0
Thursday 28 Jul 2011 15:52

اگر بین الاقوامی سطح پر تشکیل دئیے جانے والے ایک خطرناک قانون کی زد سے اپنے ملک کو بچانا ہے تو اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا، ایس ایم ظفر

اگر بین الاقوامی سطح پر تشکیل دئیے جانے والے ایک خطرناک قانون کی زد سے اپنے ملک کو بچانا ہے تو اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا، ایس ایم ظفر
سید محمد ظفر جو ایس ایم ظفر کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، سابق وزیر قانون اور ملک کے ممتاز قانون دان ہیں، جن کا کردار متعدد حکومتوں میں نہایت کلیدی رہا ہے۔ اس وقت بھی وہ سینیٹ کے ممبر اور ق لیگ کے مرکزی رہنما ہیں۔ گذشتہ روز ان کے ساتھ اسلام ٹائمز نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا۔ بڑے پرسکو ن ماحول میں نہایت اہم گفتگو ہوئی، جس میں وہ نکات اٹھائے گئے ہیں جن سے بہت کم قارئین آگاہ ہوں گے۔ یہ چشم کشا حقائق پہلی بار اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے پیش کئے جا رہے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز:اپنے ابتدائی حالات اور خاندانی پس منظر سے قارئین اسلام ٹائمز کو آگاہ فرمائیے؟
ایس ایم ظفر:میری پیدائش پاکستان سے دُور شہر رنگون میں ہوئی جو ملک برما کا دارالحکومت تھا۔ وہاں میرے والدین اُس دَور میں روزی کی تلاش میں وہاں پہنچے تھے اور انہوں نے وہاں اپنا ایک مقام بنایا۔ میرا تعلق دِینی میلان رکھنے والے خاندان سے ہے۔ والد صاحب کا نام سید محمد اشرف کشفی شاہ نظامی ہے۔ وہ خواجہ حسن نظامی رہ کے مرید بلکہ خلیفہ تھے اور یہ لفظ کشفی شاہ خواجہ حسن نظامی نے ان کو بطور لقب کے دِیا تھا۔ والد صاحب نے ایک سیرت کمیٹی بنائی تھی جس کا واحد مقصد عید میلادالنبی ص کو خوشیوں اور شان سے منانا تھا اور یہ اُس مشن پر اس وقت تک قائم رہے، جب تک ان کی زندگی رہی، بلکہ جس دِن حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ عید میلادالنبی ص سرکاری سطح پر منائی جائے گی، اُس کے چند دن بعد والد صاحب وفات پا گئے۔ شروعات کی تعلیم رنگون میں حاصل کی اور جب جنگ عظیم دوئم میں جاپان نے سنگاپور فتح کر لینے کے بعد برما پر حملہ کیا تو ہمارا خاندان واپس آ گیا۔ بقایا تعلیم مَیں نے پاکستان کے ایک دیہاتی سکول ”غلام دِین ہائی سکول“ میں حاصل کی، جو شکرگڑھ کے قصبہ مینگڑی میں واقع ہے۔ میٹرک کا اِمتحان دیا اور اپنے بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ وظیفہ بھی حاصل ہُوا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 
گونمنٹ کالج سے بی اے کرنے کے بعد لاء کالج سے ایل ایل بی کیا۔ گورنمنٹ کالج میں سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری جنرل بنا۔ ڈیبیٹس میں حصہ لیا کرتا تھا۔ لاء کالج میں بھی یہ مشاغل جاری رہے۔ 1951ء سے 1965ء تک وکالت کرتا رہا۔ 1965ء کے اُس پہلے دَور میں پنجاب بار کونسل کا ممبر منتخب ہُوا۔ 1965ء ہی میں وزارتِ قانون کا عہدہ ایوب خاں صاحب کی جانب سے مجھے مِلا اور مَیں اُن کی کابینہ میں شامل ہو گیا۔
اِسلام ٹائمز: قانون دان بننے کا فیصلہ آپ کا اپنا تھا یا بزرگوں کے مشورے سے اس جانب مائیل ہُوئے؟
ایس ایم ظفر: والد صاحب کی خواہش ضرور تھی کہ مَیں اِنجینئرنگ کروں اور اِنجینئرنگ کالج میں مَیں نے داخلہ بھی لے لیا تھا، لیکن پھر اپنے طور پر فیصلہ کیا کہ مَیں اِنجینئر نہیں بننا چاہتا، مجھے وکالت کا پیشہ پسند ہے، چنانچہ اِنجینئرنگ کالج سے مَیں نے داخلہ واپس لے کر گونمنٹ کالج لاہور میں دوبارہ داخلہ لے لیا.... تو اِس لحاظ سے یہ میرا اپنا فیصلہ تھا۔ بعد میں جب والد صاحب کو پتہ چلا تو اُنہوں نے اشیرباد دی۔
اِسلام ٹائمز: 1958ء کے مارشل لاء کا پس منظر کیا تھا، کچھ تفصیلات سے آگاہ فرمائیں۔؟
ایس ایم ظفر: 1958ء کے مارشل لاء کے وقت مَیں صرف وکالت کر رہا تھا۔ 1952ء سے میری وکالت کو چھ سال ہی ہُوئے تھے۔ 1956ء کے آئین کے تحت جو پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی اُس کی وزارتیں یکے بعد دیگرے گر رہی تھیں۔ 1956ء سے 1958ء تک سات کابینائیں ڈِس مِس ہُوئیں اور آخری دِنوں میں تو ہفتوں کے اندر کابینہ فارغ ہو جاتی تھی۔ پارلیمنٹ میں اِس قسم کی دَوڑ اور ریس کی وجہ سے مُلک کی بڑی بدنامی ہو رہی تھی۔ مُلک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتِ حال بڑی خراب تھی، اُس کو سامنے رکھتے ہُوئے سکندر مرزا نے یہ مارشل لاء لگایا تھا اور ہم سب کو بڑا افسوس ہُوا کیونکہ ہم اُس وقت وکالت کر رہے تھے۔ وکیلوں کو مارشل لاء پسند نہیں آتا۔ 1958ء میں مارشل لاء لگا تو ایک نوجوان کا نام اُبھر کر سامنے آیا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔
اِسلام ٹائمز:ایوب خاں کا دَورِ حکومت بحیثیت ِ مجموعی کیسا تھا؟ کیا جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں اُسے ایک مثالی عہد قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کے اِمتیازات اور خوبیوں کے حوالے سے آپ آگاہ فرمائیں۔؟
ایس ایم ظفر: مَیں آپ کو یہ بتاتا ہُوں کہ 1965ء میں میرا تعلق (اُس مارشل لائی حکومت سے) کیسے قائم ہُوا۔ 1965ء کا زمانہ وہ ہے جب ایک باقاعدہ قانون مُلک میں نافذ ہو چکا تھا۔ 1958ء سے لے کر 196ء تک مارشل لاء کا زمانہ تھا۔ 1962ء کے بعد ایک آئین بنا۔ 1962ء سے 1965ء تک کے اُس دَور میں اِنسانی حقوق نہیں تھے، سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اِجازت نہیں تھی۔ 1965ء میں آئین میں تبدیلی آئی اور اِنسانی حقوق کے باقاعدہ ایک باب کا اضافہ ہُوا اور سیاسی جماعتوں کو اِنتخابات لڑنے کی اِجازت مِلی اور جب بہت ساری سیاسی جماعتیں اِنتخابات لڑ کر قومی اسمبلی میں آ گئیں۔ 1965ء میں اِس نئے آئین کے ماتحت پولیٹکل پارٹیز کی موجودگی میں ایک باقاعدہ فعال اسمبلی میں مَیں کابینہ کا حصہ بنا۔ ایوب خاں کا دَور اِقتصادی حوالے سے ایک نہایت درخشاں دَور تھا۔ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی ایوب خاں کے وِژن کا حصہ تھی۔ وہ جمہوری ذہن تو زیادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن اُس دَور میں مُلک کو آگے لے جانے کے اصول ضرور تھے، یعنی گڈ گورننس میں اُن کا بڑا دھیان تھا، چنانچہ اُنہی کے زمانے میں ہمارے دو بڑے بڑے ڈیم بنے، تربیلا ڈیم اور وارسک ڈیم ۔ اِسلام آباد مکمل ہُوا، مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ بے حد اچھا شہر بنا دیا گیا، اِنڈسٹری اِس قدر تیزی سے آگے بڑھی کہ اُس وقت کے اکنامک دانشوروں اور ایکسپرٹس کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور جاپان کے درمیان ایک نیا اقتصادی ستارہ اُبھر رہا ہے۔ یہاں تک کہ کوریا کے لوگ پاکستان تشریف لائے اور اُنہوں نے ہم سے ہمارا ”فائیو ایئر پلان“ مستعار لیا۔ مَیں ابھی پچھلے مہینے کوریا گیا تھا ، کوریا ترقی کر کے بہت آگے جا چکا ہے، لیکن اُن کے لیڈروں سے اب جو ملاقات ہُوئی تو اُنہوں نے برملا کہا کہ ہم آپ کے دِیے ہُوئے پلان پر عمل کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ تھا وہ پاکستان کہ جس میں ہم کو کہیں ویزہ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی!....
اِسلام ٹائمز:لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں ایوب خاں کا بھی رول تھا، اس میں کہاں تک صداقت ہے۔؟
ایس ایم ظفر: دیکھیں، بات یہ ہے کہ پاکستان کو دو لخت کرنے کے اِتنے بڑے المیے میں کسی ایک شخص کو موردِ اِلزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جو مُلک ایک رُوح پرور تحریک کے ذریعے بنایا گیا، جس کا ایک بڑا تصور تھا، اس کو توڑنا ایک آدمی کا کام نہیں تھا۔ یہ ہماری ایک عادت سی بن گئی ہے کہ جب کوئی چلا جائے تو ہم ڈنڈے لے کر اُس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ آپ نے اگر معلوم کرنا ہو کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ کیوں ہُوا تو آپ کو تاریخ کی بہت ساری گہرائیوں میں جانا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو آپ سٹارٹ کیجئے کہ 1947ء سے 1956ء تک آئین کیوں نہیں بنا؟ جب مُلک 9 سال بے آئین رہے اور اُس کے اندر من مانی جاری ہو اور جو لوگ 1946ء میں منتخب ہُوئے تھے، وہی مُلک میں بغیر اِنتخابات کرائے حکومت کرتے رہیں تو اندازہ کیجیے کہ اس سے کتنی خرابیاں آ جاتی ہیں؟ پھر 1956ء میں ہم نے جو آئین بنایا، اُس آئین میں بھی مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے جراثیم موجود تھے۔ سب سے پہلا جرم تو ہم نے یہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی کو مغربی پاکستان کے برابر کر دیا، کیونکہ اُن کی آبادی ہم سے زیادہ تھی۔ ون مَین ون ووٹ کے جمہوری اصول کو ہم نے توڑ دیا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہُوا کہ کیا مقابلتاً مغربی پاکستان کے افراد میں ہمارے افراد کا تناسب کم ہے۔؟ اس احساس نے اُن میں احساسِ کمتری کو جنم دیا، ایک کمپلیکس پیدا کیا۔ پھر 1956ء کے آئین میں ہم نے سینیٹ نہیں بنائی اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ مشرقی پاکستان کو ایک صوبہ بنا دیا۔ فیڈریشن کی جتنی تعریفیں اور تصریحات لوگوں نے اب تک کی ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ جو فیڈریشن دو یونٹ پر بنایا جائے وہ پچھتر فیصدی فیل ہو جاتا ہے۔ ہم نے پانچ یونٹ سے دو یونٹ اپنے آپ بنا دیے۔ پانچ یونٹ اگر رہتے تو ہم شاید کچھ اور عرصہ چل جاتے۔ وہ تمام معاملات جس سے مُلک کے علیحدہ ہونے کا اندیشہ ہو، اس عمل سے پیدا کر دیے گئے.... لیکن پھر بھی مُلک علیحدہ نہ ہوتا۔ 
جب 1965ء کی جنگ ہُوئی تو اُس وقت ہماری جو یہ منطق تھی کہ ہم مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کریں گے، وہ ٹوٹ گئی۔ مشرقی پاکستان میں جب ہندوستان کے جہاز آتے تھے، تو وہاں ہمارے پاس دفاع کے لئے کچھ نہ تھا، اور جب مَیں مشرقی پاکستان قومی اسمبلی میں گیا تو وہاں کے لیڈروں نے مجھ سے بحیثیت وزیرِ قانون یہ سوال کیا کہ آپ نے ہم کو بھارتیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی میں ان سوالات کا یہ جواب دیا کہ ہم نے مشرقی پاکستان کی حفاظت چین کے بیانات کی صورت میں سفارتی ذرائع سے کی تھی تو مشرقی پاکستان میں وہ لہر اُٹھی، جس میں اُنہوں نے کہا کہ اگر ہم سفارت کاری کی وجہ سے بچے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم آئندہ نہیں بچ سکتے۔ اور پھر اُس موقع پر مجیب الرحمٰن کے ہندوستان جانے اور مجیب الرحمٰن سازش کیس کا واقعہ رونما ہُوا۔ 1965ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کی قیادت او لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ ہماری حفاظت کا تو پاکستانی ریاست میں کوئی اِنتظام ہی نہیں ہے، اگر بھارت ہم پر حملہ کرے تو ہمارے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ ہے ہی نہیں ہے، تو وہاں 1965ء کی جنگ کے بعد ان میں سوچ پیدا ہوئی۔ مَیں بتا رہا ہوں کہ مُلک اب بھی نہ ٹوٹتا۔ ایک آدمی کی وجہ سے ملک نہیں ٹوٹا۔ پھر جب یحییٰ خان نے انتخابات کرائے تو قومی اسمبلی میں اکثریت مجیب الرحمان کی تھی ۔مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان آئین بنانے پر سمجھوتہ نہ ہوا۔ بھٹو صاحب نے اعلان کیا کہ جو مشرقی پاکستان جائے گا، وہ ایک جانب کا ٹکٹ لے کے جائے گا۔ آئین بھی نہ بن سکا اور مجیب الرحمان کو پرائم منسٹر بھی نہ بنایا گیا۔ انتخابات کے نتائج نہ مانے گئے اور پھر مشرقی پاکستان کے لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب ہمارا ان کے ساتھ رہنا ناممکن ہے۔ مَیں پھر کہوں گا کہ مُلک پھر بھی نہ ٹوٹتا، اگر بھارت اپنی پوری عیاری کے ساتھ مداخلت نہ کرتا، رُوس اس کی مدد نہ کرتا اور امریکہ ہمارے ساتھ دغا نہ کرتا۔ اتنے سارے عوامل کو آپ ایک آدمی پر کیسے ڈال سکتے ہیں۔
اِسلام ٹائمز:کہا یہ بھی جاتا ہے کہ خارجہ پالیسی کی ناکامیوں میں ایک اہم عامل ہمارا امریکہ کے بہت قریب چلے جانا بھی تھا، جب سب سے پہلا امریکی دَورہ وزیرِاعظم لیاقت علی خاں نے 1952ء میں فرمایا۔ کیا یہ ایک عظیم تاریخی چُوک نہ تھی، جس کا خمیازہ امریکی شکنجے میں پُوری طرح جکڑے جانے کی صورت میں آج ہم بھگت رہے ہیں۔؟
ایس ایم ظفر: مَیں اِس سے متفق نہیں ہوں۔ لیاقت علی خان کا امریکہ جانا بالکل درست تھا۔ یہ دنیا جو دو کیمپوں میں تقسیم تھی، ان میں ایک امریکہ تھا اور دوسرا روس۔ لیاقت علی خان کو اُن میں سے کسی ایک کو چُننا پڑ رہا تھا۔ رُوس میں اِشتراکیت تھی جبکہ خدا پہ اعتقاد اُن کے ڈالر پہ لکھا ہوتا تھا۔ (اِس موقع پر جناب ایس ایم ظفر، نمائندہ اِسلام ٹائمز سے مسکراتے ہوئے مخاطب ہُوئے) تو بتائیے کہ آپ اپنی اس شرعی داڑھی کے ساتھ کس کے حق میں فیصلہ کرتے۔؟
رُوس اور ہندوستان کی نزدیکی پاکستان اور ہندوستان کی آزادی سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ نہرو اور اُس کی بہن کا ماسکو کے ساتھ بڑا اور واضح تعلق تھا۔ ہماری Intelligence کو اور ہمارے لوگوں کو کا خیال تھا کہ اگر بھارت کی روس کے ساتھ نزدیکی ہے تو بھارت کی ہمارے ساتھ ُدشمنی کی بناء پر ہمار ے پاس کوئی Choice نہیں تھا، سوائے اس کے کہ ہم امریکہ کے قریب جاتے۔ لیکن امریکہ کے قریب جانا غلط نہیں تھا، اس کے بعد امریکہ سے صحیح طریقے سے استفادہ نہ کرنا اور ملنے والے فائدے کو ضائع کر دینا ہمارا اصل قصور تھا۔ آج ہم جو امریکی شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں تو یہ سب ہماری اپنی پیدا کردہ خرایباں اور اپنی بدعنوانیوں اور مفاد پرستی کی وجہ سے ہے۔ امریکہ نے ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہم نے اپنے آپ کو خود پہنچایا ہے۔
اِسلام ٹائمز:گزشتہ دِنوں ایران نے اپنی ایٹمی تنصیبات کی جاسوسی کے لئے آنے والے ایک امریکی ڈرون کو مار گرایا، جبکہ ہم ہیں کہ ایک طویل عرصے سے اپنی سرزمین کو امریکیوں کی چراگاہ بنا رکھا ہے، یہ پالیسی کیا قومی مفادات کے ساتھ غداری کے زُمرے میں نہیں آتی۔؟
ایس ایم ظفر :دیکھیں جی، غداری کا لفظ تو بہت سخت ہے، لیکن فی الحقیقت یہ قوم کی غیرت کے خلاف تو بہرحال ہے۔ ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ یہ ڈرون اٹیک ہماری مرضی سے ہوتے ہیں یا ہماری مرضی کے خلاف ہوتے ہیں۔ اگر ہماری مرضی سے ہوتے ہیں تو پھر نہ غیرت کا مسئلہ ہے نہ غداری کا۔ اور اگر یہ ہماری حکومت کی مرضی سے نہیں ہو رہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہو رہے ہیں۔ اس کے لئے میں بہت ہی مشکل سی زمین پر بحث کرنے لگا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آج کل بین الاقوامی طور ایک نیا بین الاقوامی اصول طے کیا جا رہا ہے، وہ بڑا خطرناک اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ بلاشک و شبہ کسی ملک کی سالمیت اور اس کی حدود پر کوئی دوسرا ملک حملہ نہیں کر سکتا، البتہ ڈرون اٹیک سے یا فوجی بھیج کر اس مسلمہ اصول میں ایک استثنیٰ شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ یہ کہ اگر کسی ملک کا اپنے علاقے پر کنٹرول ختم ہو گیا ہو، اس کی اپنی رِٹ نہ چلتی ہو، اور رِٹ نہ چلنے کے کچھ ثبوت انہوں نے اپنے طور پر طے کر لئے ہیں کہ وہاں اس کے ریونیو آفیسرز کام نہ کر سکتے ہوں، وہاں اس ملک کی عدلیہ نہ جاسکتی ہو اور ان کی فوج وہاں مقابلہ کرنے کے لئے جاتی ہو، امن کی حالت میں ایک کنٹونمنٹ کے طور پر نہ بیٹھ سکتی ہو، وہاں ان کا علاقے کا اپنا نظام چلتا ہو، تو پھر اس علاقے کو باوجود اس کے کہ وہ اس ریاست کا حصہ تو ہو، تاہم ریاستی رِٹ نہ ہونے کے باعث دوسرے کسی ملک کو خطرہ ہو اور جس سے اس کا امن و امان بگڑ سکتا ہے، تو وہ اس علاقے پر کاروائی کر سکتا ہے اور وہ کاروائی مداخلت نہیں گنی جائے گی۔
اِسلام ٹائمز:پھر تو انڈیا کے لئے بھی یہ جواز موجود ہو گا کہ اپنے تحفظ کے لئے وہ ہم پر حملہ آور ہو سکتا ہے ....؟
ایس ایم ظفر:اس حوالے سے میں نے کہا ناں کہ یہ ایک خطرناک طرزِ عمل ہے، جس سے ایک استثنٰی پیدا کیا جا رہا ہے۔ اگر اقوامِ متحدہ میں اس استثنی کو ہم نے روکنا ہے تو اس سے زیادہ اہم بات ہے کہ اپنے علاقوں میں رٹ قائم کریں یعنی اپنے گھر کو درست کریں۔
اسلام ٹائمز:برسوں قبل آپ ”تذکرے اور جائزے“ کے عنوان سے ایک کثیرالاشاعت روزنامے میں بڑے ہی خیال افروز اور حقائق کشا کالم لکھا کرتے تھے، اب آپ نے لکھنا ترک کر دیا ہے جو اپنے قارئین کو فکری رہنمائی سے محروم کر دینے کے مترادف ہے، ایسا کیوں ہُوا۔؟
ایس ایم ظفر:سوال کا بہت شکریہ!.... آپ نے جو بات کہی ہے مَیں بھی اس کو بڑا محسوس کر رہا ہوں اور مجھے بھی اچھا نہیں لگ رہا کہ میں کالم نہیں لکھ رہا، لیکن اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب مَیں نے سینیٹ کا الیکشن لڑا تو توجہ اس جانب چلی گئی، مصروفیات بڑھ گئیں اور موقع نہیں مل سکا۔ اب پھر ارادہ کر رہا ہوں۔ اس سے پہلے ایک کتاب زیر تصنیف ہے جب وہ مکمل ہو جائے تو اس کے بعد کالم لکھنے کا کام کروں گا۔
اسلام ٹائمز:ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف عالمی عدالت میں ایٹمی راز چرانے کے اِلزام میں جو مقدمہ دائر کِیا گیا تھا، آپ نے اس کا کامیاب دِفاع کِیا تھا، یہ کہانی ہم آپ کی زبانی سننا چاہتے ہیں۔؟ ایس ایم ظفر:اس کہانی کا مَیں نے اپنی ایک کتاب ”میرے مشہور مقدمے“ میں تفصیلاً ذکر کیا ہے، جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پوری داستان بیان کر دی ہے۔ آپ نے پوچھا ہے تو اسلام ٹائمز کے قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض کئے دیتا ہوں۔ ڈاکٹر قدیر خان صاحب یہاں ہمارے کہوٹہ میں کام کر رہے تھے کہ اچانک ان کو ایک وارنٹ ہالینڈ کی طرف سے جاری ہوا کہ آپ نے ایک خط لکھ کر کوئی راز معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ خط برسوں پہلے کا تھا، جو انہوں نے اپنے کسی دوست کو لکھا تھا۔ اس میں جو بات کہی گئی تھی وہ نیوکلیئر رازوں میں گنی جاتی تھی کہ جو یہ راز دریافت کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے۔ ان کو نوٹس یہاں آیا۔ ہماری حکومت نے اس کا جواب نہیں دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں یکطرفہ طور پر ان کی غیر حاضری میں چار سال کی سزا سنا دی گئی، جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ یہ ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو دنیا کو تباہی کی جانب لے جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا۔ اب تک ہمیں مقدمے کے کوائف معلوم نہیں تھے۔ مَیں نے مقدمہ لڑنے کی حامی بھر لی، مگر اُس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے مجھے وکیل ماننے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ضیاءالحق صاحب کو ایک خط لکھ دیا کہ مَیں تو ایس ایم ظفر ہی کو وکیل کروں گا اور اگر آپ نہ مانے تو مَیں دوبئی جا کے بیٹھ جاﺅں گا، اپنا وکیل اپنے پیسوں سے کر لوں گا۔ اس طرح یہ معمہ حل ہوا۔ مقدمے کی بہت سی پیچیدگیاں تھیں اور سب سے بڑی پیچیدگی یہ تھی کہ ہم نے اپنے دفاع میں اپیل کرنا تھی کیونکہ ہمارے خلاف فیصلہ ہو چکا تھا، سزا کا۔ اپیل کے لئے مروّجہ قانون ساری دنیا میں یہی ہے کہ جس کو سزا ہو، وہی عدالت میں پیش ہو کر اپیل داخل کرے، اس کے بغیر اپیل داخل نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر قدیر خان یہاں بڑے اہم معاملات میں مصروف تھے۔ اگر ہم ان کو وہاں لے جاتے تو وہ ان کو جیل میں ڈال دیتے۔ اس کا حل نکالنا بہت مشکل کام تھا لیکن ہمیں اس کا حل مل گیا۔ وہ یہ کہ روم کنونشن کے مطابق اگر کسی ملزم کو سزا ہو گئی ہو اور عدالت میں پیش ہونے میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو کہ جتنی اسے سزا ہوئی ہے اس سے بڑھ کر اسے نقصان کا احتمال ہو تو پھر اس صورت میں اس کی اپیل اس کی غیر حاضری میں سن لینی چاہیے۔ ڈاکٹر قدیر خان کو جس ملازمت میں یہاں رکھا گیا تھا وہ Essential services کہلاتی ہیں۔ ان سروسز کا ایک قانون ہے کہ ان سروسز پر تعینات کوئی شخص ملک چھوڑ کر باہر چلا جائے تو اسے سات سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ تو اس طرح ہماری اپیل سنی گئی اور ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔
اسلام ٹائمز:جناب بھٹو کے عدالتی قتل کو موجودہ سپریم کورٹ کے روبرو رکھا گیا ہے، اس ضمن میں آپکی رائے کیا ہے اور نتائج کیا ہوں گے۔؟
ایس ایم ظفر:مجھے عدالت نے بطور معاون بلایا ہے اور میں نے اپنی رائے مفصل لکھ کر دی ہے۔ جس میں، میں نے کہا ہے کہ بلاشک و شبہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں تعصب موجود تھا لیکن اسکا راستہ درست کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے پاس جانے کی بجائے ایک علیحدہ قانون بنانا چاہیے۔ میں نے دنیا کی بہت ساری مثالیں دی ہیں۔ مثلاً یو کے، ناروے، اسٹریلیا اور کینیڈا کی پارلیمنٹس نے Mis-carriage of justice یعنی عدالت سے ناانصافی ہو جائے اور بہت عرصہ گزر جائے اور معلوم ہو کہ ناانصافی ہو گئی ہے تو مقدمے کو ازسر نو دیکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کا قانون بنائیں تاکہ نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی کو فائدہ پہنچے بلکہ دوسرے لوگ بھی اس قانون سے مستفید ہو سکیں۔
اسلام ٹائمز:امریکی مجرم ریمنڈ ڈیوس کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر چھوڑ دینا، کیا ہماری قومی توہین نہ تھی، اس کے پس پردہ کس کس کا کردار تھا جبکہ عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے 87 سال سزائے قید سنا دی، جس پر عمل بھی کیا جا رہا ہے۔؟
ایس ایم ظفر:عافیہ صدیقی کے لئے بھی میں نے بہت کوشش کی تھی۔ میں نے ان سے ملاقات بھی کی جا کر۔ عافیہ صدیقی کے معاملے میں بدقسمتی سے ایک مقدمہ انہوں نے اپنی جیوری کے سامنے پیش کر دیا تھا اور جیوری بھی وہ جو سفید لوگوں پر مشتمل تھی اور آپکو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امریکی اپنے فوجیوں کی تذلیل نہیں کرتے، چنانچہ بطور گواہ اس میں سارے فوجی تھے۔ انہوں نے عافیہ کے ساتھ زیادتی کی اور اپنے فوجی گواہان کا احترام کیا اور عافیہ کو سزاد ے دی۔ یہ تو امریکہ نے کیا، جبکہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ہم ان الجھنوں میں پڑے رہے کہ وہ Diplomat ہے یا نہیں ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہ ہمارے ملک کی دو بڑی حکومتیں صوبہ پنجاب اور وفاق They were not on the same page ایک جس نے گرفتار کرنا ہے اور دوسرا جس نے اسکی Immunity کا فیصلہ کرنا ہے، ایک طرح سے نہ سوچیں تو نتیجہ وہی ہوتا ہے، جو ریمنڈ ڈیوس کا ہوا ہے۔ آپ اسے غیرت کا نقصان کہیں یا اپنے ملک کی بدانتظامی کا ایک مظہر، کہیں دونوں باتیں درست ہوں گی۔
خبر کا کوڈ : 87777
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش