0
Wednesday 9 Oct 2013 20:35

بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جلد اے پی سی بلانی چاہیئے، عبدالمتین اخوندزادہ

بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جلد اے پی سی بلانی چاہیئے، عبدالمتین اخوندزادہ

عبدالمتین اخوندزادہ جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان کے علاقے ژوب سے ہے، جبکہ وہ 1968ء کو ژوب کے علاقے کچی میں پیدا ہوئے۔ 1988ء میں جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر منتخب ہوئے۔ آپ نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل کوئٹہ کے علاقے سمنگلی روڈ میں قیام پذیر ہیں۔ جماعت اسلامی کے ساتھ ملی یکجہتی کونسل میں بھی اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ عبدالمتین اخوندزادہ بلوچستان میں تمام اقوام کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف عمل رہے ہیں۔ کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں آپ کی بہت سی خدمات ہیں۔ کوئٹہ میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے عبدالمتین اخوندزادہ کے ساتھ مختصر گفتگو کی جو ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: طالبان کیساتھ مذاکرات کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
عبدالمتین اخوندزادہ: ملک کو مشکلات اور دہشت گردی سے نکالنے کے لئے گولی کی بجائے بات چیت کے ذریعے حل نکالنا ہوگا۔ امریکہ کی اب بھی خواہش ہے کہ پاک فوج ملک کے اندر آپریشن کی دلدل میں پھنسی رہے۔ دہشت گردی کے خلاف خودساختہ تشکیل دی جانے والی امریکی جنگ نے اس خطے اور دنیا کو خطرات سے دو چار کردیا۔ بلوچستان کے حوالے سے اگر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ہوم ورک مکمل کرکے ایک جامع چارٹر تیار کرے جس میں تمام طبقات اور صوبے میں بسنے والے عوام کی نمائندگی شامل ہوں۔ حال ہی میں آل پارٹیز کانفرنس پر سب نے اتفاق کیا ہے، ملک کے تمام حصوں میں جہاں پر حالات خراب ہیں انہیں مذاکرات کے ذریعے بہتر حکمت اور تدبر کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔

ہمیں خوشی ہے کہ ماضی میں جماعت اسلامی جس نقطہ نظر کا مطالبہ کرتی تھی اور جو جماعتیں اس کی مخالف تھی آج انہوں نے اس نکتے پر اتفاق کیا ہے۔ اب امریکہ پریشان ہے کہ ازسرنو مذاکرات کی بجائے پاک فوج کو آپریشن کی دلدل میں دھکیلا جائے۔ ہمیں توقع ہے کہ حکومت اے پی سی کے متفقہ فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔ 11 ستمبر کو پینٹاگون میں ہونے والی تباہی کے بعد دنیا کے حالات میں جو تبدیلی آئی دنیا کی آزادی اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے یہ ایک المناک واقع تھا۔ جس نے دنیا سے دکھ اور غم کا اظہار کیا امریکہ نے پوری دنیا پر اپنے ایجنڈے کے تسلط کے لئے جو راستہ اختیار کیا، اس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوا۔ لہذا اب ملکی سطح پر طالبان کیساتھ بات چیت کرنا ہوگی تاکہ ملک میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ بلوچستان کو حل کرنے کیلئے کونسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔؟
عبدالمتین اخوندزادہ: میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ملکی سطح پر امن و امان کو بحال کرنے کیلئے اے پی سی بلا کر طالبان سے مذاکرات کرنے کو ترجیح دی گئی ہے، اسی طرح مسئلہ بلوچستان کو حل کرنے کیلئے بھی اے پی سی کا انعقاد کیا جائے۔ بلوچستان میں گذشتہ آمروں کی نااہلی اور ظالمانہ آپریشنز کی وجہ سے یہاں کے لوگ بغاوت پر اُتر آئے۔ لہذا اب ریاست اور حکومت کو اس صوبے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے طاقت کی بجائے مذاکرات کی راہ اپنانی پڑے گی اور اگر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب ایسا کوئی اقدام اُٹھاتے ہے تو ہم اُنکا بھرپور ساتھ دینے کو تیار ہے۔

اسلام ٹائمز: سردار اختر مینگل نے اے پی سی میں بلوچستان کا کیس کس طرح پیش کیا۔؟
عبدالمتین اخوندزادہ: بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اے پی سی میں بلوچستان کا کیس مکمل طور پر پیش کیا۔ اگر کوئٹہ میں اے پی سی کا انعقاد ہوتا ہے تو وزیراعلٰی بلوچستان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک فریم ورک مرتب کرے، تاکہ پہاڑوں پر اور بیرون ملک جانے والوں سمیت تمام ناراض بھائیوں سے مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور ایک ایسا چارٹر تیار کریں، جس پر اتفاق کیا جائے اور اس میں عوام اور صوبے میں بسنے والے تمام طبقات کے جذبات کی نمائندگی ہوا۔

اسلام ٹائمز: حکومت کا طالبان رہنماء ملا برادر کو رہا کرنے کے اقدام کو آپ کس نگاہ سے  دیکھتے ہیں۔؟
عبدالمتین اخوندزادہ: طالبان رہنماؤں کی رہائی اور افغانستان میں امن کے قیام کے لئے پاکستان کی جانب سے مدد کرنا ایک مثبت پیشرفت ہے۔ حکومت کو اس پر مکمل مہارت کو استعمال کرتے ہوئے اس کی آڑ میں ہونے والی دہشت گردی، قتل و غارت گری اور بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے لئے ریلیف لینا چاہیے۔ پاکستان کو اب افغانستان میں مداخلت کی بجائے اپنے ملک پر توجہ دینی ہوگی۔ ملا برادر کی رہائی کے بعد افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں طالبان کیساتھ مذاکرات کرنے میں آسانی پیدا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کا آئندہ سال افغانستان سے ممنکہ انخلاء کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
عبدالمتین اخوندزادی: انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان پر تیسری سپر پاور کی حیثیت سے حملہ کیا۔ برطانیہ اور روس کی غلطی سے سبق سیکھنے کی بجائے امریکہ نے پھر وہاں حملہ کردیا اور اُسے زیادہ ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح فوجی آمر نے نائن الیون کے بعد جس طرح امریکہ کے سامنے سرنڈر کیا اور ملک کے اندرونی حالات خراب ہوئے، اٹھارہ کروڑ عوام کو اس دلدل میں دھکیل کر 47 ہزار فوجی اور عام شہریوں کو شہید کروایا۔ 95 ارب ڈالر کا پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ چونکہ امریکی جنگ نے اس خطے کو عمومی طور پر اور دنیا کو خطرات سے دو چار کردیا، جس سے ملک کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا۔ بدامنی و فرقہ واریت نے خطے میں پاکستان کو ہمسایہ ممالک سے دور کرنے کی سازش کی۔ امریکہ خطے اور افغانستان میں اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے سبق سیکھے اور دنیا کو طاقت کے ذریعے فتح کرنے کی بجائے عوام کی آزادی، عقائد، تہذیب و تمدن کے تقدس کو تسلیم کرکے افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے، تاکہ مستقبل کے فیصلے کا اختیار افغان عوام کو دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا نواز شریف صاحب پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کیلئے امریکی دباؤ کو مسترد کرینگے۔؟
عبدالمتین اخوندزادہ: پاک ایران گیس منصوبہ ہماری معیشت اور ملک کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے توانائی بحران کا شکار چلا آ رہا ہے۔ امریکہ اگر ہمارا زیادہ ہی خیرخواہ ہے تو اس حوالے سے ہماری مدد کرتا، لیکن وہ گذشتہ 8 سال سے ہمارا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ ہمارا پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن امریکی کیسے ہمارے دوست ہیں، انہیں اس بات کا خیال ہی نہیں آیا کہ وہ توانائی کے شعبہ میں ہماری مدد کرتے یا اس کا کوئی حل دیتے۔ اب جب ہماری حکومت نے اس مسئلہ پر توجہ دی اور اس کو حل کرنے کا ارادہ کیا تو امریکہ نے روڑے اٹکانے شروع کر دیئے ہیں۔ اگر بھارت ایران سے گیس لے تو کوئی مسئلہ نہیں، ترکی لے تو کوئی شکایت نہیں، بس امریکہ کو پاکستان کیساتھ دشمنی ہے، پاکستان ایران کیساتھ کوئی معاہدہ کر لے تو اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگ جاتے ہیں۔ ہم حکومت پر واضح کرتے ہیں کہ اس منصوبے کے حوالے سے کوئی دباؤ قبول نہ کیا جائے۔ یہ گیس ہمارے لئے ضروری ہے اور ہمیں اس کو ہر حال میں مکمل کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: بجلی کی قیمتوں‌ میں اضافے کے نوٹیفیکیشن پر آپ کی کیا رائے ہے۔؟
عبدالمتین اخوندزادہ: بجلی کا بحران اور پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عام آدمی کا جینا دشوار ہوگیا ہے اور آئی ایم ایف سے جن ذلت آمیز شرائط پر قرضہ لیا گیا ہے، ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا کیونکہ ان کی وجہ سے ہر ماہ منی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے اور قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے جسکی وجہ سے زراعت بھی تباہ ہو گئی ہے لیکن عوامی دباؤ اور سپریم کورٹ کے نوٹس کی وجہ سے حکومت نے اس ظالمانہ اقدام کو واپس لے لیا۔ لہذا اب حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ عوام ان کی غلط پالیسیوں کو بالکل نہیں مانے گی۔ اسی لئے اُنہیں عوام دوست پالیسیاں‌ اپنانی ہونگی۔

خبر کا کوڈ : 309659
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش