0
Thursday 13 Dec 2012 23:09

شاہینوں کے شہر سرگودھا میں بدلتی ہوئی سیاسی فضاء

شاہینوں کے شہر سرگودھا میں بدلتی ہوئی سیاسی فضاء
رپورٹ: فیصل عمران چوہدری

سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ 16 مارچ کو پارلیمنٹ تحلیل ہو جائے گی۔ الیکشن جوں جوں قریب آ رہے ہیں، سیاسی بحثیں اور تبصرے بھی اپنے زوروں پر ہیں، ٹی وی ٹاک شوز ہوں یا اخبارات یا نجی محافل۔ ہر طرف یہی بحث دیکھنے کو ملتی ہے کہ اگلا میدان کون مارے گا۔ بحثوں اور تبصروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے سیاسی کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنے کے لئے چناو شروع کر دیا ہے۔ چوہدری شجاعت جیسے جوڑ توڑ کے ماہرین اپنی مہارتیں دکھانے کے لئے نسخے تیار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ووٹر لسٹوں کی ترتیب اور تصدیق کے علاوہ نئی حلقہ بندیوں کی بحث کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ الیکشن کھبی فوج کی سربراہی میں تو کبھی عدلیہ کی زیرنگرانی کروانے کی باتیں ہو رہیں۔ جوں جوں وقت قریب ہوتا جا رہا ہے نگران حکومت کے سیٹ اپ کے لئے بھی بحث چھڑ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ جلد الیکشن کی تاریخ دے دی جائے گی۔ جیسے جیسے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، سرگودھا میں بھی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور آئے روز مختلف سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماء سرگودھا کا دورہ کرکے انتخابی جنگ کے لیے صف بندی میں مصروف ہیں۔

شاہینوں کے شہر سرگودھا میں سب سے پہلے سونامی خان صاحب (عمران خان) نے ممبر شپ مہم اور ورکرز کنونشن کا انعقاد کرکے سرگودھا کے سیاسی جمود کو توڑا، اس کنونشن میں تحریک انصاف کے موبائل صدر احسن رشید نے شرکت کی اور ایک مقامی سینما کے ہال میں ہزاروں کارکنوں کے منظم اجتماع سے خطاب کیا۔ یہ کنونشن تحریک انصاف کے نظریاتی رہنماء راؤ راحت علی خان اور ان کے ساتھیوں کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے تسنیم قریشی، نون لیگ کے حاجی حامد حمید اور جماعت اسلامی کے ڈاکٹر ارشد شاہد کے درمیان کاٹنے دار مقابلہ متوقع ہے اور کئی پیپلز پارٹی کے جیلے متوالے پی پی سے ناراض دکھائی دیتے ہیں، اور اس کی بڑی وجہ تسنیم قریشی کو سمجھا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر بجلی و پانی احمد مختار نے جھال چکیاں اور گردونواح کے علاقوں میں سوئی گیس، بجلی کے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے لیے جلسہ عام کیا، یہ جلسہ دراصل پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر مملکت بجلی و پانی تسنیم احمد قریشی کی انتخابی مہم کا آغاز تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے صدر میاں منظور احمد وٹو نے بھی سرگودھا کا دورہ اور ورکرز کنونشن سے خطاب کیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنماء احمد مختار کے جلسہ عام میں جیالوں کا وہ روایتی جوش نظر آیا اور نہ ہی سٹیج سے لگنے والے کسی نعرے کا پنڈال سے جواب آیا، جلسہ میں مقامی آبادی کی تعداد بہت کم تھی حالانکہ شہر سے ملحقہ ان چکوں میں بجلی اور سوئی گیس کی فراہمی ایک بہت بڑا قدم ہے، جبکہ اس جلسہ میں کسی بھی پرانے اور نظریاتی کارکن کا شریک نہ ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

اسی طرح صدر پیپلز پارٹی پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے دورہ سرگودھا کے حوالہ سے بہت زیادہ شور و غوغا رہا اور خوب تشہری مہم بھی چلائی گئی۔ مگر اس کے بعد پیپلز پارٹی کے جیالوں کو سخت مایوسی ہوئی، کیونکہ میاں منظور احمد وٹو نے تسنیم احمد قریشی کے پیپلز سیکرٹریٹ میں ڈویژن بھر کے ارکان اسمبلی، سابقہ ٹکٹ ہولڈروں اور عہدیداران سے ملاقات کی اور ایم پی اے میاں اعجاز احمد کابلوں کی رہائش گاہ پر ورکرز کنونشن سے خطاب کیا، اس کنونشن کو نام "ورکرز کنونشن" دیا گیا تھا لیکن یہاں بھی کوئی پیپلز پارٹی کا جیالا کارکن شریک نہ تھا، پیپلز پارٹی کے تمام نظریاتی کارکن سابق ڈویژنل صدر ملک عزیز الرحمان کی قیادت میں پارٹی قیادت سے ٹکٹوں اور تنظیمی عہدوں کی تقسیم پر ناراض ہیں، منظور احمد وٹو کی آمد کے موقع پر خیال تھا کہ وہ ناراض دوستوں کو منائیں گے مگر انہیں کسی نے ایک ٹیلیفون کال تک بھی کرنا گوارا نہ کی۔

پانچ دسمبر کو صدر مسلم لیگ (ن) وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف دوسری مرتبہ لیپ ٹاپ کی تقسیم کرنے کے لیے یونیورسٹی آف سرگودھا آئے، پہلی بار انہوں نے ماہ مئی میں یہاں ایک شاندار تقریب میں طلباء و طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے اور اب وہ دوبارہ آئے تو انہوں نے اپنے خطاب کے دوران بار بار کہا کہ وہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے لیپ ٹاپ تقسیم نہیں کر رہے اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی مقصد ہے، ساتھ ہی انہوں نے صدر آصف علی زرداری، پیپلز پارٹی کی حکومت اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو نام لیے بغیر کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور طلباء و طالبات سے مخاطب ہو کر کہا کہ آئندہ الیکشن میں ملک کو زر بابا اور چالیس چوروں سے نجات دلانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بڑے خان نے ہمیں ڈینگی برادران کا خطاب دیا ہے۔ جب ہم ڈینگی کے خلاف لڑ رہے تھے تو خان صاحب لندن اور پیرس کی یاترا پر نکل گئے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے ناقدین ہمارے تعلیمی منصوبوں اور لیپ ٹاپ کی تقسیم پر جتنی مرضی تنقید کریں مگر نیک اور صادق جذبوں کو لیپ ٹاپ سے خریدا نہیں جا سکتا۔

اس کے بعد وزیراعلٰی سابق ایم پی اے زاہد اقبال سندھو کی وفات پر اظہار تعزیت کے لیے چک 19 جنوبی پاہڑیانوالی کوٹ مومن گئے اور واپسی پر انہوں نے بھیرہ میں پیر کرم شاہ صاحب کے عرس کی اختتامی دعا میں شرکت کی اور خطاب کیا اور کہا کہ ان کا بس چلا تو وہ لوٹیروں سے قوم کا لوٹا ہوا مال ان کے پیٹوں سے بھی نکال لائیں گے۔ میاں شہباز شریف کے دورہ کو غیر سیاسی دورہ کہا گیا مگر وہ اپنے اس غیر سیاسی دورہ کے دوران پیپلز پارٹی کو خوب ہاتھ دکھا گئے۔ یونیورسٹی آف سرگودھا میں ان کے سٹیج پر پیپلز پارٹی کے موجودہ ایم پی اے سردار کامل شمیل گجر براجمان تھے جبکہ خلاف توقع پی پی 31 سلانوالی سے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے رانا منور غوث موجود نہ تھے۔ ان دونوں ارکان اسمبلی کی پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی خبریں ایک عرصہ سے گردش کر رہی ہیں۔ سلانوالی کے علاقہ میں پی پی کی خاص نظریاتی مقبولیت نہ ہونے کی وجہ سے رانا منور غوث گھبرائے دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ پچھلی بار بھی بی بی کی شہادت نے ان کی بات بنا دی تھی۔  

گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والے پیپلز پارٹی کے سابق ٹکٹ ہولڈر مقامی سیاسی اتحاد فرینڈز گروپ کے قائد ذوالفقار علی بھٹی نے میاں نواز شریف سے مری میں ساتھیوں سمیت ملاقات کی اور مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے اعلان کے بعد کہا کہ پیپلز پارٹی کے دو ارکان اسمبلی رانا منور غوث اور سردار کامل شمیل گجر بھی جلد ہی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو جائیں گے۔ سردار کامل شمیل گجر ایم پی اے کی میاں شہباز شریف کے سٹیج پر موجودگی سے ان خبروں کو تقویت ملی، تاہم کوئی باضابطہ شمولیت کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ارکان اسمبلی کسی مناسب موقع پر باقاعدہ شمولیت کا اعلان کریں گے اور یہ اعلان پیپلز پارٹی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ پہلے ہی پیپلز پارٹی کے سابق ارکان اسمبلی، راہنماؤں کی ایک لمبی فہرست پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرچکی ہے، جس سے پیپلز پارٹی کی قیادت اور ووٹ بینک میں مایوسی ایک فطری بات ہے۔

جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر سراج الحق بھی چند روز قبل سرگودھا کے دورہ پر آئے۔ اس دوران انہوں نے جماعت اسلامی کے آئندہ انتخابات میں امیدواران سے ملاقات اور ارکان جماعت اسلامی، کارکنان کے بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ اس اجتماع میں پانچ ہزار سے زائد افراد شریک تھے۔ سراج الحق کے دورے کا سب سے بڑا مقصد جماعت اسلامی کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں تیزی اور الیکشن کے لیے فنڈ ریزنگ تھی۔ ذرائع نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ اس موقع پر ضلع بھر سے 950 ارکان جماعت نے 10 ہزار روپے فی کس کے حساب سے اور جماعت اسلامی کے متمول راہنماؤں محمد دین نسیم نے 2 کروڑ روپے، حاجی جاوید اقبال نے اڑھائی کروڑ روپے، میاں اظہار الحق نے 1 کروڑ روپے چندہ اور ڈاکٹر ارشد شاہد نے حلقہ این اے 66 میں کل انتخابی مہم کے خرچہ کا 75 فیصد اپنی جیب سے ادا کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح مجموعی طور پر تقریباً 15 کروڑ سے زائد کی رقم انتخابی مہم کے لیے جمع کی گئی۔ اس حوالہ سے جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر سراج الحق کا دورہ سرگودھا انتہائی کامیاب رہا اور ارکان جماعت، کارکنان نے پورے جوش و جذبہ کے ساتھ جماعت اسلامی کے امیدواروں کی انتخابی مہم کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔

سدابہار ایم این اے شہنشاہ تعمیرات وفاقی وزیز چوہدری انور علی چیمہ اپنے پورے خاندان سمیت ق لیگ سرگودھا کے چوہدری ہیں۔ انہوں نے NA 67 میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں لیکن اس بار شکست کا خوف بابا جی (چیمہ صاحب) کو بھی لاحق ہوگیا ہے اور وہ اب اپنے سابقہ حلقہ این اے 68 میں الیکشن کا سوچ رہے ہیں۔ NA 68 جہاں سے سردار شفقت بلوچ مسلم لیگ نون کے ایم این اے ہیں، کی بھی مقبولیت ختم ہوچکی ہے اور مسلم لیگ کے پاس اس علاقہ سے مضبوط فرد میسر نہیں۔ جبکہ چوہدری فرخ جاوید گھمن صاحب جو کہ پہلے دو بار الیکشن ہار چکے ہیں وہ آج کل سکرین سے آوٹ ہیں۔ اور اس حلقہ سے مریم نواز یا از خود نواب شریف صاحب کی آمد کی بھی غیر مصدقہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔
 
مسلم لیگ (ق) کے مرکزی صدر، ڈپٹی وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی کا دورہ سرگودھا اس ماہ کے آخر تک متوقع ہے اور وہ اس موقع پر ارکان اسمبلی، عہدیداران، کارکنوں سے ملاقاتیں اور وفاقی وزیر غیاث احمد میلہ کی دعوت پر ان کے حلقہ میں ایک جلسہ عام سے بھی خطاب کریں گے۔ اس بار لگ ایسا رہا ہے کہ سرگودھا کا مکمل نہیں تو بڑا حصہ مسلم لیگ نون کے حصہ میں آ سکتا ہے، اگر قائدین علاقہ کی نوعیت کے مطابق افراد کا چناو کرتے ہیں۔ ماضی میں تو سٹی سرگودھا میں تو پی پی پی مکمل چھائی رہی ہے لیکن اب کے بار ماضی کی تمام اٹھان ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ 
نوٹ: بھیرہ، بھلوال، کوٹ مومن، شاہ پور میں کیا سیاسی حلقہ بندیاں ہو رہیں ہیں، وہ انشاءاللہ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔
خبر کا کوڈ : 220754
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش