0
Tuesday 18 Sep 2012 19:27

بلوچستان میں‌ ٹارگٹ کلنگ کے پس پردہ عوامل

بلوچستان میں‌ ٹارگٹ کلنگ کے پس پردہ عوامل

بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقہ دشت میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کوئٹہ کراچی نیشنل ہائی وے کی تعمیر میں مصروف دس مزدور جاں بحق جبکہ چھ زخمی ہوگئے۔ انہیں قطار میں کھڑا کرکے گولیاں ماری گئیں اور قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں کا تعلق میرانی علیزئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔ جبکہ خضدار میں ایک قبائلی رہنماء سعید احمد کو پانچ ساتھیوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ پشتونخوا میپ نے اس سانحہ پر شدید احتجاج کیا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ فورسز کی بھاری تعداد موقع پر پہنچی اور ہمیشہ کی طرح ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔ 

پشتونخوا میپ اور بعض دوسری جماعتوں نے صوبہ بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دیدی ہے۔ لیبر فیڈریشن کی جانب سے بھی شدید احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ وزیراعلٰی بلوچستان نے فائرنگ کا سختی سے نوٹس لیا اور متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلی۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے اور معدنی وسائل کے اعتبار سے ملک کے امیر ترین صوبے کی حالت خاص طور پر امن و امان کا مسئلہ اور شہریوں کو جان ومال کے تحفظ کی فراہمی نے ایک سنگین صورتحال اختیار کرلی ہے۔ اور عوام عدم تحفظ کا بری طرح شکار ہیں، دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، ماہرین تعلیم، انجینئرز، مختلف شعبوں کے ماہرین کے علاوہ تاجروں، کارباری طبقے کے افراد اور محنت کشوں کی بڑی تعداد اپنے آبائی صوبوں کو واپس جانے پر مجبور ہوگئی ہے۔

سرکاری ملازمین قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے ناکامی کے بعد مستعفی ہو کر واپس اپنے صوبوں کو آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے بھی اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اپنا ایک وفد پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ جس کیخلاف بعض سیاسی حلقوں میں شدید منفی ردعمل پایا گیا اور اسے ملکی معاملات میں غیر ضروری اور بلاجواز مداخلت کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ کا یہ وفد حکومت پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد پہنچا۔ جو انسانی حقوق کمیشن کے چار ارکان پر مشتمل ہے۔ وفد کے پروگرام میں صدر، وزیراعظم  وزیر داخلہ اور متعدد دوسرے حکام سے ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ بھی شامل ہے۔ وفد بلوچستان کا دورہ بھی کریگا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق قومی کمیشن کے سربراہ نے وفد کو گمشدہ افراد کے کی بازیابی کے طریقہ کار اور بازیاب کرائے گئے افراد کے متعلق بریفنگ بھی دی۔

وفد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشین کو اپنی رپورٹ پیش کریگا۔ دفتر خارجہ کے متعلق وفد کو لاپتہ افراد کے بارے میں چھان بین کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ تاہم پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے لاپتہ افراد کے معاملے پر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر متعلقہ وزارتوں کے حکام سے رپورٹ طلب کی جائے۔ کمیٹی کے سربراہ میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے یو این او کے وفد کے دورے کا نوٹس لیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں وزیر خارجہ، سیکرٹری خارجہ، وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کو بھی طلب کرلیا ہے، تاکہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ وفد کو دورے کی اجازت کس نے دی۔

لاپتہ افراد کے معاملے پر قانون سازی کیلئے سفارشات کی تیاری کیلئے کسی قسم کا دباؤ نہیں اور نہ ہی کمیٹی یہ دباؤ قبول کریگی۔ اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی بلوچستان سے لاپتہ ہونیوالے افراد کا بڑی سنجیدگی سے نوٹس لیا اور حکومت اور متعلقہ اداروں پر زور دیا کہ وہ ان افراد کو بازیاب کرانے اور ان کا سراغ لگانے میں اپنی ذمہ داری اور محکمانہ کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ اس صورتحال نے ہزاروں خاندانوں کو سراپا احتجاج بنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بھی اقوام متحدہ کے وفد کی آمد کی مخالفت کی گئی تھی اور اکثر سیاسی حلقوں کی طرح اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا تھا۔

بلوچستان کی یہ صورتحال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور محض یہ کہنا کہ بیرونی طاقتیں اور بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار مملکت قرار دینے والے عناصر اس کارروائی میں ملوث ہیں، مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلٰی اپنا بیشتر وقت صوبہ بلوچستان کی بجائے اسلام آباد میں‌ گزارتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت بلوچ عوام کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ کرنے، غربت و افلاس کا گراف کم کرنے، روزگار کے وسائل میں اضافہ کرنے، معدنی وسائل کی دریافت اور صوبے کے عوام کے ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے علاوہ ان سے متعلق صوبے میں صنعتی اداروں کے قیام اور ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کو فنی تربیت کے مواقع فراہم کرنے کا اہتمام کرے۔

تاکہ بلوچ عوام میں یہ تاثر پیدا ہو کہ حکومت انہیں صوبے کے معدنی وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا چاہتی ہے اور گیس کی طرح محض دوسرے صوبوں کو بلوچستان کے معدنی وسائل سے نوازنے کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں۔ حکومت یہ بات بھی پیش نظر رکھے کہ لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں نہیں‌ بلکہ چند افراد پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوشیشیں بلاشبہ قابل ستائش، حوصلہ افزاء اور قومی مفادات سے مطابقت رکھتی ہیں، تاہم سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

بعض حلقوں‌ کی رائے یہ ہے کہ اقوام متحدہ اپنے اس مشن کی آڑ میں بلوچستان میں قیام امن کے نام پر عالمی امن فوج کا راستہ ہموار کرنا چاہتا ہے، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بلوچستان کے مسئلے کو بلوچ عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جلد از جلد حل کرے۔ بلوچ قائدین سے مشاورت کرے، ان کے مسائل و مشکلات کے ازالے کیلئے ان کی تجاویز پر خصوصی توجہ دے اور غیر ملکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے بلوچ عوام کا بھرپور تعاون حاصل کرے۔

جب تک بلوچ قائدین کی مشاورت اور بلوچ عوام کے حقیقی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماضی کی تلخیوں کا ازالہ نہیں کیا جاتا اور بلوچ عوام کی جائز شکایات دور کرنے اور مسائل ٹھوس بنیادوں پر عمل کرنے کا عمل اختیار نہیں کیا جاتا، حالات پر قابو پانا ممکن نہیں‌ ہوسکتا۔

خبر کا کوڈ : 196309
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش