0
Wednesday 20 Jan 2010 12:06

زرداری سمیت تمام این آر او افراد کے اندرون و بیرون ملک مقدمات کھل گئے،صدر کی اہلیت منتخب ہونے کے بعد بھی چیلنج ہو سکتی ہے،سپریم کورٹ

زرداری سمیت تمام این آر او افراد کے اندرون و بیرون ملک مقدمات کھل گئے،صدر کی اہلیت منتخب ہونے کے بعد بھی چیلنج ہو سکتی ہے،سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے این آر او کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ صدر کو آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار ہے عارضی قانون سازی کا نہیں۔صدر کی اہلیت کو ان کے منتخب ہونے کے بعد بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ فوجداری مقدمات سیاسی مفاہمت کے نام پر ختم نہیں کئے جا سکتے،این آر او سے مخصوص افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔فیصلے میں این آر او کیسز پر فیصلوں کے لئے بنائے گئے ریویو بورڈ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کیسز پر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف عدالتوں کو حاصل ہے،احتساب عدالتوں کو این آر او کیسز جلد از جلد نمٹانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے،فیصلے میں فلپائن کے صدر مارکوس کے بیرون ملک 635 ملین ڈالرز کے اثاثے اور نائیجیریا کے صدر کے 2.2 ملین ڈالرز کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح دونوں ممالک کی حکومتوں نے ان رقوم کو واپس منگوایا۔مانیٹرنگ نیوز کے مطابق فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتیں طے کریں گی کہ مقدمات درست بنائے گئے تھے یا نہیں،جس طرح نائیجیریا اور فلپائن کے صدور سے لوٹی ہوئی رقم واپس لی گئی اسی طرح سوئس کیس کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔مسٹر جسٹس چودھری اعجاز احمد نے اپنے فیصلہ کی حمایت میں اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے اقتدار کے دوران یہ خطہ امیر ترین تھا اور سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔تاہم اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد انصاف کے نظام کو دھچکا لگا۔قرآن پاک قانون کے سامنے سب کے مساوی ہونے کا درس دیتا ہے۔اسی طرح مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی الگ نوٹ لکھا ہے۔سپریم کورٹ نے این آر او کیس کا 287 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں قومی مفاہمتی آرڈیننس کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کو ابتداء سے ہی کالعدم قانون قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ این آر او کا اجراء قومی مفاد کے منافی اور آئین کی مختلف شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔جبکہ عدالت نے این آر او کے تحت ختم کئے گے مقدمات کو این آر او کے اجراء کے دن 5 اکتو بر 2007ء سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کر دیا ہے اور طے کیا ہے کہ تمام مقدمات کو اسی جگہ سے دوبارہ شروع کیا جائے،جہاں پر این آر او کے تحت کارروائی روکی گئی تھی۔عدالت نے صدر آصف علی زرداری کو بیرون ملک مقدمات کی بحالی کا بھی حکم دیا ہے اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ سوئس مقدمات کی بحالی کیلئے درخواست دے۔تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس،جسٹس افتخار محمد چودھری نے تحریر کیا ہے۔تفصیلی فیصلے پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے 12جنوری کو ہی دستخط کر دیئے تھے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ سوئس مقدمات ختم کرنے کے لیے خط لکھتے۔فیصلے میں وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کریں۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب کے چیئرمین نیب،پراسیکیوٹر جنرل اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو تبدیل کر کے نئی تعیناتیاں کی جائیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 17 رکنی بنچ نے متفقہ طور پر مختصر فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ صدر آصف علی زرداری کے بیرون ملک سوئٹزر لینڈ میں زیر سماعت مقدمات سے الگ ہونے اور قانونی معاونت سے دستبردار ہونے کیلئے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کا تحریر کردہ خط مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر لکھا گیا اور اس کو کسی بھی قانونی جواز کے بغیر قرار دیا اور مزید کہا کہ ملک قیوم کو ایسا اقدام کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا اور نہ ہی مجاز اتھارٹی نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت دی تھی کیونکہ عدالت میں این آر او سے متعلق پیش کردہ ریکارڈ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اِس ضمن میں کوئی حکم یا اجازت شامل نہیں تھی۔ عدالت نے بیرون ملک مقدمات میں منی لانڈرنگ سے متعلقہ رقم کے حصول کیلئے دعویٰ کی بحالی کا حکم دیا ہے اور وفاق کو اِس ضمن میں اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ قانونی معاونت کے معاہدہ اور رقم کے حصول کے دعویٰ سے دستبرداری شروع سے ہی موجود نہ تھی۔ عدالت نے اِن عہدیداروں کو فارغ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اِن عہدوں پر نئی تقرریاں نہیں ہوتیں یہ افراد اپنے عہدوں پر کام جاری رکھ سکتے ہیں اور سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ سیل کو اپنی ہفتہ وار رپورٹ بھجوائیں گے۔عدالت نے کہا کہ این آر او آئین کے آرٹیکل 4، 8، 25، 62ایف، 63ون پی، 89، 175 اور 227 کے منافی ہے۔این آر او کا اجراء قومی مفاد کے منافی ہے یہ قومی مفاہمت نہیں تھی۔عدالت نے نیب کے مقدمات کی مانیٹرنگ کیلئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی مانیٹرنگ سیل بھی قائم کر دیئے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یا انکی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی جج نیب کے ان مقدمات پر ہونے والی عدالتی کارروائی کو مانیٹر کریں گے۔چند صوبائی ہائیکورٹس میں بھی چیف جسٹس یا ان کی جانب سے نامزد کردہ جج کی سربراہی میں اس طرح کی سیل قائم کی جائے گی۔عدالت نے سیکرٹری قانون کو حکم دیا کہ وہ ایسے مقدمات کی تیزی سے سماعت کیلئے احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھائے اور اِس ضمن میں فوری اقدامات کریں۔عدالت نے کہا کہ این آر او کی گہرائی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قومی مفاہمت نہیں تھی جس طرح کے قانون ساز اسمبلی نے 1973ء کے آئین کے وقت مفاہمت کی تھی۔این آر او کے تحت تمام اقدامات،احکامات،فوائد،بشمول مقدمات سے بریت سب اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ان کو ایسے تصور کیا جائے گا جیسے کہ یہ موجود ہی نہیں تھے۔عدالت نے کہا کہ این آر او کے سیکشن 2 اور 7 کے تحت جن مقدمات میں فائدہ حاصل کیا گیا ایسے تمام مقدمات 5 اکتوبر سے پہلی والی پوزیشن پر بحال ہو جائیں گے اور ان تمام ختم کئے گئے مقدمات میں وہیں سے کارروائی شروع ہو گی جہاں سے رکی تھی۔جبکہ عدالت نے اپنے مختصر حکم میں وفاقی حکومت،چاروں صوبائی حکومتوں،نیب حکام اور استغاثہ کے افسران کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ان مقدمات کی عدالت میں معاونت کریں۔عدالت نے این آر او کے تحت ختم کئے گئے ایسے مقدمات جو کہ زیر تفتیش تھے ان میں تفتیش بحال کر دی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے 31 اے سیکشن کو بھی فعال کر دیا ہے اور سیکشن 6 کے تحت حاصل کردہ فائدہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔17 رکنی بینچ جسٹس جاوید اقبال،جسٹس سردار محمد رضا خان،جسٹس خلیل الرحمن رمدے،جسٹس میاں شاکر اللہ جان،جسٹس تصدق حسین جیلانی،جسٹس ناصر الملک،جسٹس راجہ فیاض احمد،جسٹس چودھری اعجاز احمد،جسٹس محمد ثائر علی،جسٹس محمد محمود اختر شاہد صدیقی،جواد ایس خواجہ،جسٹس انور ظہیر جمالی،جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس رحمت حسین جعفری،جسٹس طارق پرویز اور جسٹس غلام ربانی پر مشتمل تھا۔ 


خبر کا کوڈ : 18921
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش