گڑبڑ بڑھے گی، تو وہ پاکستان کے باقی علاقوں میں بھی آجائے گی، کیونکہ پاکستان کے main land groups اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کے گروہوں میں بھی قریبی تعلقات استوار ہوگئے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن میں کشیدگی کیوں آتی رہتی ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: دیکھیں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں جو کشیدگی وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہے۔ ایک تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے گیس پائپ لائن پر کاغذوں میں کام ہوگیا ہے لیکن ابھی تک عملی طور پر کچھ نہیں ہوسکا، کیونکہ پاکستان کو فنڈنگ کا مسئلہ اور بین الاقوامی سطح پر فنڈنگ نہیں مل رہی۔ چین بھی پیچھے ہٹ گیا ہے، اس لئے کہ پاکستان اس معاملے میں بہت سست روی کا شکار ہے اور ایران کی کوشش ہے کہ یہ منصوبہ جلدی پایہ تکمیل تک پہنچ جائے، کیونکہ ایرانی معیشت پر امریکی پابندیوں کا بہت منفی اثر پڑ رہا ہے اور اگر یہ پائپ لائن چل پڑتی ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے ایران کو فائدہ ہے۔ اس کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے، بعض دفعہ دہشت گردی کے ایشوز کے حوالے سے بھی پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن میں رکاوٹ امریکہ ہے یا فنڈز کی عدم دستیابی ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: دیکھیں، گیس پائپ لائن منصوبے میں اصل رکاوٹ فنڈز کی عدم دستیابی ہے اور اس عدم دستیابی میں امریکی پالیسیز اثر انداز ہیں، کیونکہ امریکہ کے اندر ایک گروپ موجود ہے جو انٹرنیشنل گروپس امریکہ میں کاروبار کرتے ہیں، اگر ایران سے منسلک کسی منصوبے میں سرمایہ کاری کریں گے تو پھر ان کے کاروبار اور کارروائی کو امریکہ کے اندر روکا جاسکتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے پاکستان کو فنڈنگ نہیں مل رہی۔ امریکی رویے کی وجہ سے پاکستان کے پاس اپنا اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گیس پائپ لائنوں کو ڈال سکے، تو اس لئے international cooperation چین سے، روس سے اور ایران سے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں ایرانی نائب صدر نے پاکستان کا دورہ منسوخ کیا ہے۔ کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب ہم ایران کے قابل اعتماد دوست نہیں رہے۔؟

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: میرا خیال ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے، جیسے میں نے کہا وقتاً فوقتاً شکایات تو پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان کو ایران سے شکایات پیدا ہوتی ہیں اور ایران کو پاکستان سے، لیکن ایران اور پاکستان کا overall relationship کا framework دوستانہ ہے اور اس دورے کی جو پہلی منسوخی کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ غالباً شاید کوئی تلخی ہو، جس کی وجہ سے یہ دورہ نہیں ہوا اور منسوخ کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اسلامی جمہوری ایران کے صدر محمود احمدی نژاد 22 نومبر کو اسلام آباد آ رہے ہیں۔ جہاں ڈی ایٹ ممالک کا سربراہی اجلاس ہے۔ اس D-8 کانفرنس میں ایرانی صدر احمدی نژاد کی آمد ہو جاتی ہے تو اس دورے میں اس کانفرنس کے علاوہ دو طرفہ بنیادوں پر گیس پائپ لائن کے معاملے پر بات چیت ہو گی اور ابتدائی اطلاعات یہ ہیں کہ جو ایرانی حکومت ہے وہ اس سلسلے میں گیس پائپ لائن پاکستانی علاقوں میں تعمیر کرنے کیلئے بھی پاکستان کو فنڈنگ مہیا کرے گی، تو دیکھیں گے کہ کس نوعیت کا ایران اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر یہ معاہدہ ہوگیا تو لگتا نہیں کہ امریکہ پاکستان سے ناراض ہو جائے گا۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: امریکہ کی ناراضگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، امریکہ کی ناراضگی سے جو فرق پڑا ہے وہ پاکستان کو فنڈز نہ ملنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ابھی تک زمینی سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ہے، تو اگر ایران سے فنڈنگ ہو جاتی ہے تو پھر پاکستان اس کو چلائے گا، کیونکہ پاکستان کے اس حوالے سے دلائل بہت سادہ ہیں کہ نہ تو پاکستان کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی مل رہی ہے کہ وہ مغرب کی جانب سے نیو کلیئر پاور پلانٹ لگائے اور نہ ہی گیس مل رہی ہے تو پاکستان کا توانائی کا بحران اتنا serious ہے کہ پاکستان نہ صرف ایران سے گیس لینے کو تیار ہے بلکہ وہ تو ترکمانستان کی پائپ لائن کیلئے بھی تیار ہے۔ لیکن ترکمانستانی پائپ لائن کا مسئلہ یہ ہے کہ درمیان میں افغانستان ہے جہاں کی صورتحال غیر یقینی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ذکر کیا تو بتائیں گے کہ D-8 کانفرنس کے مقاصد کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: D-8 میں آٹھ ممالک ہیں، جو بنیادی طور پر اسلامی ممالک ہیں اور developing countries ہیں۔ جو یہ کوشش کرتے ہیں کہ وقتاً فوقتاً دو سال کے بعد ان کے سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت کا اجلاس ہوتا ہے، تاکہ تعاون کو آپس میں بڑھایا جائے۔ اگر کارکردگی کو دیکھیں تو عملی طور پر ڈی ایٹ ممالک کی تنظیم نے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت کو مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کچھ تعاون ہو جاتا ہے، تجارت میں اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن بنیادی طور پر اس فورم نے کوئی ایسا بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا اور وہ مقاصد حاصل نہیں کئے جن کا پہلی میٹنگ میں کرنے کا عزم کیا تھا کہ تعاون بڑھے گا، تجارت بڑھے گی، ایک دوسرے کی مدد کریں گے، تاہم ڈی ایٹ کی output بہت محدود ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان ڈی ایٹ کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے تو کیا اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابی شمار کی جائے گی۔؟

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: پاکستان اس کانفرنس سے اپنا امیج بہتر کرے گا، کیونکہ پاکستان کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی اتنی ہے کہ کوئی بڑا لیڈر یہاں آنا نہیں چاہتا، تو ڈی ایٹ کے سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت یا وزرائے خارجہ آ رہے ہیں تو میرا یہ خیال ہے کہ اس سے باہر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان میں کوئی بھی بڑا لیڈر دورہ کرسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 212493
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش