0
Saturday 15 Dec 2012 00:04
گلگت میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں

شہید ضیاءالدین کے قاتل شاکراللہ کی رہائی کیلئے ملک اسحاق سرگرم تھا، دیدار علی

شہید ضیاءالدین کے قاتل شاکراللہ کی رہائی کیلئے ملک اسحاق سرگرم تھا، دیدار علی
اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے رکن دیدار علی نے کہا ہے کہ 8 جنوری 2005ء کو سرزمین گلگت میں اتحاد بین المسلمین کے داعی اور پاکستان کے ایک مضبوط حامی علامہ سید ضیاءالدین رضوی کو ایک منظم و گہری سازش کے تحت شہید کیا گیا۔ ہمیں انتہائی دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سات سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک آغا ضیاءالدین شہید کے قتل کیس کے پس پردہ محرکات سے عوام الناس کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ آغا رضوی قتل کیس کی سازش کہاں تیار ہوئی، سازش میں کون کونسی طاقتیں ملوث تھی اور سازش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کن لوگوں کو مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان تمام سوالات کے جوابات ابھی تک منظرعام پر نہیں لائے گئے، جس کی وجہ سے پاکستان سے محبت کرنے والے اور امن پسند عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ خطرناک دہشت گرد شاکراللہ جو چترال میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار ہوا اور تحقیقات کے دوران آغا ضیاءالدین رضوی شہید کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کرنے پر اس دہشتگرد کو گلگت پولیس کے حوالہ کر دیا گیا اور یہاں پر دوران تفتیش آغا ضیاءالدین رضوی شہید کے قتل کا باضابطہ اعتراف بھی اس دہشت گرد نے کیا۔

دیدار علی کا کہنا تھا کہ اس کیس میں شاکراللہ کے علاوہ قتل کیس میں ملوث دیگر لوگوں پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عرصہ سات سال سے کیس زیر سماعت ہے۔ مگر جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت اس اہم اور حساس کیس کا فیصلہ سنانے میں مسلسل تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں، جو معنی خیز ہیں؟ اور اس عرصہ میں اس اہم نوعیت کے کیس کی سماعت کیلئے چار جج تبدیل کئے جا چکے ہیں جبکہ آغا ضیاءالدین رضوی شہید قتل کیس کے ماسٹر مائنڈ قاری ندیم استوری کو اسلام آباد میں ایک عرصہ قبل گرفتار کیا جا چکا ہے، مگر ہماری بار بار کی گزارشات کے باوجود تاحال ماسٹر مائنڈ قاری ندیم استوری کو گلگت منتقل نہیں کیا جا رہا ہے۔

دیدار علی نے کہا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت آغا ضیاءالدین رضوی شہید قتل کیس کے اہم ملزم کو ڈسٹرکٹ جیل کشروٹ گلگت سے ایف سی ہیڈ کوارٹر میں واقع چیتا جیل سکوار منتقل کیا گیا اور وہاں پر نہ صرف قتل کے ہائی پروفائل ملزم کو اہم شخصیت کا پروٹوکول دیا گیا بلکہ ٹی وی، موبائل فون کی سہولیات بھی اس خطرناک اور اہم دہشت گرد کو فراہم کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایف سی اہلکاروں نے قتل کے ملزم شاکراللہ کو اپنا پیش نماز اور خطیب مقرر کرکے باقاعدہ ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہے۔
 
یہ صرف زبانی باتیں نہیں ہیں بلکہ اس حوالے سے ہم نے بارہا صوبائی حکومت، انتظامیہ اور پولیس کو تحریری اور زبانی طور پر آگاہ کرتے رہے اور خبردار کرتے رہے کہ ایف سی کسی بھی وقت اپنے پیش نماز کو وہاں سے فرار کرا دے گی مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے اور حکومت، انتظامیہ اور پولیس کی ملی بھگت سے شاکر اللہ ایک اور اہم دہشت گرد قیدی قاری عارف الدین جو نہ صرف دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں ملوث تھا، بلکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے جیل میں بیٹھ کر دہشت گردوں کو ہینڈ گرنیڈ فراہم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام صحافیوں کے سامنے یہ اہم انکشاف بھی کرتے ہیں کہ ایک عرصہ سے ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم کے امیر اور معروف دہشت گرد ملک اسحاق، شہید آغا ضیاءالدین رضوی قتل کیس میں ملوث اس دہشت گرد شاکراللہ کی رہائی کیلئے کوششوں میں مصروف تھا اور گلگت شہر کی کئی اہم شخصیات سے رابطہ کرکے یہ پیش کش کرتا رہا کہ وہ آٹھ کروڑ روپے تک دینے کیلئے تیار ہے۔ ملک اسحاق نے شاکراللہ کو فرار کرانے کیلئے اپنے منظم دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے ذریعے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی، جیل میں موجود ایف سی اہلکاروں اور دیگر عملہ کو بھاری رقم کے عوض شاکراللہ کو جیل سے فرار کرایا گیا جبکہ منصوبے کے تحت بھاری رقم خرچ کرکے اسی روز گلگت شہر میں احتجاجی مظاہرے کرائے گئے، تاکہ سکیورٹی فورسز شہر میں مصروف رہیں اور شاکراللہ اور اسکے ساتھی کو باآسانی سے گلگت شہر سے نکالا جاسکے۔

دیدار علی کا کہنا تھا کہ آغا ضیاءالدین رضوی کو شہید کرنے کا مقصد گلگت شہر میں دہشت گردی کو فروغ دینا تھا اور دہشت گرد جو اسلام و پاکستان دشمن ہیں، اس سازش میں کسی حد تک کامیاب ہوئے۔ گلگت شہر میں شیعہ سنی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دونوں مکاتب فکر کے عمائدین پرامن ہیں اور علاقے میں قیام امن کیلئے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہینگے۔ مگر ایک دہشت گرد گروپ کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ گلگت شہر میں فرقہ واریت کو فروغ ملے اور بھائی بھائی کا دشمن بن جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی لاہور، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سمیت ملک بھر کی تمام جامعات میں ہر سال یوم حسین علیہ السلام منایا جاتا ہے اور تمام مکاتب فکر کے علماء اس پروگرام سے خطاب کرتے ہیں اور گلگت شہر میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے قیام سے ابتک باقاعدگی سے یوم حسین علیہ السلام منایا جاتا رہا ہے اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ گزشتہ سال کے آئی یو میں یوم حسین علیہ السلام کے پروگرام کے مہمان خصوصی ممتاز عالم دین، وزیراعظم پاکستان کے مشیر مولانا عطاءاللہ شہاب تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کونسا ایسا مسلمان ہوگا جو امام حسین (ع) سے محبت نہ رکھتا ہو، ہر مسلمان نواسہ رسول (ع)، حضرت امام حسین (ع) سے محبت اور عقیدت رکھتا ہے، یوم حسین (ع) منانے پر اعتراض کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر انتہائی دکھ اور افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پورے ملک کے برعکس گلگت شہر میں ایک ایسا گروپ بھی موجود ہے، جو یوم حسین (ع) پر معترض ہوا اور اس سے بھی زیادہ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کی نااہل انتظامیہ نے ایک مٹھی بھر شرپسند گروپ کے دباو میں آکر یوم حسین (ع) کے پروگرام کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ یکم دسمبر سے دس دسمبر تک کے آئی یو کو بند کر دیا گیا، جس کے بعد اس مسئلے کے حل کیلئے ہوم سیکرٹری کی زیر نگرانی ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں دونوں مساجد بورڈز کے نمائندے، یونیورسٹی انتظامیہ کے نمائندوں کے علاوہ ڈی سی گلگت نے بھی شرکت کی، اجلاس میں اتفاق رائے سے کے آئی یو میں ہر سال دو پروگراموں یوم حسین (ع) اور یوم مصطفی (ص) منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 

اس متفقہ فیصلے پر قراقرم یونیورسٹی کی تمام طلباء تنظیموں نے اتفاق کر لیا تھا، جس کے بعد دس دسمبر کو کے آئی یو کو دوبارہ کھول دیا گیا اور خلاف توقع یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اچانک یوم حسین (ع) پر پابندی عائد کرنے کا باضابطہ اعلان کرکے طلباء کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی مگر کے آئی یو کے طلباء نے بدھ کے روز یونیورسٹی کے اندر پرامن انداز میں یوم حسین (ع) منعقد کیا، جس میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات نے بھر پور شرکت کرکے ثابت کر دیا کہ یوم حسین (ع) کسی مخصوص فرقے کا پروگرام نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مٹھی بھر شرپسند گروہ نے یوم حسین (ع) کو جواز بنا کر گلگت شہر کی مختلف شاہراوں کو بلاک کرکے پرتشدد احتجاج شروع کر دیا اور درحقیقت یہ عناصر اسی روز چیتا جیل سکوار سے شہید آغا ضیاءالدین رضوی قتل کیس میں ملوث ملزم شاکراللہ کے فرار ہونے کے واقعہ سے توجہ ہٹانے کی سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھا۔ بدھ کے روز سیکورٹی فورسز اور شرپسندوں کے مابین ہونے والی فائرنگ سے جو انسانی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں، اس پر ہمیں بے حد افسوس ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کے اہلکاروں کے علم میں ہے کہ روڈ کس کی ایماء پر بلاک کئے گئے اور بھاری ہتھیاروں سے سکیورٹی فورسز اور نہتے شہریوں پر فائرنگ کس کی طرف سے کی گئی، مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا پر اسے دو طلباء گروہوں کا تصادم قرار دیا جاتا رہا، حالانکہ یہ ایک شرپسند گروپ اور سکیورٹی فورسز کے مابین تصادم تھا۔ اب یہ حکومت اور انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ تحقیقات کریں کہ دہشت گردوں کے پاس اتنا بھاری اسلحہ کہاں سے آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے نااہلی اور سازش پر پردہ ڈالنے کیلئے یونیورسٹی سے 16بیگناہ پرامن طلباء کو بے دخل کیا گیا ہے۔ جس کی پر زور مزمت کرتے ہیں اور یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس طرح کہ غیرمنصفانہ اور یکطرفہ فیصلے کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔ ہم گزشتہ دنوں سولہ ایم پی او کے تحت بیگناہ و مہذب شہریوں اور ملت جعفریہ کے کارکنان کی گرفتاری کو بھی بلاجواز اور غیر سنجیدہ اقدام تصور کرتے ہوئے انتظامیہ سے فی الفور تمام گرفتار شدگان کی فی الفور رہائی کا بھی پر زور مطالبہ کرتے ہیں۔
 
ہم یہاں واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس علاقے میں مستقل قیام امن، اتحاد بین المسلمین کے فروغ کیلئے ماضی کی طرح آئندہ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہیں گے اور ہماری تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ طبقات اور علماء و عمائدین سے یہ اپیل ہوگی کہ علاقے میں اتحاد و وحدت کے فروغ اور مستقل قیام امن اور انہتاپسندی و دہشت گردی کے مکمل خاتمہ اور اپنے حقوق کے حصول و تحفظ کیلئے ملکر بھرپور عملی کردار ادا کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 221310
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش