0
Thursday 18 Oct 2012 17:04

نائن الیون کو بنیاد بنا کر امریکہ نے افغانستان پر لشکر کشی کی، مولانا فضل الرحمن

نائن الیون کو بنیاد بنا کر امریکہ نے افغانستان پر لشکر کشی کی، مولانا فضل الرحمن
اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ نائن الیون کے حملے کو بنیاد بناکر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر لشکر کشی کی۔ اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں نے یک جنبش قلم ہاں کردی جس کی وجہ سے ملک میں اس پالیسی کے مخالفین کا ایک بڑا طبقہ پیدا ہوا۔ میڈیا اور ادارے یک طرفہ مؤقف پیش کرنے کے بجائے تمام طبقوں کے مؤقف کو پیش کریں، ملالہ یوسف زئی کے معاملے میں میڈیا اور این جی اوز نے جس بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا، اب اس کے نتائج الٹ سامنے نظر آرہے ہیں۔ اگر دوسرے فریق کے مؤقف کو بھی سنا جائے تو ان کے دلائل کو کوئی رد نہیں کرسکے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں مفتی محمود اکیڈمی کے زیر اہتمام افکار محمود سیمینار کے موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ نائن الیون کے بعد فوجی آمر پرویز مشرف نے فوری ہاں کرنے کے بجائے سوچ و بچار اور مشاورت سے کام لیتے تو آج پاکستان کو اس قدر تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ ہی قوم تقسیم ہوجاتی۔ فوجی آمر نے فوری طور پر امریکی صف میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنی فضاء، زمین اور ہر چیز افغانستان کے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے پیش کردی۔ یقینا جو لوگ اس پالیسی کو نہیں مانتے وہ اس کی مخالفت میں سامنے آئے اور ان کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے۔ آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں۔ یہ انہی کا نتیجہ ہے کہ اب حملہ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہوا الزام القاعد پر آیا اور القاعدہ کے سربراہ شیخ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھے جس کو بنیا بنا کر امریکہ نے لشکر کشی کی۔ اس پر غور فکر کے بجائے پرویز مشرف نے امریکہ کو ہاں کردی اور پھر اپنا سب کچھ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی کچھ عناصر یہی چاہتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کو استعمال کیا جائے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا اور جو بھی کرے گا کہ اس کو سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قبل ازیں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری نے شیخ الہند مفتی محمود الحسن اور مفتی محمود نے مہذب سیاست، صحافت اور علم کو فروغ دیا لیکن آج ہماری بعض شخصیات انتہائی غیر مہذب زبان استعمال کررہی ہیں۔ پہلے اعلان کیا جاتا ہے شمالی وزیرستان کا اور سفر ہوتا ہے جنوبی وزیرستان کی طرف۔ مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف اور زبان استعمال کی جاتی ہے مولانا فضل الرحمن کے خلاف، جس کا مقصد اپنے سیاسی قد کو بڑھانا ہے، ایسے لوگوں کو خواب میں بھی مولانا فضل الرحمن نظر آتے ہیں۔ دراصل ان کی سیاسی تربیت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں نے کیا اس پورے احتجاج کے دوران اسرائیل اور امریکہ کے خلاف آواز اٹھائی، یقیناً ایسا نہیں ہوا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مولانا فضل الرحمن کی شریعت نہیں چاہئے۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کس شریعت کی بات کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمن تو محمد الرسول اللہﷺ کی شریعت کی بات کررہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما پروفیسر این ڈی خان نے کہا کہ مفتی محمود ایک عظیم مفکر، مدبر، مفسر، معلم، پارلیمنٹیرین، سیاستدان اور کثیر الجہتی شخصیت تھے۔ 1973ء میں مفتی محمود نہ ہوتے تو پاکستان کا وفاقی اسلامی دستور نہیں بن سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک موقع پر جب ذوالفقار علی بھٹو سے بعض ان کے رفقاء نے اپنی مشکلات کا ذکر کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں مولانا مفتی محمود کی سرحد میں موجود حکومت اور ان کے اقدام کی مثال دی اور کہا کہ انہی مشکلات کا ان کو سامنا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیسے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مفتی محمود نے یہ ثابت کردیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کیا جاسکتا ہے۔ آج حکومت جن مسائل کا شکار ہے ان کا تعلق حکومت سے نہیں ریاست سے ہے۔ اس لئے میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ اور مفتی محمود کے جانشین کو ایک بار پھر دعوت دیتا ہوں کہ وہ حکومت کے بجائے ریاست کے مسائل کو سمجھتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ اس وقت قوم، ملک، ریاست اور عوام کو ان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم جن مسائل کا شکار ہے ان سے کوئی بھی سیاسی جماعت تنہا نبرد آزما نہیں ہوسکتی ہے۔ ہم سب مل کر ہی ان مسائل سے لڑ سکتے ہیں۔

سیمینار سے اکرام القادری، اکبر شاہ ہاشمی، نذیر لغاری، ڈاکٹر خالد محمود سومرو، مولانا محمد شفیع شاہد چترالی، پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی، ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری، ڈاکٹر قبلہ ایاز، ڈاکٹر محمد شکیل اوج، ڈاکٹر عبدالحکیم اکبری اور دیگر نے بھی افکار محمود کے حوالے سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیو بندی اور مفکر اسلام مولانا مفتی محمود کی زندگی کے حوالے سے مختلف مقالے پیش کئے۔ نظامت کے فرائض مفتی محمود اکیڈمی کے ڈائریکٹر محمد فاروق قریشی نے سر انجام دیئے جبکہ تقریب میں جمعیت علماء اسلام کے رہنما قاری شیر افضل، قاری محمد عثمان، حاجی مسعود پاریکھ، مولانا تقی الدین شامزئی، مولانا قطب الدین عابد اور علماءاور جمعیت کے رہنماﺅں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
خبر کا کوڈ : 204596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش