0
Friday 19 Oct 2012 15:59

ایم کیو ایم سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، مولانا فضل الرحمن

ایم کیو ایم سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، مولانا فضل الرحمن
اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں مدارس اور مذہبی قوتوں کے کوائف جمع کرنے کی بات کررہی ہیں۔ انہیں یہ اختیار کس نے، کب اور کیوں دیا، کوئی اور بات کرے تو یہ دہشت گردی اگر ایم کیو ایم اور الطاف حسین یہ بات کہے تو عین قانون کے مطابق ہے، عمران خان کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے، انتخاب ہار نامنظور ہے لیکن تحریک انصاف سے اتحاد نہیں ہوگا۔ وہ گزشتہ روز یہاں صحافیوں کے ایک گروپ سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میڈیا نے ملالہ کے معاملے پر یک طرفہ پروپیگنڈہ کیا جس کے اب الٹ نتائج نکل رہے ہیں، ہمارے دانشوروں اور میڈیا کو اس طرح موقف نہیں اپنانا چاہئے، بعض لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ جس طرح ایک جعلی ویڈیو کو بنیاد بنا کر سوات میں آپریشن کیا گیا اسی طرح ملالہ کے معاملے کو بنیاد بنا کر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی جائے لیکن سخت عوامی ردعمل کے بعد اب یہ قوتیں اپنے اس فیصلے میں کلی طور پر نہیں تو جزوی طور پر نظر ثانی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ فوجی آپریشن کا چیپٹر فوری طور پر ختم نہیں تو فی الحال موخر ضرور ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام اور ایم کیو ایم محاذ آرائی نہیں چاہتیں لیکن ایم کیو ایم کے قائد کو بھی چاہئے کہ وہ مدارس، مساجد اور دیگر مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے خلاف سازشیں روز اول سے جاری رہی ہیں اور ہم نے گزشتہ دس سال کے دوران حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے اور مدارس کے خلاف کسی بھی ریاستی کاروائی کا راستہ روکا ہے۔ بالآخر 2004ء میں ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور تنظیمات اتحاد مدارس دینیہ کے تحت مذاکرات کرائے جو کامیاب ہوئے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بعض لوگ ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تم ہمیشہ اقتدار کی بات کرتے ہو حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے، حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم حکومت کے بجائے ریاست، اپنے مذہبی اقدار اور خطے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں جس پر بڑی تنقید ہوتی ہے لیکن وقت آنے پر لوگ سمجھ بھی جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2010ء تک اس خطے میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سلسلہ جاری تھا لیکن اب جنگ مسلط کرنے والوں کی ری کنسلیشن کی بات کر رہے ہیں۔ اگر انہیں اس وقت کسی کی ضرورت تھی اس خطے میں تو آج بھی ضرورت ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ متوقع عام انتخابات میں خطے کی موجودہ سیاسی، جغرافیائی اور عالمی صورتحال اثر انداز ہوسکتی ہے۔

حکومتی اتحاد میں شمولیت اور پروفیسر این ڈی خان کی حکومت میں شمولیت کی دعوت کے حوالے سے کہا کہ ہم اتنے جلد باز نہیں کہ فوری طور پر اپنے ردعمل کا اظہار کریں تاہم خیبر پختونخواہ کی حد تک پیپلز پارٹی اور اے این پی سے کوئی انتخابی مفاہمت نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں پر یہ دونوں جماعتیں حکومت میں ہیں اور وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی جس کا نتیجہ جمعیت علماء اسلام کی پذیرائی کی صورت میں نکلا ہے اور عوام اب جمعیت کو اپنا متبادل سمجھتی ہے۔ اسی لئے اگر ہم اس طرح کے کسی بھی اتحاد میں شامل ہوتے ہیں تو ہمیں نقصان ہوگا کیونکہ وہاں پر جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتیں بھی موجود ہیں۔ ہم ان دونوں جماعتوں کی پانچ سالہ غیر تسلی بخش کارکردگی اور ناکامیوں کو انتخابی اتحاد کے ذریعے اپنے حصے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مفاہمت ہو سکتی ہے تاہم ملکی سطح پر ون ٹو ون کوئی بڑا انتخابی اتحاد مشکل نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں بھی ایم کیو ایم اگر اپنا رویہ درست کرے تو جمعیت علماء اسلام نے کبھی بھی مزاحمت کی پالیسی اختیار نہیں کی ہے۔ جہاں تک رہی بات عمران خان کے سونامی کی تو اب اس کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ دیگر جماعتوں کی طرح جمعیت علماء اسلام بھی عمران خان کے ساتھ چند سیٹوں پر راضی ہو گی لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 204626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش