0
Wednesday 31 Jul 2013 20:43

مشترکہ القدس ریلی کا انعقاد میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش اور ہدف ہے، علامہ ناظر تقوی

مشترکہ القدس ریلی کا انعقاد میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش اور ہدف ہے، علامہ ناظر تقوی
علامہ ناظر عباس تقوی کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں آپ کا تعلق امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے رہا تھا، شروع سے ہی ملی معاملات میں کافی فعال کردار ادا کرتے تھے۔ آپ نے جب سے روحانی لباس زیب تن کیا، تب سے ہی اپنے کندھوں پر زیادہ ذمہ داری محسوس کرنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ شیعہ علماء کونسل میں شمولیت کے بعد کچھ ہی عرصے میں بزرگ علمائے کرام کے ہوتے ہوئے پہلے کراچی کے صدر منتخب ہوئے، پھر صوبہ سندھ کے جنرل سیکرٹری بن گئے اور تاحال اس عہدے پر قائم ہیں۔ ریلی ہو یا دھرنا یا ملت کو درپیش کوئی اور مشکل، منفرد اور بااثر لب و لہجہ رکھنے والے مولانا ناظر عباس تقوی جتنی دیر بولتے ہیں، ان کے جملوں میں خلوص ہی خلوص ہی نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو للکارنا ہو یا شیعہ و مسلمان دشمن جماعتوں کو، اس معاملے میں مولانا صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناظر عباس تقوی سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلامی و عرب ممالک امریکی و مغربی ممالک کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے نظر آتے ہیں جبکہ مسلم امہ کے مسائل کے حل میں ان کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی، اسکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے۔؟
مولانا ناظر عباس تقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلامی ممالک کے حکمران آزاد نہیں ہیں، وہ اپنی آزادی و خود مختاری کھوچکے ہیں۔ آج ان کے پاس بادشاہت و شہنشاہیت کی صورت میں جو بھی طاقت ہے، قوت ہے، وہ سب امریکہ کی عطا کردہ ہے۔ ان سب حکمرانوں کو پتہ ہے کہ اگر ہم نے امریکی ایجنڈے سے انحراف کیا تو امریکہ یہاں بھی جمہوریت کا نعرہ لگا کر ہماری حکومت، ہماری بادشاہت و اقتدار کو ختم کر دے گا، لہٰذا یہ اب مجبور ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو امریکہ کا غلام بنایا ہوا ہے،
جیسا امریکہ کہتا ہے یہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ شام کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، بحرین کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ پوری دنیا میں جہاں ظلم ہو رہا ہے، اگر امریکہ اس کی پشت پر ہے تو بعض اسلامی و عرب ممالک اس کی سرپرستی کر رہے ہیں، فنڈنگ کر رہے ہیں۔ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے، لیکن ظلم سے نہیں۔ ظلم کا منطقی انجام تباہی و بربادی ہے۔ 

اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اگر حقیقی معنٰی میں مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے کوشش کرے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں اتحاد و وحدت نہیں ہے۔ مسلم عوام میں اتحاد ہے محبت ہے۔ ابھی آپ یوم القدس کے موقع پر دنیا بھر میں دیکھیں گے کہ شیعہ سنی سب مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں سڑکوں پر اکٹھا نکلیں گے۔ پاکستان میں بھی ملی یکجہتی کونسل نے ملک بھر میں یوم القدس کو منانے کا اعلان کیا ہے۔ بہرحال مسلم ممالک پر مسلط حکمران کی امریکہ کے آگے بے بسی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ نہیں چاہتے کے ان کے ہاتھ سے اقتدار جائے۔ ان کی جو عیاشیاں ہیں، جس عیش و عشرت میں یہ ڈوبے ہوئے ہیں یہ سب ان سے چھن جائے، اس لئے یہ امریکہ کے غلام بنے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حزب اللہ اور حماس کے حوالے سے شام کے کردار کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا ناظر عباس تقوی: شام کا حزب اللہ و حماس کے حوالے سے بڑا موثر کردار رہا ہے۔ شام کی پشت پناہی حزب اللہ و حماس کو حاصل رہی ہے، شام خطے میں فلسطین کاز کی حامی واحد ریاست ہے۔ حقیقی اسلامی مزاحمتی تحریکوں حزب اللہ اور حماس کی مضبوطی میں شام کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ آج حزب اللہ خود اپنے وسائل پر کھڑی ہے، اس کی اپنی موثر طاقت و قوت ہے۔ اس کے پاس ایسے باایمان، باتقویٰ، باصلاحیت افراد موجود ہیں کہ جو جان و مال کی پرواہ کئے بغیر اپنی مملکت، اپنی سرحد، اپنے مذہب کا تحفظ کرنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرکے اسرائیل کو یہ باور کرا دیا کہ اس کا ہر علاقہ حزب اللہ کے نشانے پر ہے۔ آج کل شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ کو کمزور کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: شام کے قضیہ کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ کیا شام کو اسرائیل مخالف ہونے اور فلسطین کی حمایت کی سزا دی جا رہی ہے۔؟
مولانا ناظر عباس تقوی: میں سمجھتا ہوں کہ اب تو یہ جنگ تمام ہونے کو ہے اور شام میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے حامی سعودی عرب، قطر، ترکی، اردن اور جتنے بھی ممالک ہیں، جو شام میں مداخلت کر رہے ہیں اور اپنے اپنے ممالک اور دیگر جگہوں سے آنے والے نام نہاد باغی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، ان کے خلاف شام کی حکومت نے بڑی دانائی و حکمت عملی کے ساتھ اقدامات کئے اور ان دہشت گردوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگئی، اپنے علاقے خالی کرانے اور اپنی سرحدیں محفوظ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ آپ دیکھیں گے کہ جلد فتح و نصرت شام کی ہوگی، امریکہ اور اسرائیل جس طرح ماضی میں ذلیل و رسوا ہوتے نظر آئے ہیں، اسی طرح امریکہ و اسرائیل شام میں بھی ناکامی کے در پر پہنچ چکے ہیں۔ اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے کہ کبھی اسرائیل حملہ کرتا ہے تو کبھی امریکہ خود عملی طور پر شام کے خلاف میدان میں اترتا نظر آ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شام کی عوام، شام کی حکومت تنہا نہیں ہے، دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان بیدار ہیں وہ شام پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر امریکہ نے کوئی بڑا اقدام کرنے کی کوشش کی تو پوری دنیا سراپا احتجاج ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں امام خمینی (رہ) کے فرمان عالمی یوم القدس کی اہمیت اور اسکو منانے کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔؟
مولانا ناظر عباس تقوی: امام خمینی (رہ) کا یوم القدس منانے کا فرمان اور انکا یہ اقدام مسلمانوں کو بیدار اور متحرک
کرنے کیلئے تھے۔ اگرچہ مسلمان اب بھی خواب غفلت میں ہیں۔ عالمی یوم القدس اب نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے بلکہ غیر اسلامی ممالک میں بھی یوم القدس کو بڑے پیمانے پر منایا جا رہا ہے۔ یوم القدس کے موقع پر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اور دنیا بھر کے ظالموں کے مقابلے میں مستعضفین کی حمایت میں نکلنے والی احتجاجی ریلیوں میں مسلم غیر مسلم عوام لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں شریک ہوتی ہے۔ خود امریکہ، برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آ تے ہیں، بڑی بڑی احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں، احتجاجی مظاہرے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس طرح مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے، مسلم امہ کی کو بیدار کرنے اور آزادی بیت المقدس کی تحریک کو زندہ رکھنے میں امام خمینی (رہ) کے یوم القدس منانے کے فرمان کے پوری دنیا پر انتہائی گہرے مرتب ہوتے ہیں کہ جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی یوم القدس کا عالمی سطح پر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے میں کردار سب سے زیادہ ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ پارا چنار، ڈیرہ اسمٰعیل جیل پر دہشت گردوں کا حملہ کرکے قیدیوں کو چھڑانا، پاکستان سے افراد بھرتی کرکے شام بھیجے جانا، ان سب واقعات سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مولانا ناظر عباس تقوی: پاکستان کئی دہائیوں سے یرغمال بنا ہوا ہے، ملک میں عالمی طاقتوں کے مفادات ہیں۔ امریکہ، اسرائیل کے مفادات ہیں، خود سعودی عرب کی اس حوالے سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے، اس نے پاکستان میں تکفیریوں کے کئی گروہ پالے ہوئے ہیں، جو اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ابھی بھی جب ہم ایک جگہ سکیورٹی کے حوالے سے اجلاس میں گئے تھے تو وہاں بھی یہی بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو جتنا ان دہشت گرد تکفیری گروہوں سے خطرہ ہے اتنا
کسی سے نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ تکفیری گروہ کرائے کے لوگ ہیں، اصل میں اس کے پیچھے بین الااقوامی سازشیں ہیں، ان کے پیچھے بین الاقوامی قوتیں ہیں۔ آپ دکھیں کہ گذشتہ روز ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملہ ہوا اور دہشت گردوں نے آنے والے حکمرانوں کو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو، ریاست کو یہ پیغام دیا کہ تمہارے اقدامات ہمیں روک نہیں سکتے، ہم جہاں چاہئے آزادی کے ساتھ کارروائی کرسکتے ہیں۔
 
اب جو پاکستان میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور یہاں سے دہشت گردوں کو بھرتی کرکے شام بھیجا جا رہا ہے، جس سے پاکستان کو نہ صرف مسلم امہ میں بلکہ عالمی سطح پر بھی بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل بحرین کا مسئلہ ہوا تو پاکستان سے فوج کے نام پر قاتلوں کو، دہشت گرد تکفیریوں کو بھرتی کرکے بحرین بھیجا گیا، وہاں مداخلت کی گئی، تاکہ امریکی ایجنٹ ظالم آل خلیفہ کی حکومت کے خلاف مظلوم بحرینی مسلمانوں کی تحریک کو دبایا جاسکے، پاکستان کے اس اقدام سے نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں ہمیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بھی شام کے معاملے میں یہی کچھ دوبارہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس طرز عمل سے دنیا بھر میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد بنانے کی فیکٹریاں ہیں، جہاں دہشت گرد تیار کرکے دنیا بھر میں دہشت گردی کرنے کیلئے ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں۔ کتنے پاکستانی تکفیری دہشت گرد ایسے ہیں جو شام میں مارے جاچکے ہیں اور جو پکڑے گئے ہیں، انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہم پاکستان سے بھرتی ہو کر آئے ہیں۔ لہٰذا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بھرتیوں کو روکے، پاکستان سے دوسرے ممالک دہشت گردوں کو بھیجنے کا سلسلہ ختم کرے۔

اسلام ٹائمز: اس سال کراچی میں مشترکہ القدس ریلی کے انعقاد کیلئے کسی قسم کی کوشش یا رابطے ہوئے ہیں، یا اتحاد و وحدت کی علامت عالمی یوم القدس کراچی میں اختلافات کا شکار رہے گا۔؟ مولانا
ناظر عباس تقوی: ملت تشیع پاکستان میں پہلے جو اختلافات کی صورتحال تھی کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے نہیں تھے، ایک دوسرے کے پاس، پروگرامات میں آنا جانا نہیں ہوتا تھا، اب وہ صورتحال ختم ہوچکی ہے اور کافی بہتری آئی ہے۔ قومی دھرنوں میں بھی ملک بھر میں شیعہ تنظیمیں ایک ساتھ شریک تھی، دیگر پروگرامات میں بھی شرکت جاری ہے۔ ہم نے گذشتہ سال بھی کراچی میں مشترکہ القدس ریلی کی کیلئے کوششیں کیں، اچھی پیشرفت بھی ہوئی تھی مگر کچھ ناعاقبت اندیش لوگ تھے جنہوں نے جان بوجھ کر یا نادانی میں چھ ایسے اقدامات کئے جس کی وجہ سے قومی اتحاد کو نقصان پہنچا۔ میں سمجھتا ہوں کہ نہ خدا ان کو معاف کرے نہ رسول (ص) اور ہ ہی قوم انہیں معاف کریگی۔ اس حوالے سے ہماری بھی یہ سستی و کوتاہی ہے کہ ہم اتحاد کا عمل اس وقت شروع کرتے ہیں کہ جب یوم القدس کی ریلی سر پر آجاتی ہے۔ جبکہ سارا سال ہم ایکدوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں اور ہم اپنی اس کوتاہی کو تسلیم کرتے ہیں۔ انشاءاللہ آئندہ سال ہم ضرور پہلے سے ہی اس حوالے سے کوئی پلاننگ، کوئی حکمت عملی بنائیں گے۔
 
یوم القدس کی ریلی میں شرکت کیلئے مجھے آئی ایس او کراچی کے دوستوں نے دعوت دی ہے، وہ میرے گھر بھی آئے تھے، میں خود آئی ایس او کی دعوت افطار میں گیا تھا۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء علامہ صادق تقوی صاحب سے بھی خود میری بات ہوئی ہے۔ اس سال ہم نے حکمت عملی یہ بنائی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی ریلیوں میں شرکت کریں گے، خطابات ہونگے، انشاءاللہ تعالٰی اس سے قوم میں، تنظیموں میں مثبت پیغام جائے گا۔ ہم نے انہیں شیعہ علماء کونسل کی ریلی میں شرکت کرنے کی دعوت دی ہے۔ آئی ایس او کے دوست ہمیں دعوت دے چکے ہیں، ہم انشاءاللہ آئی ایس او کی القدس ریلی میں شرکت کرینگے۔ آئندہ سال میں پوری کوشش کرونگا اور مشترکہ القدس ریلی کا انعقاد میری زندگی کی سب بڑی خواہش ہے اور میرا ہدف بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 288434
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش