0
Sunday 8 Nov 2009 16:34
مائیکل لیڈن کا اعتراف:

ایران کی علاقائی سیاست کے مقابلے میں امریکا کی بے بسی

ایران کی علاقائی سیاست کے مقابلے میں امریکا کی بے بسی
امریکی شدت پسند نومحافظہ کار مائیکل لیڈن جو ملک کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں ٹیکنوکریٹ بھی ہے، نے خطے میں ایران کی موثر موجودگی، امریکی فوج کی عراق اور افغانستان کی ناگوار صورتحال سے باہر نکلنے میں ناکامی اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی سیاست کے مقابلے میں امریکا کی ناتوانی کا اعتراف کیا ہے۔ لیڈن نے "ویکلی سٹینڈرڈ" نامی مجلے میں چھپنے والے اپنے مقالے میں لکھا ہے: "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم عراق یا افغانستان میں کتنے اچھے انداز میں کام کریں یا کتنے اہم اہداف کو نشانہ بنائیں بلکہ ہم جب تک ایران پر
قبضہ نہیں کریں گے ہر نئی جگہ پر نئی انٹی رزسٹنس پالیسی بنانے پر مجبور ہوں گے"۔ مصنف جو خطے میں ایران کے موثر کردار پر اپنے غصے کو ظاہر ہونے سے نہیں چھپا سکا لکھتا ہے: "تہران میں حاکم رژیم کے سقوط کے بغیر کوئی اور چیز افغانستان کے خراب حالات کو بہتر بنانے میں مدد نہیں کر سکتی۔ ہم ایک بڑی جنگ میں مصروف ہیں اور ایران دشمن فوج کے مرکز میں ہے"۔ لیڈن ڈرے ہوئے انداز میں امریکی حکومت کے ساتھ ایران کی مخالفت کی شدت کے بارے میں کہتا ہے: "امریکا مردہ باد کا مشہور و معروف نعرہ صرف اندرون ملک استعمال کیلئے نہیں ہے بلکہ ایران
کی خارجہ پالیسی کے مرکزی ڈھانچے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایران کے علماء اس وقت امریکا کے خلاف موجود شام، روس، اریٹیریا، چین، کیوبا، وینزوئلا، نیکاراگوئے، بولیویا اور حزب اللہ لبنان، حماس اور جہاد اسلامی جیسی تنظیموں پر مشتمل بین الاقوامی محاذ کے ایک حصے کی رہنمائی کر رہے ہیں"۔ امریکا کے خارجہ تعلقات کمیٹی کے اس ٹیکنوکریٹ نے ایران کے بارے میں امریکی حکام کی کارکردگی پر اپنی ناراضگی کو بھی واضح نہیں کیا اور ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں امریکہ کی پالیسیوں کی ناکامیوں پر روشنی ڈالی۔ اس
نے اس بارے میں اعتراف کرتے ہوئے لکھا: "بدقسمتی سے ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح سے لے کر آج تک کوئی بھی امریکی صدر ایران کے ساتھ جنگ کے خطرے کو مول لینے پر تیار نہیں ہوا۔ اکثر اوقات ہمارے رہنما اس حقیقت کو ماننے سے انکار کرتے رہے ہیں کہ ایران ہماری نابودی اور ہم پر قبضے کی ہر ممکن کوشش کرسکتا ہے"۔ لیڈن آگے چل کر امریکی حکام کو ایران کے اندر قانون گریز عناصر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعلقات بنانے کی نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: "مخالف سیاسی رہنما میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے یہ وعدہ دیا ہے کہ ایران کی طرف سے ٹروریزم کی
مدد کو خاتمہ دیں گے اور بین الاقوامی انسپکٹرز کو ایران کی تمام جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دیں گے لیکن ہمارے حکام نے انکے ساتھ تعاون اور انکی مدد کرنے میں کوتاہی کی ہے"۔ البتہ لیڈن کی طرف سے امریکی حکام سے یہ شکوے کرنے میں بین الاقوامی سطح پر ایران کی اپنے نیوکلئر حقوق کے حصول میں کامیابی اور اسکے مقابلے میں امریکا کی طرف سے ایران کو نیوکلئر ٹیکنولوجی کے حصول سے روکنے میں ناکامی نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ مصنف جس نے اوباما کو امن کا نوبل پرائز دیئے جانے پر بھی اعتراض کیا ہے اس مضمون میں لکھتا ہے: "امریکی
صدر امریکا اور یورپ میں موجود آزاد ایرانی ریڈیو اور ٹی وی چینلز کی مزید مدد کر کے اور وہاں پر موجود انٹرنیٹ کے فلٹرز کو توڑنے کے سافٹ ویئرز کی زیادہ حمایت کر کے امن کا نوبل انعام جیت سکتا تھا"۔ لیڈن نے مزید لکھا: "ان تمام کاموں میں سے کوئی ایک بھی انجام دینا زیادہ مشکل نہیں ہے اور ایٹمی پالیسی تبدیل کرنے کی غرض سے ایرانی علماء سے مذاکرات یا ایٹمی ایران کو مان لینے کی نسبت بہت ہی آسان ہے۔ یہ کام انجام دینا سٹریٹجک اور اخلاقی نکتہ نظر سے منطقی ہیں اور دنیا کو ایک اچھی اور بہتر جگہ میں تبدیل کر سکتے ہیں"۔
خبر کا کوڈ : 13835
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش