0
Thursday 10 Jan 2013 22:41

کوئٹہ ایک بار پھر دھماکوں سے گونج اٹھا، 100 افراد جاں بحق، 200 سے زائد زخمی

کالعدم لشکر جھنگوی نے ذمہ داری قبول کرلی
کوئٹہ ایک بار پھر دھماکوں سے گونج اٹھا، 100 افراد جاں بحق، 200 سے زائد زخمی
اسلام ٹائمز۔ کوئٹہ میں ہونے والی بدترین دہشت گردی اور قیامت صغریٰ کے دوران خودکش اور کار بم دھماکوں میں 100 افراد جاں بحق اور 200  سے زائد زخمی ہوگئے۔ گذشتہ روز باچہ خان چوک میں ایف سی چیک پوسٹ کے قریب سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں ترجمان سمیت 3 ایف سی اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق جبکہ 7 ایف سی اہلکاروں سمیت 50 افراد زخمی ہوگئے جبکہ کوئٹہ کے علمدار روڈ پر واقع سنوکر کلب میں ایک شخص نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا، دھماکے کے بعد پولیس اہلکار، ایدھی کے رضاکار اور صحافی موقع پر پہنچے تو گاڑی میں نصب دھماکہ خیز مواد زوردار دھماکے سے پھٹ گیا، جس سے ڈی ایس پی خان آباد مجاہد علی، سب انسپکٹر ظفر علی، سماء ٹی وی چینل کے رپورٹر سیف، کیمرہ مین عمران شیخ، این این آئی کے فوٹو گرافر اقبال کھوکھر، 9 پولیس اہلکاروں اور ایدھی رضاکاروں سمیت 100 افراد جاں بحق جبکہ 200 افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں ایس پی خالد مسعود بھی شامل ہیں جن کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ 

کوئٹہ میں بم دھماکوں کے خلاف تاجروں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں نے جمعہ کو شٹرڈاون ہڑتال کی کال دیدی۔ مرکزی انجمن تاجران کے صدر محمد رحیم کاکڑ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بلوچستان اور تحفظ عزاداری کونسل نے جمعہ کو مکمل شٹرڈاون ہڑتال کا اعلان کیا ہے جبکہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے صوبے بھر میں 3 روزہ سوگ اور پارٹی پرچم سرنگوں رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ بیورو رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کے علاقے باچاخان چوک پر نامعلوم افراد نے دھماکہ خیز مواد نصب کر رکھا تھا۔ زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ جہاں متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ دھماکے میں سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں سمیت 15 گاڑیاں، 3 موٹر سائیکل اور ایک درجن سے زائد گاڑیاں تباہ ہو گئیں جبکہ اردگرد کی عمارتوں کی کھڑکیوں اور دکانوں کے شوکیسوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ 

دھماکے کے بعد لیاقت بازار میں بھگدڑ مچ گئی اور لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس، فرنٹیئر کور کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ دھماکے کے بعد ہر طرف نعشیں اور زخمی بکھرے پڑے تھے دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلومیٹر تک سنائی دی۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے ذرائع نے بتایا اس بم دھماکے میں 20 سے 25 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال اور دھماکہ ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا دھماکے سے 8 فٹ لمبا، 7 فٹ چوڑا اور 3 فٹ گہرا گڑھا پڑ گیا۔ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے مزید کارروائی شروع کر دی۔ اس بم دھماکے کی ذمہ داری یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کر لی، یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ نے نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ باچا خان چوک پر بلوچ سرمچاروں نے ریموٹ کنڑول بم کے ذریعے ایف سی کو ہدف بنا کر 11 اہلکاروں کو مارا، عوام کو پہلے بھی تنبیہ کرتے رہے ہیں وہ سکیورٹی فورسز و ان کی چوکیوں سے دور رہیں، حملہ کرتے وقت عوام کا خیال رکھا رکھا جاتا ہے، تاہم عوام باز نہیں آتے تو مجبوراً اس طرح کے حملہ کئے جاتے ہیں۔ 

ترجمان نے حملہ کو مشکے آواران، بولان، سریاب و دیگر بلوچ علاقوں میں آپریشن کا ردعمل قرار دیتے ہوئے گذشتہ روز کوئٹہ کے علاقے رئیسانی روڈ پر ہونے والے بم حملہ کی بھی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ اس طرح کے حملے مقصد کے حصول تک جاری رہیں گے۔ پولیس نے مزید بتایا علمدار روڈ پر ہونے والے خودکش اور کار بم دھماکے کے زخمیوں کو فوری طور پر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال اور سول سنڈیمن ہسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں درجنوں زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دھماکوں کے بعد ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے ڈاکٹروں کو فوری طور پر ڈیوٹی پر طلب کرلیا گیا، جنہوں نے زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی۔ دھماکے کے بعد سنوکر کلب کی عمارت زمین بوس ہوگئی دھماکے سے ارگرد کی دکانوں، گھروں اور نجی ٹی وی چینلز کی سیٹلائٹ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ دھماکے اتنے شدید تھے کہ انکی آواز کئی کلومیٹر دور تک سنائی دی۔ 

دھماکوں کے بعد علاقے کو بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی، جس کے باعث امدادی کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دھماکوں کے بعد فرنٹیر کور، پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور کسی بھی شخص کو دھماکوں کی جگہ کی جانب جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی نے قبول کر لی۔ وقت نیوز کے مطابق کالعدم لشکر جھنگوی کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں دھماکے ہم نے کرائے ہیں۔ اے این این کے مطابق کوئٹہ میں متعدد گاڑیاں و موٹر سائیکل تباہ ہو گئی جبکہ جائے حادثات پر انسانی اعضا بکھر گئے، خون میں لت پت زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا۔ حکومت نے واقعات کی فوری تحقیقات کاحکم دیدیا، سی سی پی او کوئٹہ میر زبیر محمود نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا اس وقت جائے وقوعہ پر بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیکنکل ٹیمیں موجود ہیں جو دھماکہ کی نوعیت کے متعلق بتائیں گی۔ 

انہوں نے کہا اس وقت یہ نہیں کہا جا سکتا نشانہ کون تھا البتہ موقع پر سکیورٹی فورسز کی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ انہوں نے کہا واقعہ میں ایف سی اہلکاروں کی زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں البتہ انہیں معلوم نہیں کہ سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق چھولے بیچنے والے ریڑی کے قریب ایک سفید رنگ کی کاٹن پڑی تھی جسے لوگوں نے مشکوک جان کر ایف سی کے حوالے کیا، پہلے ایف سی اہلکاروں نے اسے کھولنے کی کوشش کی اور بعدازاں ٹیم کو طلب کرنے کے لئے کام میں لگ گئی کہ اس دوران زوردار دھماکہ ہوا، اس کے بعد انہیں ہوش نہیں رہا اور جب ہوش و حواس بحال ہوئے تو انہیں ہر طرف خون اور لاشیں بکھری پڑی نظر آئیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ باچا خان چوک پر محنت مزدور کرنے والے افراد خوانچہ فروش اور بھوک مٹانے کے لئے لوگ چاول چھولے، کباب کھانے میں مصروف تھے، جائے وقوعہ پر لوگ سردی سے بچنے کے لئے کوٹ، واسکٹ، جرابیں، گرم ٹوپیاں اور دیگر چیزیں بھی خرید رہے تھے، دھماکہ ہوا تو ہر طرف بھگدڑ مچ گئی اور لوگ چیخ وپکار کرتے نظر آئے۔ 

حکومت بلوچستان نے بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے لئے 10، 10 لاکھ روپے فی کس، پولیس افسروں کے لواحقین کے لئے 20، 20 لاکھ روپے فی کس اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ سی سی پی او کوئٹہ میر زبیر محمود نے کہا ہے کوئٹہ میں قیامت صغریٰ کا منظر تھا، علمدار روڈ پر دھماکوں میں 81 افراد جاں بحق اور 121 زخمی ہوئے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا 9 پولیس اہلکار بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں، جن میں ڈی ای س پی اور ایس ایچ او کی ہلاکت کی تصدیق کرتا ہوں۔ علمدار روڈ پر پہلا دھماکہ خودکش جبکہ دوسرا دھماکہ گاڑی میں ہوا، ای س پی قائدآباد زخمی ہیں، دھماکے کی جگہ پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ 25 نعشوں کی شناخت کر لی گئی ہے۔ کوئٹہ شورش زدہ علاقہ بن چکا ہے، امن و امان کے لئے تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کا مورال بلند ہے، 25 ریسکیو اہلکار بھی جاں بحق ہوئے۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی نے رات گئے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے معمولی نوعیت کا دھماکہ ہوا، اور جب لوگ جائے وقوعہ پر جمع ہوئے تو ہولناک دھماکہ کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں سو سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ 200 سے زائد زخمی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے باچا خان چوک میں دھماکے سے 11 جاں بحق جبکہ 50 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ سید ہاشم موسوی نے ان بم دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کل عام ہڑتال کی کال دی ہے۔
خبر کا کوڈ : 230045
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش