0
Tuesday 22 May 2012 01:39

ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کا اعلان، قاضی حسین احمد تنظیمی ڈھانچہ کیلئے کمیٹی کے سربراہ مقرر

ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کا اعلان، قاضی حسین احمد تنظیمی ڈھانچہ کیلئے کمیٹی کے سربراہ مقرر
اسلام ٹائمز۔ ملک کی اہم سیاسی و دینی جماعتوں نے ملک میں مختلف مسالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے قیام، فرقہ واریت کے خاتمے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد اور اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے سابق امیر جماعت اسلامی و صدر متحدہ مجلس عمل قاضی حسین احمد کو تنظیمی ڈھانچہ بنانے والی کمیٹی کا سربراہ مقرر کر دیا، جے یو آئی کے دونوں دھڑوں کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق نے دعوت کے باوجود اجلاس میں شرکت نہ کی جبکہ اتحاد المدارس کے سربراہ قاری حنیف جالندھری اپنے خطاب کیلئے موزوں وقت نہ ملنے پر اجلاس سے واک آؤٹ کر کے چلے گے۔ 

ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا اعلان پیر کو یہاں ایک مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی کے زیراہتمام اتحاد امت و اسلامی یکجہتی کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا۔ کانفرنس میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے والے جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے کانفرنس میں اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جبکہ قاضی حسین احمد نے بحال ہونے والی ملی یکجہتی کونسل کے اغراض و مقاصد بیان کئے، جس کے بعد شرکاء کانفرنس نے قاضی حسین احمد کو تنظیمی کمیٹی کا سربراہ بننے پر مبارکباد دی۔ کانفرنس کا اعلامیہ شرکاء کانفرنس کی نمائندہ آٹھ رکنی کمیٹی نے متفقہ طور پر تیار کیا۔

اعلامئے پر جے یو آئی کے حافظ حسین احمد، جماعت اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہیم، پیر عبدالشکور نقشبندی، صاحبزادہ محمودالحسن نقشبندی، محمد یحییٰ مجاہد، صاحبزادہ سلطان احمد، محمد خان لغاری اور ثاقب اکبر کے دستخط ہیں۔ لیاقت بلوچ کے اعلامیہ پڑھنے پر تمام شرکاء کانفرنس نے اعلامئے کی تائید و منظوری دی۔ کانفرنس میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور موجودہ امیر سید منور حسن سمیت علامہ ساجد نقوی، پیر عبدالرحیم نقشبندی، حافظ عاکف سعید، مولانا ملک عبدالرؤف، لیاقت بلوچ، قاری حنیف جالندھری، حافظ حسین احمد، ایم ڈبلیو ایم کے علامہ محمد امین شہیدی، مولانا طیب طاہری، مولانا عبدالمالک، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، ابو شریف، ڈاکٹر رحیق عباسی، صاحبزادہ سلطان احمد، پیر ہارون گیلانی، عبدالغفار روپڑی، سراج الحق، پروفیسر ابراہیم، قاضی نیاز حسین نقوی، محمد خان لغاری، پیر محفوظ مشہدی، مولانا نذیر احمد فاروقی، مولانا عامر صدیقی، مولانا عنایت اللہ، عبدالرشید ترابی، مولانا مظہر بخاری، عین غین قراروی، مولانا عبدالسمیع، ڈاکٹر عابد رؤف اورکزئی اور ثاقب اکبر نے شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔

کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ مرکزی تنظیم سازی کیلئے قاضی حسین احمد کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ کمیٹی کے اراکین کا فیصلہ قاضی حسین احمد دیگر قائدین و تنظیموں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔ قبل ازیں کانفرنس کے دو سیشن ہوئے، جن میں مقررین نے خطاب کرتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کیلئے مختلف آراء اور تجاویز پیش کیں۔ حافظ حسین احمد اور مولانا نذیر فاروقی نے ایم ایم اے کی بحالی کی تجاویز پیش کیں، لیکن شرکاء کی اکثریت نے قاضی حسین احمد کی جانب سے ملی یکجہتی کونسل کے قیام کی تجویز کی حمایت کی۔

قاضی حسین احمد نے کانفرنس کے دوران مختلف مواقع اور اختتام پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کا سفر ایم ایم اے اور دفاع پاکستان کے مراحل طے کرتا ہوا آج پھر ملی یکجہتی کونسل تک پہنچا ہے۔ یہ تمام خوش آئند مراحل دینی قیادت کے باہمی رابطوں سے ہی ممکن ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا مقصد فرقہ واریت کا خاتمہ اور مسلکی اختلافات مٹانا ہے، اسلام میں کسی کلمہ گو کو کافر کہنا قابل نفرت اور غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناموس رسالت ص، عظمت صحابہ، اہل بیت ع سے بغض اور مشترکات کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس پر تمام مسالک کا اتفاق ہے۔ مسالک کے درمیان اختلافات فروعی ہیں، جبکہ مشترکات کثرت سے ہیں۔ ان مشترکات پر اتحاد ممکن ہے۔ ہم مجلس اہل اور دفاع پاکستان کی افادیت سے انکار کئے بغیر ملی یکجہتی کونسل کا قیام چاہتے ہیں۔

قاضی حسین احمد نے کہا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور مسالک کے اختلافات کے خاتمے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کرانے کیلئے ایک تحریک چلانے کی ضرورت ہے، یہ تحریک چلانے کیلئے دینی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں گی، یہ کمیٹیاں امت کے درمیان مشترکات پر اتحاد کیلئے تجاویز مرتب کریں گی۔ کشیدگی کے خاتمے کیلئے فسادات والے علاقوں میں مختلف مسالک کے علماء کرام کے مشترکہ وفود بھجوائے جائیں گے۔ ایک کمیٹی خطبہ جمعہ کیلئے مشترکہ نکات تیار کرے گی۔ اس موقع پر انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے 23 اپریل 1995ء کو فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے بنائے گئے 17 نکاتی ضابطہ اخلاق کو میڈیا کے نمائندگان کو پڑھ کر سنایا۔

جے یو آئی (ف) کے حافظ حسین احمد نے کہا کہ وہ ایم ایم اے کی بحالی کے حامی ہیں، نیا اتحاد بنانا آسان، چلانا مشکل ہو گا۔ میں اس کی ایک زندہ مثال ہوں، جو ایک اتحاد بچاتے بچاتے خود شہید ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ دینی قیادت کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والے چیلنج سے نمٹنے کیلئے بھی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ امریکہ افغانستان سے مار کھا کر نکل رہا ہے لیکن خطے سے نہیں جانا چاہے گا۔ اگر افغانستان سے نکلا تو بلوچستان میں ٹھکانہ بنانے کی کوشش کر ے گا۔

جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ حافظ حسین احمد پاکستانی سیاست کے اتحادوں کے زندہ شہید ہیں، لیکن ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کے حوالے سے انکے تحفظات کا جواب دیا جا چکا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے بنائی جا رہی ہے، جبکہ دفاع پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈا نیٹو سپلائی بحالی کی مخالفت ہے اور اس کا انتخابی اور اتحادی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ جمعیت اہل حدیث کے سربراہ ابتسام الہی ظہیر نے دینی جماعتوں کے اتحاد کیلئے قاضی حسین احمد کی کوششوں کی توصیف اور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دینی قوتوں کو سکیولر جماعتوں اور اشخاص کے مقابلے میں دینی جماعتوں اور قائدین کی حمایت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں مخالف مسالک کے ماننے والوں کو کافر قرار دینے کے خلاف فتوؤں کے خلاف فتوے جاری ہونے چاہیں۔

مولانا نذیر احمد فاروقی نے بھی ایم ایم اے بحالی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے ایم ایم اے سے بہتر فورم نہیں ہو سکتا۔ منور حسن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ ایم ایم اے کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، وہ یہ تاثر دور کریں۔ علامہ ع غ کراروی نے کہا کہ دفاع پاکستان کی جگہ دفاع اسلام بنائے جانے پر مسلمان اس میں شامل ہو گا۔ ضیاءالحق اسلام کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ قاضی حسین احمد کی کوششوں کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔ مولانا عبدالرؤف نے کہا کہ قاضی حسین احمد نے اپنی بقیہ زندگی اتحاد اسلامی کیلئے وقف کرنے کا عزم کر رکھا ہے، دینی جماعتیں فروعی اختلافات ختم کر کے متحد ہو جائیں تو کوئی طاقت انہیں ملک کی قیادت سنبھالنے سے نہیں روک سکتی۔

پیر ہارون گیلانی نے کہا کہ انتخابی نظام کو اسلامی نظام سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کا احیا کر کے قاضی حسین احمد کو اس کا سربراہ بنایا جائے۔ جماعت اہل حدیث کے سربراہ مولانا عبدالغفار روپڑی نے کہا کہ شیعہ سنی اختلافات خلوص نیت سے ختم ہو سکتے ہیں۔ دینی رہنما اتحاد کی باتیں تو کرتے ہیں مگر ایک امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔ لال مسجد کے نائب خطیب عامر صدیق نے ایم ایم اے کی بحالی کی تجویز کی حمایت کی۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی نے کہا کہ اہل کشمیر دینی قوتوں سے مثبت پیغام کے منتظر ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دے کر شہداء کے وارثوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے، جبکہ بھارت پاکستان آنے والے دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی بھی روک رہا ہے۔ قاضی نیاز حسین نقوی نے کہا کہ جماعت اسلامی ملکی کی واحد مسلک سے بالا تر اعتدال پسند جماعت ہے۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک نے بھی دینی اتحاد کیلئے قاضی حسین احمد کی کاوشوں کو سراہا۔

واضح رہے کہ اس کانفرنس میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے کسی فرد کو دعوت نہیں دی گئی تھی، اجلاس بلانے سے قبل جب قاضی حسین احمد نے تمام تنظیموں کو دعوت دینے کا آغاز کیا تھا تو اس وقت شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے قاضی حسین احمد پر واضح کیا تھا کہ وہ اس صورت میں کانفرنس میں شریک ہونگے کہ سپاہ صحابہ اور تکفیری گروہوں کو دعوت نہ دی جائے، جو ملک میں تفرقے اور انتشار کا باعث ہیں اور شیعہ کو کافر سمجھتے ہوئے فتوے جاری کرتے ہیں۔ اس پر قاضی حسین احمد نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا شخص شریک نہیں گا۔  اس کانفرنس نے ثابت کر دیا کہ ملک میں کوئی بھی مذہبی جماعت انتہا پسند گروہ کو اپنے ساتھ بیٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 164112
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش