1
0
Friday 28 Mar 2014 22:40
گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دلوانے کیلئے کوشاں ہیں

مسلک کے نام پر سیاست کرنیوالوں نے گلگت بلتستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، حفیظ الرحمان

مسلک کے نام پر سیاست کرنیوالوں نے گلگت بلتستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، حفیظ الرحمان
حافظ حفیظ الرحمان کا تعلق گلگت شہر کے گنجان آباد علاقے پلٹنی محلہ کشروٹ سے ہے۔ آپکا شمار گلگت بلتستان کے نامور سیاسی راہنماوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے بھائی سیف الرحمان خان کے قتل کے بعد سیاست میں عملی طور پر حصہ لیا اور دو مرتبہ قانون ساز اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں اور اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز گلگت بلتستان کے چیئرمین کے طور پر سیاسی فعالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گلگت بلتستان کی سیاسی اور مجموعی صورت حال پر ایک انٹریو کیا ہے جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور اس حوالے سے اب تک آپ کی جدوجہد کیساتھ ساتھ مستقبل کیلئے آپکی نظر میں تجاویز کیا ہیں؟

حفیظ الرحمٰن: اس کا ایک ہی حل ممکن ہے موجودہ گورننس آرڈر کو بہتر بنایا جائے اور کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے اور قومی اسمبلی کے آئین کے ذریعے اس کو تحفظ حاصل ہو۔ ممکنہ صورت حال یہ ہے کہ سب کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے ایک سیٹ اپ بنایا جائے اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کونسلز کو ختم کر کے دونوں کو ملاکر ایک ہی کونسل بنائی جائے جس میں نمائندگی وفاق سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے برابر منتخب کی جائے۔

اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان سے فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کیلئے آپکی نظر میں کیا اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور فرقہ واریت کا ذمہ دار کون ہے؟
حفیظ الرحمٰن: فرقہ واریت کا ذمہ دار وہ ہیں جو ایک سیٹ کی خاطر عوام کو قوموں اور مسلکوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ آج بھی اسمبلی میں ایسے افراد ہیں جو مسلک کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لے کر آگے آئے ہیں اور یہ ممکن بھی ہے کہ آنے والے انتخابات میں بھی یہی روش اپنائی جائے گی۔ مذہبی بنیاد پر لڑنے والے الیکشن قوم کے مفاد میں نہیں۔ دو مسلکوں کو برابر نہیں رکھا جائے بلکہ 80 اور 20 فیصد رکھا جائے اور شیعہ کا مقابلہ شیعہ سے کرائے اور سنی کا مقابلہ سنی سے کرایا جائے۔ اسی سے فرقہ واریت میں کمی آئیگی اور سیاسی کلچر فروغ پائیگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان مسلم لیگ کا منشور کیا ہوگا اور گلگت بلتستان کے عوام کیلئے اس مرتبہ آپ کی جماعت کی مرکزی حکومت کیا اصلاحات متعارف کرائے گی؟
حفیظ الرحمٰن: پاکستان مسلم لیگ نے آئینی حیثیت دینے کیلئے ایک پانچ وزارتی کمیشن قائم کیا ہے۔ اس پر غور خوض ہو رہا ہے اور مختلف تجاویز بھی آ رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا منشور گلگت بلتستان میں بھی وہی ہے جو مرکز میں ہے۔ ہماری زیادہ تر توجہ سوشل اکنامکس ایشو پر ہے۔  ہمارا منشور ہیلتھ سیکٹر کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی بہتر بنانے کی کوشش ہے اور اس کے علاوہ بجلی کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا ہے۔ اگلے پانچ سال تک لوڈشیڈنگ سے عوام کو نجات دلانا اور پن بجلی کے منصوبے سے 5 سے 6 ارب روپے ریونیو پیدا کرنا ہماری ہدف ہے۔ ضرورت بنیادی طور توانائی پیدا کرنے والے منصوبے پر کام کرنے کی ہے، اس کا کام ریاست نے کرنا ہے مواصلات کے نظام کو بہتر کرنا ہے، تاکہ جو گیپ ہے وہ ختم ہو جائے۔ پاکستان سے لنک کرنے کے لئے بابوسر ٹنل تعمیر کریں گے۔ جس کو آل ویدر بنایا جائے گا۔
اسلام ٹائمز: آنے والی حکومت کس کی ہوگی؟ پی پی پی کے اقتدار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
حفیظ الرحمٰن: سب سے پہلے اﷲ اور اس کے بعد قوم سے امید ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کو حکومت کرنے کا موقع ملے گا لیکن اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ ووٹ عوام نے دینا ہے۔ رہی بات پی پی پی کے اقتدار پر تبصرہ کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ان کی کارکردگی میں  کرپشن اقرباء پروری، لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ انہوں نے قوم کو بہت لوٹ لیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں اسلام ٹائمز کی وساطت سے عوام کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
حفیظ الرحمٰن: گزارش ہے کہ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے، ہمیں ہر چیز پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے۔ ہمیں محنت کرنی ہے، دو چیزوں سے قوم کو نکالنا ہے پہلے ووٹ کو میرٹ پر لانا ہے، دوسرا کرپٹ لوگوں سے نجات دلانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 366795
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

گلگت بلتستان کی عوام نون لیگ سے بیزار
ہے۔
ہماری پیشکش