0
Sunday 20 Jan 2019 15:17
مولانا سمیع الحق نے فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے اہم کردار ادا کیا

تکفیریت نے سب سے زیادہ نقصان اہل تشیع کا کیا، مولانا عاصم مخدوم

شیعہ سنی باہمی اتحاد سے دہشتگردی اور تکفیریت کو شکست دے سکتے ہیں
تکفیریت نے سب سے زیادہ نقصان اہل تشیع کا کیا، مولانا عاصم مخدوم
مولانا عاصم مخدوم کُل مسالک علماء بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ 2009ء سے 2018ء تک جمعیت علماء اسلام (س) کے سیکرٹری اطلاعات رہ چکے ہیں۔ 14 اگست 1984ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آبائی علاقہ ڈیرہ غازی خان ہے۔ 1999ء میں اپنے والد گرامی کے قائم کردہ دینی ادارہ مدرسہ عربیہ تعلیم القران جامع مسجد کبریٰ نیو سمن آباد لاہور میں حفظ قرآن مجید کی تکمیل کی۔ بعد ازاں جامعہ اشرفیہ فیروز پور روڈ لاہور سے درجہ اولیٰ سے دورہ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی۔ والد گرامی مولانا مخدوم منظور احمد کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے تھا، اس لئے جمعیت کا پلیٹ فارم ورثے میں ملا۔ 2014ء میں  کُل مسالک علماء بورڈ کی بنیاد رکھی۔ 2008ء سے جامع مسجد کبریٰ نیو سمن آباد لاہور میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اتحاد امت کیلئے کوشاں ہیں۔ امت کو وحدت کی لڑی میں پرونے کیلئے تمام مکاتب فکر اور مذاہب کو قریب لانے میں ہروقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان کیساتھ لاہور میں ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز:مولانا سمیع الحق کا قتل ایک افسوسناک واقعہ ہے، آپکے خیال میں اس کے پیچھے کون ہے۔؟
مولانا عاصم مخدوم:
مولانا سمیع الحق صاحب محب وطن عالم دین، سیاست دان اور راہنما تھے۔ ان کو اندرونی طور پر کوئی خطرات لاحق نہیں تھے۔ انہوں نے فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے بہت کام کیا۔ ان کے قتل میں بیرونی ہاتھ ہی ہوسکتا ہے۔ تفتیشی ادارے بھی اپنا کام کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے اصل قاتل جلد سامنے آجائیں گے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا سمیع الحق کے قتل سے پاکستان کے ہونیوالے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں، پاکستان ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگیا۔

اسلام ٹائمز: کل مسالک علماء بورڈ کے قیام کے مقاصد کیا ہے، کیا اس میں غیر مسلم رہنماؤں کو بھی نمائندگی حاصل ہے۔؟
مولانا عاصم مخدوم:
کُل مسالک علماء بورڈ کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک کو تکفیری سوچ سے پاک کرنا اور تمام مسالک کو ایک پلیٹ فارم پر بٹھانا۔ اس بورڈ میں چاروں مسالک کی نمائندگی ہے۔ اس میں مذاہب کا کوئی نمائندہ نہیں۔ البتہ ملک میں مذہبی رواداری کے فروغ کیلئے بین المذاہب قائدین کیساتھ مشترکہ پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے دیگر جماعتوں کا ردعمل کیسا ہے؟
مولانا عاصم مخدوم:
اقلیتیں ہمارے ملک کا حصہ ہیں۔ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ان کے حقوق کی باتیں کرتی ہیں۔ تکفیری اور خارجی سوچ رکھنے والے عناصر کے علاوہ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: تکفیریت نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا، آپکے خیال میں تکفیریت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔؟
مولانا عاصم مخدوم:
ان شاء اللہ ہم جو جدوجہد کر رہے ہی، اس سے خاتمہ ممکن ہے۔ تکفیریت نے سب سے زیادہ اہل تشیع کو متاثر کیا۔ اس لئے علماء اہل تشیع کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ باہمی تعاون سے ہی اس عفریت کا خاتمہ ممکن ہے۔  شیعہ سنی باہمی اتحاد کا مظاہرہ کریں تو تکفیریت سمیت دہشتگردی اور انتہا پسندی کو شکست دے سکتے ہیں اور ہم اسی مشن کو لیکر چل رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ہم امت کو متحد اور تکفیریت و دہشتگردی کو نکال باہر کریں گے۔

اسلام ٹائمز:پاکستان میں فرقہ واریت کس کا ایجنڈا ہے۔؟؟
مولانا عاصم مخدوم:
ہم سارا کچھ کسی اور پر نہ ڈالیں، ہوگا بہت لوگوں کا ایجنڈا۔
لیکن دین سے دُوری کے سبب فرقہ وارانہ فسادات نے جنم لیا ہے۔ شیعہ سنی جاہلوں نے اس کو مزید تقویت دی۔ اگر ہم اپنی کوتاہی تسلیم کر لیں تو بہت جلد فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب میں سر اٹھانے والے بحران کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا آل سعود کا اقتدار ختم ہونے جا رہا ہے۔؟
مولانا عاصم مخدوم:
سعودیہ عرب میں پہلے بھی کئی بار تبدیلیاں آئیں اور آئندہ بھی آتی رہیں گی، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ البتہ پاکستانیوں کیلئے حرمین الشریفین اور ایران ایک مقدس سرزمین کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کی آپس میں کشیدگی سے ہمارے درمیان پیچیدگیاں اور دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، جو یقیناً قابل تشویش بھی ہیں اور انتہائی نقصان دہ بھی۔

اسلام ٹائمز:تحریک لبیک کی قیادت نظر بند ہے، عدالت نے بھی اب مسئلہ حل کرنیکی ہدایت کر دی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں خادم رضوی صاحب کا طریقہ کار درست تھا۔؟؟
مولانا عاصم مخدوم:
مولانا خادم حسین رضوی صاحب نے بھی فرقہ واریت کو ہوا دی۔ اچھا ہوتا وہ ملک میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کیلئے سب کے ساتھ ملکر جدوجہد کرتے۔ اگر اکیلے ہی چلنا تھا تو کم از کم دوسروں کی نفی نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔ انہوں نے تو مخالفین کو رگڑا، جس سے ان کا مقصد ناکامی سے دو چار ہوا۔

اسلام ٹائمز: امریکہ طالبان مذاکرات کامیاب ہوںگے؟ اور کیا امریکہ اب افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔؟؟
مولانا عاصم مخدوم:
امریکہ کو بہت پہلے چلے جانا چاہیئے تھا۔ ظاہر ہے کہ اس نے جانا ہی ہے۔ اس کے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ اس لئے امریکہ کی مکمل کوشش ہوگی کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں، اس حوالے سے پاکستان کی خدمات بھی لی جا رہی ہیں۔ زلمے خلیل زاد کے دورے بھی جاری ہیں۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ خطے میں امن ہو۔ تمام معاملات بات چیت کے ذریعے حل کر لئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: ایران پر امریکی پابندیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟؟ اور کیا امریکہ ایران کو شکست دے پائیگا۔؟؟
مولانا عاصم مخدوم:
مسلمانوں کے اختلافات سے ہی دشمن  ہمارے اوپر سوار ہوا ہے۔ اسلام دشمن قوتیں ہر جگہ سے ناکام و نامراد ہونگی۔ ایران کو شکست دینا آسان نہیں، ایران کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، پھر جس کی درس گاہ کربلا ہو، اسے موت سے کیسے ڈرایا جا سکتا ہے۔ ایران نے کربلا سے درس حمیت لیا ہے۔
کٹ کے چڑھ جائے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیت کی اطاعت نہ کر قبول

تو ایران کبھی بھی یزید وقت کی اطاعت قبول نہیں کرے گا، ڈٹا رہے گا اور دشمن کو اپنے منہ کی کھانا پڑے گی۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ میں بدامنی کیوجہ کیا امریکہ کی موجودگی ہے۔؟؟
مولانا عاصم مخدوم:
جی ہاں ایسا ہی ہے، لیکن سب سے بڑی وجہ ہماری نااتفاقی ہے۔ امت بکھری ہوئی ہے، ملک بکھرے ہوئے ہیں۔ آپ پاکستان میں ہی دیکھ لیں ہر فرقہ الگ الگ راستے پر ہے، تو جب ہم خود جدا جدا ہیں تو امریکہ کو کیا کہیں۔ جب ہم بیدار ہوگئے تو امریکہ کی سازشیں بھی ناکام ہو جائیں گے۔ اگر امریکہ کوئی تخریبی سرگرمی کرتا ہے تو استعمال کون ہوتے ہیں، ہم ہی نا، تو جب ہم میں شعور بیدار ہوگیا تو ہم امریکہ کی سازش کا شکار نہیں ہوں گے۔ ہمیں خود سوچنا ہوگا۔ تمام مسلم ممالک کو مل کر چلنا ہوگا۔ او آئی سی کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب تک ہم خود اپنی حالت نہیں بدلیں گے، اللہ ہماری حالت نہیں بدلے گا۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کا ریاست مدینہ کا نعرہ، کیا محض نعرہ ہی ہے یا آپ نظام میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔؟؟
مولانا عاصم مخدوم:
ابھی تک تو نعرہ ہی ہے۔ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن اثرات نظر نہیں آرہے۔ اپنے پہلے سو دنوں میں تو کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی، آگے چل کر کیا کرتے ہیں، یہ دیکھ رہے ہیں۔ ہمیشہ مثبت سوچ رکھنی چاہیے، ہم نے بھی حکومت سے مثبت سوچ رکھی ہوئی ہے اور پُرامید ہیں کہ ملک میں حقیقی تبدیلی آئے گی، جس مقصد کیلئے پاکستان بنا ہے، یہ حکومت اسے اس مقصد کی جانب لے کر جائے گی اور اگر حکومت انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدے پورے نہیں کرتی تو آئندہ الیکشن میں عوام حساب چکا دیں گے۔ خاطر جمع رکھیئے، عوام اور تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف کی حکومت کی خارجہ پالیسی کامیاب رہیگی۔؟؟
مولانا عاصم مخدوم:
ہمارے ہاں خارجہ پالیسی حکومتوں کی ہوتی ہے، کسی پارٹی کی نہیں۔ تحریک انصاف نے اپنی حکومت میں کونسی خارجہ پالیسی تبدیل کی ہے۔؟ جس پر ہم یہ کہیں کامیاب ہوگی یا ناکام۔ یہ حکومت کے کام ہیں، ہر حکومت جانتی ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کیسی ہو، ظاہر ہے ہر جماعت پاکستانی جماعت ہی ہے، اس لئے وہ خارجہ محاذ پر ملک کی بہتری کیلئے ہی پالیسی دے گی۔ بہرحال ہمیں موجودہ حکومت سے بھی بہتری کی ہی توقع ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو یمن کے معاملے میں سعودی عرب کا ساتھ دینا چاہئے۔؟؟
مولانا عاصم مخدوم:
پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ دونوں مسلمان ممالک ہیں اور پہلے دن سے پاکستان کی یہ پالیسی ہے کہ اگر کوئی دو مسلمان ملک آپس میں لڑیں گے تو پاکستان غیر جانبدار رہے گا۔ اس لئے پاکستان غیر جانبدار رہتے ہوئے ثالثی کا کردار ادا کرے۔ پاکستان ویسے قائم ہی امت کی رہنمائی کیلئے ہوا تھا اور اگر دیکھا جائے تو پوری امت مسلمہ کی کوئی موثر قیادت موجود نہیں، اس لئے پاکستان ہی یہ کردار ادا کرسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 773159
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش