0
Tuesday 16 Feb 2010 12:44

ججز لانگ مارچ سے نہیں،حکومت نے بحال کئے،جج ایگزیکٹو آرڈر سے بحال ہوئے،پارلیمنٹ نے توثیق نہیں کی،وزیراعظم گیلانی

ججز لانگ مارچ سے نہیں،حکومت نے بحال کئے،جج ایگزیکٹو آرڈر سے بحال ہوئے،پارلیمنٹ نے توثیق نہیں کی،وزیراعظم گیلانی
اسلام آباد:وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ عدلیہ کسی لانگ مارچ سے بحال نہیں ہوئی بلکہ میں نے خود اپنے ایگزیکٹو آرڈر سے عدلیہ بحال کی تھی،پارلیمنٹ نے ایگزیکٹو آرڈر سے بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دیگر ججوں کی بحالی کے حوالے سے توثیق نہیں کی۔پارلیمنٹ ججز کی تقرری کا اختیار صدر سے لے کر چیف جسٹس کو دینا چاہتی ہے تو آئین میں ترمیم کرے،ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری نثار کی تقریر کے جواب میں انہوں نے کہا ججوں کی بحالی کا اعلان میں نے کسی سے مشاورت کے بغیر کیا تھا،اس ایگزیکٹو آرڈر کی ابھی پارلیمنٹ سے توثیق ہونی باقی ہے۔انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ سے حکومتیں نہیں جاتیں،غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں،ایسی کوئی غلطی نہیں جس کا ازالہ نہ ہو۔لانگ مارچ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں،شہید بےنظیر بھٹو بھی لانگ مارچ کرتی رہی ہیں اور موجودہ اپوزیشن بھی لانگ مارچ کرتی رہی،میں خود بھی شاہراہ دستور پر لانگ مارچ کرتا رہا،لیکن لانگ مارچ کے نتیجے میں نہ تو پہلے عدلیہ بحال ہوئی تھی اور نہ ہی میں نے کی تھی۔اس سے بڑے لانگ مارچ ہم نے کئے،15 مارچ کو نکالے گئے لانگ مارچ کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا،یہی کہ ہماری حکومت چلی جاتی،لیکن میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے عدلیہ بحال نہیں ہو سکتی تھی،ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم نے این آر او سے فائدہ اٹھایا،چلیں یہ بات مان لیتے ہیں،اگر ہم نے این آر او سے فائدہ اٹھایا تو ان لوگوں نے کیا کیا جو کمپرومائز کر کے ملک سے باہر چلے گئے۔جب ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی تو اس وقت کہا جا رہا تھا بےنظیر بھٹو اور مشرف کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔محترمہ واپس آئیں انہوں نے آ کر کہا مشرف کے ساتھ اب مزید کوئی بات نہیں ہو گی۔انہوں نے ایمرجنسی کے خلاف جلوس نکالے،انہیں لاہور اور راولپنڈی میں قید کیا گیا،میں آج بات واضح کر دینا چاہتا ہوں اگر تمام اداروں نے اپنی اپنی حدود کے اندر رہ کر کام نہ کیا اور اداروں کے درمیان تصادم ہو گیا تو پھر کچھ نہیں بچے گا،ہم منتخب لوگ ہیں اور کسی چور دروازے سے اقتدار میں نہیں آئے۔اپوزیشن کا ایک منتخب صدر کا ریفرنڈم والے جنرل مشرف کے ساتھ موازنہ کرنا درست نہیں۔اختلاف جمہوریت کی خوبصورتی ہے،اختلاف رائے ہی جمہوریت کو پروان چڑھاتا ہے لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہماری عدلیہ سے کوئی لڑائی نہیں،تو اس بات پر کیوں یقین نہیں کیا جاتا۔ آئین کے مطابق ججوں کی تعیناتی کا اختیار صدر کے پاس ہے،اگر یہ ایوان،صدر کا یہ اختیار ختم کر کے چیف جسٹس کو دینا چاہتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔حکومت اور عدلیہ کے درمیان رائے کا اختلاف ہو گیا ہے تو یہ بڑی بات نہیں،اب معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے،سپریم کورٹ اگر حکومت کے اٹھائے گئے اقدام کو غیر قانونی قرار دے گی،تو ہم اسے سر تسلیم خم کریں گے۔جب میں نے ججوں کی حراست ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت میں نے نہ تو پارلیمنٹ کو نہ اپنی پارٹی کو نہ اپوزیشن کو نہ اتحادیوں کو حتیٰ کہ اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا،میں نے حلف اٹھانے سے ایک روز قبل ججوں کی رہائی کا حکم دیا اور ان کی تنخواہوں کا مسئلہ بھی حل کیا۔اس سے اگلے روز مجھے پرویز مشرف سے حلف لینا تھا اس وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا،مشرف کے پاس اس وقت 58ٹو بی کے اختیارات بھی تھے،وہ اسمبلیاں توڑ سکتا تھا اور اس وقت تک انتقال اقتدار بھی نہیں ہوا تھا۔لیکن میں نے اس پر رسک لیا۔میں نے ججوں کی اسیری ختم کرنے سے پہلے صدر زرداری سے کہہ دیا تھا کہ اپنے لئے دوسرے وزیراعظم کا بندوبست کر لیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میں کوئی چھکا لگاوں۔آج ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم سے جمہوریت کو خطرہ ہے اور ہم جمہوریت کے حق میں نہیں تو میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے جمہوریت کے حق میں قربانیاں دیں ہیں،یہاں تک کہ ہم نے اپنی قائد محترمہ بےنظیر بھٹو کی قربانی دے دی۔اس سے بڑھ کر قربانی کیا ہو سکتی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا کہ وزیراعظم متفقہ طور پر منتخب ہوا،سپیکر اکثریت سے منتخب ہوئیں،صدر دو تہائی اکثریت سے منتخب ہوئے،سندھ،پنجاب،سرحد اور بلوچستان میں جمہوریت کی وجہ سے تمام سینیٹر بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔آج کہا جاتا ہے کہ ججوں کی تعداد کم ہے تو بتایا جائے کہ ہم نے پہلے منی بل میں جب مسلم لیگ (ن) حکومت کا حصہ تھی ججوں کی تعداد بڑھانے کی بات نہیں کی تھی۔ججوں کی تعداد کم ہے،ہم نے ہی ان کی تعداد بڑھائی،ججوں کی تقرریوں میں حکومت کی پسند ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیں۔جسٹس خواجہ شریف سپریم کورٹ آ جائیں یا پھر جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بنیں یا ثاقب نثار سپریم کورٹ آئیں اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ ججوں کی بحالی کے بعد جس تاریخ سے ججوں نے کام شروع کرنا تھا اس سے 5 روز قبل میں نے خواجہ شریف کو چیف جسٹس ہائیکورٹ بنایا۔ہماری کسی سے کوئی ذاتی عداوت نہیں،16 مارچ کو ججوں کی بحالی کا فیصلہ تو رات بارہ بجے ہو گیا تھا پھر کیوں میں نے اس کا اعلان صبح 6 بجے کیا جبکہ پوری اسٹیبلشمنٹ،صدر،اپوزیشن سب میرے ساتھ تھے،آج میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اس میں کوئی قانونی سقم نہیں چھوڑنا چاہتا تھا،مجھے اس وقت بھی ٹکا اقبال کیس کا حوالہ دیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ میں ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ججوں کو بحال نہیں کر سکتا۔پھر میں نے ججوں کو بحال کیا۔میں جمہوریت کو بچاوں گا۔پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کروں گا اور نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دوں گا۔نقطہ نظر کا اختلاف ہے مگر کسی سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں۔ججز کا اوپر نیچے جانا انوکھی بات نہیں،لیکن یہ بتایا جائے کہ تشریح کون کرے گا۔
یوسف رضا گیلانی سے ارکان پارلیمنٹ نے ملاقات کی۔ملاقات میں وزیراعظم نے انہیں بتایا کہ حکومت مفاہمت کی پالیسی پر آگے بڑھ رہی ہے منتخب ارکان حکومت کی اس مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھانے میں مثبت کردار ادا کریں۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے حکومت کے جاری کردہ مفاہمت کے عمل میں ہاتھ بٹانے کے لئے آگے آئیں،اس سے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی،حکومت قومی پالیسیوں کی تشکیل میں تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلے گی،وزیراعظم نے یہ بات پارلیمنٹیرین کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی،وزیراعظم نے کہا کہ عوام منتخب نمائندوں سے بہت توقعات رکھتے ہیں،وزیراعظم نے کہا کہ منتخب نمائندے حکومتی پالیسیوں کے نفاذ میں کمزوریوں کی نشاندہی کریں،وزیراعظم سے ملاقات کرنے والوں میں وفاقی وزیر ماحولیات حمید اﷲ جان آفریدی،ایم این اے عبدالوسیم ،عبدالقادر خانزادہ اور بشری گوہر شامل ہیں۔


ججز لانگ مارچ سے نہیں،حکومت نے بحال کئے،وزیراعظم گیلانی
اسلام آباد:وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ججز لانگ مارچ سے نہیں،حکومت نے بحال کئے،منتخب صدر کا ریفرنڈم والے صدر سے موازنہ کر کے پارلیمنٹ کی توہین نہ کی جائے،عدلیہ سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی کوئی فیورٹ جج ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ لانگ مارچ سے صرف ان کی حکومت چلی جاتی مگر ججز بحال نہیں ہوتے۔چیف جسٹس کی بحالی کے لیے پارلیمینٹ سے توثیق ضروری ہے،عدلیہ سے متعلق جو تشریح ہو گی اس کا احترام کرینگے۔انہوں نے کہا کہ سترہ کروڑ عوام کا منتخب ادارہ صرف پارلیمینٹ ہے۔نہیں چاہتے کہ جمہوریت ایک بار پھر ڈی ریل ہو۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے تو محترمہ کو پاکستان آنے سے روک دیا تھا۔ہم نے تو جمہوریت کیلئے اپنے قائد کی بھی قربانی دی۔این آر او ان لوگوں کیلئے بنا جن لوگوں نے سمجھوتہ نہیں کیا۔پرویزمشرف سے حلف لینے سے پہلے اسکے مخالفین کو رہا کرایا۔ان کہنا تھا کہ ایک منتخب صدر کا پرویزمشرف سے موازنہ کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔کسی چور دروازے سے اقتدار میں نہیں آئے۔

خبر کا کوڈ : 20399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش