0
Tuesday 24 Apr 2012 15:34

سرائیکی صوبے کی حدود اور نام کا مسئلہ 2

سرائیکی صوبے کی حدود اور نام کا مسئلہ 2
تحریر:سید محمد ثقلین 

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک، صوبوں، علاقوں حتی کہ گائوں اور بستیوں کے نام بھی ان کی تہذیبی لسانی اور ثقافتی شناخت کے مطابق ہیں۔ ان ناموں میں ماسوا چند ایک کے مذہبی شناخت موجود نہیں، ان ممالک کے ناموں میں مذہبی شناخت کا کوئی حوالہ بھی نہیں، کچھ لوگ پاکستان کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ یہ اسلامی نام ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے، پاکستان نام کے خالق چوہدری رحمت علی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے پنجاب، افغان (یعنی شمالی مغرب سرحدی صوبہ) کشمیر اور سندھ کے ابتدائی حروف بلوچستان کے آخری تین حروف ت اور ن کو ملا کر لفظ پاکستان بنایا ہے۔
 
ان کی اس بات پر مشرقی پاکستان کے بنگالیوں بھائیوں نے کہا کہ اس میں باقی سب کو ساتھ ملا لیا گیا ہم کہاں گئے؟ چوہدری رحمت علی جواب نہ دے سکے، البتہ پاکستان نام کی جو وضاحت چوہدری صاحب نے کی کتابوں میں آج بھی وہی درج ہے۔ (بحوالہ جنرل نالج انسائیکلو پیڈیا، مصنف زاہد حسین انجم )۔ تو گویا یہ بنگالیوں سے چوہدری رحمت علی نے پہلی تفریق کر ڈالی جس نے آگے چل کر پاکستان کو دولخت کر دیا۔
 
خیر یہ الگ بحث ہے دراصل میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا نام بھی اسلامی نہیں بلکہ اسے ثقافتی بنایا گیا، کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ملکوں کی مثال نہ دیں صوبوں کی بات کریں تو اگر یہ بات میں نہ بھی کروں تو خود پاکستان میں سندھ، پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان موجود ہیں، ایک سوال کا جواب سرائیکی صوبے کے مخالفین بھی دیں کہ یہ تمام نام حلال اور سرائیکستان کس طرح حرام ہے؟ 

پنجاب کی لیڈر شپ اب بھی سرائیکی زبان کی الگ حیثیت تسلیم نہیں کر رہی، وہ کہتے ہیں کہ سرائیکی پنجابی کا لہجہ ہے، وہ سرائیکی خطے کو جنوبی پنجاب کا نام دیتے ہیں حالانکہ پہلے دی گئی مثالوں سے ظاہر ہے کہ سرائیکی خطہ جنوبی پنجاب نہیں ہے بلکہ خود پنجاب شمالی سرائیکستان ہے اور تاریخی اعتبار سے تحقیق کی جائے تو سرائیکی پنجابی کا لہجہ نہیں بلکہ پنجابی سرائیکی کا لہجہ ہے۔ اس کے ثبوت کے لئے سولہویں صدی کے بزرگ شاعر حضرت شاہ حسین المعروف مادھو لال لاہوری کے کلام کا مطالعہ کریں تو پوری صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔

ان حقائق کے باوجود اگر ہمارے بعض پنجابی دوست اب بھی نہ مانیں تو میں نہ مانوں کا علاج تو شاید حکیم لقمان کے پاس بھی نہ ہو، پنجابی زبان کے معروف لکھاری نقاد و ریسرچ سکالر محترم شفقت تنویر مرزا نے 31 جولائی 2011ء کی ڈان کی اشاعت میں بجا طور پر لکھا کہ مسلم پنجاب والوں کا لہندا ( سرائیکی ) سے ناطہ توڑ کر سکھوں کی دو آبی (پنجابی) سے تعلق جوڑنا غلط تھا، شفقت تنویر مرزا صاحب نے نواز شریف کے جاگ پنجابی جاگ کے نعرے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو باغی تخت لاہور دے جیسی کتابیں سامنے نہ آ تیں۔ 

پورے ملک میں سرائیکی صوبے کے حوالے سے جو بحث ہو رہی ہے اس میں سب سے اہم مسئلہ صوبے کے نام اور اس کی حدود کا ہے، سرائیکی صوبہ سرائیکی وسیب میں بننا ہے اور سرائیکی وسیب کے لوگوں کیلئے بننا ہے۔ سرائیکی صوبے کے دشمن اب ٹھیکیدار بن کر سامنے آ رہے ہیں، کوئی بہاولپور صوبہ کوئی ملتان صوبہ، اور اب تھل صوبہ والے بھی آ گئے، یہ سب تخت لاہور کے اشارے پر ایسا کر رہے ہیں، پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ اور مار کٹائی بھی ہو چکی ہے حالانکہ طے شدہ سرائیکی صوبے کا نام اور سرائیکی صوبے کی حدود کا نقشہ بھی موجود ہے۔ لیکن غاصب قوتوں کی نیت ٹھیک نہیں اس لئے روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ 

سرائیکی صوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ن لیگ بن کر سامنے آئی ہے، ن لیگ والے کہتے ہیں کہ لسانی بنیاد پر صوبہ نہیں بننے دیں گے، انتظامی صوبے کی بات کرو، جب ہم کہتے ہیں کہ پہلے سے موجود صوبے کیا ہیں؟ اس کا جواب نہیں دیا جاتا، ہم کہتے ہیں کہ تم نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے لسانی بنیاد پر خیبر پختونخوا کیوں رکھا؟ اس کا جواب نہیں دیا جاتا، ہم کہتے ہیں کہ سرائیکی پر تو قدغن لگائی جاتی ہے تو کیا پنجاب، سندھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا نام آپ تبدیل کرنے کیلئے تیار ہیں؟ اس کا بھی جواب نہین دیا جاتا۔
 
اس کا تو مطلب سیدھا سیدھا امتیازی سلوک ہے اور اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سرائیکیوں کو پاکستانی نہیں کمی اور شودر سمجھتے ہیں۔ اور آپ کا عمل صاف بتا رہا ہے کہ آپ نے سرائیکی وسیب کے لوگوں کو بنگالیوں سے بھی کمتر جان کر ان سے حقارت آمیز سلوک شروع کیا ہوا ہے، بنگالیوں کو حقوق نہ ملے یا ان کی قدم قدم پر توہین کی گئی لیکن ان کا صوبہ اور ان کی زبان بنگالی تو تسلیم شدہ تھی۔
 
یہاں معاملات الٹ ہیں میں کہتا ہوں کہ جن قوتوں کے ہاتھ میں طاقت اور اختیار کی بندوق ہے وہ تعصب اور لسانیت کا خود منبع ہیں اور سرائیکیوں کے جذبات کو قتل کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں ورنہ سرائیکی قوم کا کردار تو یہ ہے کہ اس نے وسیب میں آنیوالے تمام پناہ گزینوں چاہے ان کی زبان کوئی بھی تھی، اپنے سینے پر بٹھایا اپنے دل میں جگہ دی، رقبے اور جائیدادیں نہ جانے کیا کیا نہیں دیا۔ افسوس کہ آج وہ بھی اپنے وسیب کا ساتھ دینے کی بجائے قابض قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
 
ہمارے بھائی یہ بات بھی یاد رکھیں کہ یہ ملک ہماری سر زمین پر قائم ہے اسے کوئی اکھاڑ کر نہیں لایا اگر دھرتی زادوں کی قدم قدم پر توہین کاعمل جاری رہتا ہے تو پھر نفرتیں جنم لیتی ہیں اور جغرافیے بدل جاتے ہیں، پاکستان ہم نے بنایا ہم اس کے مالک ہیں، اس طرح کی فضول ٹھیکیداری ختم ہونی چاہئے، عجیب طرح کا اجارہ داری سسٹم ہے کہ یہاں محسنوں کو مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا ہے۔ 

کچھ عرصہ پہلے ن لیگ کے رہنماء ذوالفقار کھوسہ نے نیا انکشاف کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرائیکی قوم نہیں ایک زبان ہے، اب وہ کہتے ہیں کہ سرائیکی صوبہ لسانی بنیاد پر نہیں بننا چاہئے، اپنے ایک بیان میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سرائیکی لوگ اس علاقے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ چلینج دے کر کہتے ہیں کہ خانیوال، ملتان، لودھراں اور وہاڑی میں مجھے تلاش کرکے دو کہ سرائیکی کہاں ہیں؟ ان کی اس بات کا جواب دینا تو فضول ہے کہ سب نے جان لیا کہ وہ کہاں سے بول رہے ہیں اور ان کی بات میں کتنا وزن ہے البتہ ان کے وسیب کے دورے کے بعد ایک واقعہ یہ رونما ہوا کہ ساہیوال (جسے محض مجوزہ سرائیکی صوبے سے الگ کرنے کیلئے ڈویژن کا درجہ دیا گیا)۔
 
ن لیگ کی آشیر باد اور صوبائی حکومت کی سرپرستی میں ایک جلوس نکالا گیا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ہم سرائیکی صوبے کا حصہ نہیں بنیں گے، جلوس کے بعد اخبارات میں یہ بھی لکھا گیا کہ ساہیوال ڈویژن میں پاکپتن وہاڑی اور لودھراں کے اضلاع بھی شامل کیے جائیں، پنجاب سرکار کے حکومتی اقدامات اور پنجاب سرکار کے آلہ کار ذوالفقار کھوسہ کے بیانات کا آپس میں گہرا تعلق ہے، وہ ذوالفقار کھوسہ جو محض اپنی ذاتی شناخت کھوسہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں وہ 7 کروڑ سرائیکی لوگوں کی قومی شناخت کے منکر ہیں تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ 

ساہیوال میں جو جلوس نکلا ہے یہ بالکل اسی سین کا ایکشن ری پلے تھا جب 1970ء میں پنجاب سرکار بہاولپور صوبہ مانگنے والوں پر گولیاں چلا رہی تھی تو مخدوم احمد محمود کے والد مخدوم زادہ حسن محمود آباد کاروں سے ملکر الحاق پنجاب کے جلوس نکالے ہوئے تھے، نواب صلاح الدین کے والد نواب عباس عباسی بیان جاری کر رہے تھے کہ ہمارا بہاولپور صوبہ تحریک سے کوئی تعلق نہیں، محمد علی درانی کے والد غلام محمد درانی پنجاب کے انتظامی افسر کی حیثیت سے بہاولپور کے سرائیکیوں پر ظلم اور بربریت میں شریک تھے۔ 

اب صوبہ سرائیکستان کی تحریک چلی ہے تو تخت لاہور کے نسل در نسل آلہ کار سرائیکی تحریک کو سبوتاژ کرنے اور اس کے پیٹ میں چھرا گھونپنے کیلئے نئے روپ میں سامنے آگئے ہیں۔ وہ اب بہاولپور کا نعرہ لگا رہے ہیں لیکن اب وسیب کے لوگوں نے ان کے چہروں پر لگے ماس ان کی نتیوں سمیت اتار دیے ہیں، اب سرائیکی وسیب کے مشتعل نوجوانوں کے جلوس ان کے گھروں تک پہنچ چکے ہیں، انہوں نے زندگی میں بھی نہ سوچا ہو گا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟
 
بہاولپور سے تعلق رکھنے والے محترم ملک حبیب اللہ بھٹہ تخت لاہور کے پرانے پرستار ہیں، اگست 2011ء کو انہوں نے نوائے وقت میں ایک مضمون لکھ کر سرائیکی کو الگ اور بہاولپوری کو الگ قوم بتایا۔ یہ تو ہم آنے والی مردم شماری میں دیکھیں گے کہ وہ اپنے آپ کو سرائیکی لکھتے ہیں، بہاولپوری یا پھر پنجابی؟ البتہ سردار ذوالفقار کھوسہ، نواب صلاح الدین عباسی، مخدوم احمد محمود اور حبیب اللہ بھٹہ جیسے اطوار دیکھ کر ہی سرائیکی شاعر ابن کلیم نے کہا تھا کہ                      
                                                   اساں قیدی تخت لاہور دے نئیں
                                                  ساکوں اپڑئیں گھانڑیں وات ڈتے۔

خبر کا کوڈ : 156025
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش