0
Sunday 13 Oct 2013 13:09
دہشتگردوں کے تمام ٹھکانے پنجاب میں ہیں

دہشتگردی کے سب سے بڑے حامی نواز شریف ہیں، آغا مرتضٰی پویا

دہشتگردی کے سب سے بڑے حامی نواز شریف ہیں، آغا مرتضٰی پویا
آغا مرتضٰی پویا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ معروف انگریزی اخبار ’’دی مسلم‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور مالک رہے ہیں۔ سیاسی حوالے سے بھی بلند قامت شخصیت ہیں۔ آج کل پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے لئے آغا مرتضٰی پویا کی بہت زیادہ خدمات ہیں، دہشت گردی اور فرقہ واریت کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں۔ اپنے خیالات اور اتحاد امت کی نظریات کی بدولت اہل تشیع کیساتھ ساتھ اہل سنت میں بھی بہت زیادہ مقبول ہیں۔ اسلام ٹائمز نے شام کی صورت حال، حالیہ حکومت طالبان مذاکرات، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور دیگر معاملات پر ان سے گفتگو کی، جو قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)
                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام ٹائمز: ٹی وی ٹاک شو میں آپ نے کہا تھا کہ شام میں کچھ نہیں ہونیوالا، بلکہ اصل ہلچل ریاض میں مچنے والی ہے اور اسرائیل خود امریکہ کی منتیں کر رہا ہے کہ شام پر حملہ مت کرو، ورنہ ہماری خیر نہیں، آپ کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا، موجودہ صورتحال پر کیا کہیں گے۔؟
آغا مرتضٰی پویا: بسم رب شہداء و صدیقین، الحمدللہ، میں جو تجزیہ کرتا رہا کہ کیا امکانات ہیں وہ سچ ثابت ہوئے، میں پانچ سال سے کہہ رہا ہوں کہ امریکہ اسرائیل اور آل سعود کو بچانے کیلئے اب ایک گولی بھی نہیں چلائے گا، انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کا جو خاردار ہار پہنا ہوا تھا اب وہ اتارنا ہے۔ اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ آل سعود کو ختم کیا جائے۔ یہ میرا تجزیہ تھا جو سچ ثابت ہو رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شام کے معاملے میں امریکہ نے مدبرانہ، حکیمانہ اور جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے کہ شام کی جنگ میں نہیں کودے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی پندرہ بیس برسوں سے جو پلانگ کر رہے تھے اور برنامہ ریزی کر رہے تھے کہ اسرائیل اور آل سعود کو ختم کیا جائے، اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب اس میں آپ کو تبدیلی ملے گی کہ امریکہ مسلمان اقدار اور اسلامی قدروں سے ہم زیست ہوگا اور ان کے ساتھ کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرے گا۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کو من و عن قبول کیا ہے، اسی طرح حزب اللہ کے موقف کو قبول کیا کہ وہ اسرائیل اور آل سعود کو کمزور کریں۔ میں اس حوالے سے خوش آئند امکانات دیکھتا ہوں۔ امریکہ نے یہ ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ انہوں نے کئی سال پہلے کرلیا تھا لیکن عمل اب کر رہے ہیں۔ اب امریکہ اسلامی اقدار اور مسلمان قدروں کیساتھ ہم زیست ہوگا۔ اب جو قدرت اپنے آپ کو اسلامی متعارف کرائے گی اور ثابت کرے گی، امریکہ اس قدرت اور انسانیت کیخلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گا۔

اسلام ٹائمز: اگر آپ یہ بات کر رہے ہیں تو اس کے پیچھے کیا تبدیلی دیکھ رہے ہیں جو آپ اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔؟

آغا مرتضٰی پویا: تبدیلی اقدار کی تبدیلی ہے۔ انہوں نے بیس سال پہلے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ یہ نظام جسے وہ آگے بڑھا رہے رہیں اور چلا رہے ہیں وہ ظالمانہ نظام ہے، لہٰذا وہ اس سے دستبرار ہونا چاہتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے دیکھا کہ انیس سو نوے میں انہوں نے صدام پر حملہ کیا۔ وہ طاقتیں جو اسلام دشمنوں کے ساتھ رہی تھیں انہیں نیست و نابود کرنے کا پلان بنا لیا تھا۔ پہلا ہدف صدام، اس کے بعد مصر، یمن، لیبیا اور دیگر ممالک بنے ہیں۔ یہ تمام اسلامی طاقتیں طاغوتی تھیں جو مسلمانوں کے درمیان موجود تھیں۔ انہوں نے ان سب کو صاف کیا۔ اب وہ اصلی اسلامی طاقتوں کی تلاش میں ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کی موجودہ صورتحال کیا دیکھ رہے ہیں، کیا آل سعود اور اس کے حواری بشار الاسد کی حکومت گرا پائیں گے۔؟

آغا مرتضٰی پویا: دیکھیں امریکی کہہ چکے ہیں کہ ہم بشار الاسد کی رجیم کو ہٹانا نہیں چاہتے، وہ رہے جتنی دیر رہے، عوامی تائید کے ساتھ جتنا بھی عرصہ رہ سکتا ہے۔ ہم وہاں تبدیلی نہیں چاہتے، جیسا کہ میں نے اپنی گفتگو کے شروع میں عرض کیا کہ اب اصل تبدیلی ریاض میں آنے والی ہے، اصل ہلچل وہاں پر ہے۔ انشاء اللہ وہاں تبدیلی آئیگی اور اس کو امریکی تائید بھی حاصل ہوگی۔ وہاں پر ایک اسلامی حکومت آئیگی۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ امکان ہے کہ حجاز مقدس میں حکومت کی تبدیلی میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور اس کی ٹیم کا کلیدی کردار ہوگا، پاکستان میں بھی اسلامی حکومت کے قیام اور تبدیلی کیلئے یہ ٹیم اہم کردار ادا کریگی۔

اسلام ٹائمز: روس کا موجودہ صورتحال میں کیا کردار دیکھتے ہیں۔؟
آغا مرتضٰی پویا: روس کا بہت عرصے سے اچھا کردار رہا ہے، ماسکو اور بیجنگ نے جس انداز میں مسلمان طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کیا وہ لائق تحسین ہے۔ انہیں امریکہ اور مغرب سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں، اصل مسئلہ انہیں مسلمان طاغوتی طاقتوں کا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ شام کے معاملے پر امریکہ نے روس اور چین کو کہہ دیا تھا کہ آپ ڈٹ جائیں، ہم پیچھے ہٹ جائیں گے، تاکہ شام میں کوئی گڑبڑ نہ ہو۔

اسلام ٹائمز: آپ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ روس اور چین کو مسلمان طاغوتی طاقتوں کا سامنا ہے، کیا واقعاً ایسا تھریٹ ان کیلئے موجود ہے۔؟

آغا مرتضٰی پویا: جی بالکل ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ غیر انسانی لوگ ہیں، ہر جنگ میں کود جاتے ہیں اور اسے مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کیخلاف کوئی بھی جنگ ہوتی ہے یہ طاقتیں اس میں کود جاتی ہیں۔ اسی لئے تین سال پہلے دونوں ملکوں نے فیصلے کیا تھا کہ شام کے معاملے پر ہماری یہ ریڈ لائن ہے، جسے عبور نہیں ہونے دیں گے۔ اب آپ نے دیکھ لیا کہ ان دونوں ممالک نے اس حوالے سے کیا کردار ادا کیا۔ حتٰی وہ یہاں تک تیار ہوگئے کہ اگر یہ جنگ آگے بڑھی تو وہ تیسری بڑی عالمی جنگ کیلئے بھی تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کی باتیں، یہ سارے پاکستان کو کہاں لے جا رہے ہیں۔؟
آغا مرتضٰی پویا: یہ کہیں نہیں لے کر جائیں گے، وہ جعلی طاقتیں جو انہیں سپورٹ کر رہی ہیں، جب وہ شکست کھا رہی ہیں اور آل سعود پٹ گئے ہیں تو ان کا پٹنا یقینی ہے۔ اب انہیں کوئی بچا بھی نہیں سکتا، ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرنا سب وقت ضائع کرنے کی باتیں ہیں۔ یہ سب بھارت، آل سعود اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں جو ان سے پیسے لیکر انسانی خون بہاتے ہیں۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب وہ آل سعود اور دیگر جن کے میں نے نام لئے ہیں، انہیں پناہ نہیں دیں گے۔ یہ فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ آل سعود کو آئینہ دکھا چکے ہیں۔ اسی طرح آپ سیکرٹری خارجہ کا گذشتہ روز کا بیان دیکھ لیں، جس میں انہوں نے بھارت کو آئینہ دکھا دیا ہے کہ تم بلوچستان میں کیا کر رہے ہو، تمام ثبوت فراہم کر دیئے ہیں۔ یہ طاقتیں اپنی حکومتیں بچانے کیلئے اس پورے خطے میں خون بہا رہی ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ اسرائیل اور آل سعود اپنی رجیم بچانے کیلئے اس خطے میں امن کو تباہ کر رہے ہیں اور انڈیا اپنے مفاد کی خاطر ایسا کر رہا ہے اور یہ سب امریکہ کیخلاف کر رہے ہیں، اور امریکہ کے بغیر یہ دو دن کے مہمان ہیں۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اب رشین بلاک یعنی جو اب ایران، چین اور روس کا بلاک بنا ہے اس میں کھڑا ہونا چاہیے، نہ کہ امریکی بلاک کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟

آغا مرتضٰی پویا: دیکھیں پاکستان کو کسی بلاک کے ساتھ نہیں کھڑا نہیں چاہیے، پاکستان کو ہمیشہ اصولوں کے ساتھ کھڑا چاہیے تھا، یہ اس بلاک کے ساتھ کھڑے ہو جائیں یا اس میں کھڑے ہو جانا چاہیے، یہ صحیح نہیں۔ پاکستان کو اصولوں کی بنیاد پر ساتھ دینا چاہیے۔ ہم نے ڈٹ کر سوویت یونین کا مقابلہ کیا، اس کے باوجود ان کیساتھ ہم نے تعلقات نہیں بگاڑے۔ اس وقت ہم بالکل تنہا تھے، جب سوویت یونین کے لشکر کابل میں آئے تھے، اس وقت ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ اس کے باوجود ہم نے ان کے ساتھ فوراً مذاکرات شروع کر دیئے اور ہم نے جنیوا ٹاک شروع کی۔ یہ فیصلہ ماسکو میں ہوچکا تھا کہ وہ فروری میں واپس جانا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے، خاص طور پر دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے۔؟
آغا مرتضٰی پویا: دیکھیں کہ دہشت گردی تو اب خود ہی دم توڑ رہی ہے۔ جن لوگوں نے انہیں پاکستان میں پالا ہے، اس میں میاں صاحب سرفہرست ہیں، اگر میاں صاحب فوری طور پر اس سے دست بردار نہ ہوئے، تو اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ انہیں غارت کرے۔ دہشت گردی کے سب سے بڑے حامی نواز شریف ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ تین صوبوں میں بڑی کارروائیاں ڈالی جا رہی ہیں لیکن پنجاب میں دہشت گردی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ تمام دہشت گردوں کے ٹھکانے پنجاب میں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب کو اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہوگی اور اب اس کا کفارہ ادا کریں اور ان دہشت گردوں کیخلاف فوری کارروائی کا اعلان کریں۔ عامر متین نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ جتنے دہشت گردوں کے ایڈریس چاہیں، وہ سب رائیونڈ میں ہیں اور میاں صاحب کے گھر میں بیٹھے ہیں، لیکن اس کے باوجود پنجاب میں کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کیساتھ مذاکرات کیے جائیں، تاکہ امن قائم ہوسکے۔؟
آغا مرتضٰی پویا: اس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ مجرم لوگ ہیں، انہیں اپنے جرم کی سزا ملنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے راولپنڈی میں ورکرز کنونشن کا انعقاد، کیا آئندہ الیکشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔؟
آغا مرتضٰی پویا: ہم نہ تو پہلے الیکشن کیلئے کھڑے ہوئے تھے اور نہ اب ہونگے۔ جب ہم نے پچھلی باری دھرنا دیا تھا تو ہم نے الیکشن کی خاطر نہیں دیا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ پورا نظام تبدیل ہو، پورا نظام جعلی ہے، آئین پاکستان لاگو ہو، ہم اس پورے نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ہم خیال لوگوں کا اپنے ساتھ ملائیں گے۔؟

آغا مرتضٰی پویا: دیکھیں اب سب نے دیکھ لیا ہے، جب ہم نے دھرنا دیا تھا تو لوگ شک میں مبتلا تھے، اب انہیں یقین ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی نیت صاف ستھری ہے اور وہ حقیقت میں اس نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ اسلامی نظام چاہتے ہیں، جو لوگ ہم سے کٹے ہوئے تھے، وہ اب ساتھ مل رہے ہیں اور انشاءاللہ ہمارا قافلہ ایک بڑا کاررواں بن کر دکھائے گا اور حق پرستوں کا کارواں ہی سرفراز ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 310216
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش