0
Wednesday 27 Mar 2013 21:22

پاکستان، 633 گمشدہ افراد میں سے 317 کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں

پاکستان، 633 گمشدہ افراد میں سے 317 کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں
اسلام ٹائمز۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر سے 600 سے زائد افراد ابھی تک جبری طور پر گمشدہ ہیں جنکے زندہ یا مردہ ہونے کی تصدیق ابھی تک نہیں ہوسکی۔ ان افراد کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اور سکیورٹی ادرے بھی یہ نہیں بتارہے کہ آیا یہ افراد اُن کی تحویل میں ہیں یا نہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا سے 279 افراد لاپتہ ہیں۔ سب سے زیادہ افراد سوات، دیر، پشاور اور مردان کے علاقوں سے لاپتہ ہوئے ہیں، جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے 148 افراد گُذشتہ ڈیڑھ سال سے لاپتہ ہیں، جنکے بارے میں خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حکام کو آگاہ نہیں کیا کہ وہ کن کی تحویل میں ہیں۔ ان افراد کا تعلق پنجاب کے جنوبی علاقوں بہاولپور، بھکر اور میانوالی سے ہے۔

جبری طور پر گمشدہ افراد کے بارے میں وزارتِ داخلہ میں بنائے گئے ایک کمیشن نے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ پیش کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر سے 633 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1000 سے زائد لاپتہ افراد سے متعلق درخواستیں کمیشن کو موصول ہوئی تھیں جبکہ 2010ء کے بعد سے کمیشن نے 316 افراد کو بازیاب کروایا تھا۔ تاہم اس رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ان افراد کو خفیہ اداروں کی تحویل سے آزاد کروایا گیا ہے یا پھر انھیں عقوبت خانوں سے بازیاب کروایا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر موجود نہیں کہ اگر یہ افراد خفیہ اداروں کی تحویل میں تھے تو پھر اُن اداروں کے ذمے داروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے یا مستقبل میں انکے خلاف کارروائی کرنے پر غور کیا جارہا ہے، حالانکہ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں کہ غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان سے اب لاپتہ افراد کی تعداد 48 رہ گئی ہے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گُذشتہ 2 سال سے زائد عرصے کے دوران 42 افراد کو بازیاب کروایا گیا ہے۔
صوبہ سندھ سے ابھی تک 100 افراد لاپتہ ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق کراچی، حیدرآباد اور سکھر سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت سے 36 افراد لاپتہ ہوئے تھے جن میں سے 12 کو بازیاب کروا لیا گیا ہے یا وہ خود ہی گھروں کو لوٹ آئے تھے جبکہ باقی افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں سے 38 افراد کی جبری گمشدگی کے مقدمات سامنے آئے تھے جن میں سے 11 افراد کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ باقی افراد کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا کہ کن اداروں کی تحویل میں ہیں۔
لاپتہ افراد کی تفصیل نیچے ایک ٹیبل کی صورت میں درج ہے۔
گمشدہ افراد
خیبر پختونخوا:            279
پنجاب:                      148
بلوچستان:                 48
سندھ:                     100
اسلام آباد:                20
فاٹا:                         26   
آزاد جموں وکشمیر:      11      
گلگت بلتستان:            1 
 
اٹارنی جنرل عرفان قادر عدالت میں یہ بیان دے چکے ہیں کہ فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کی تحویل میں 700 سے زائد افراد موجود ہیں، تاہم اُنھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اُن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کی بازیابی سے متعلق لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن تحقیقات کر رہا ہے۔

جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن کی کوئی آئینی حثیت نہیں ہے۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ یہ کمشین درخواست گُزاروں کو طلب نہیں کرتا بلکہ خفیہ اداروں کے وکیل کمیشن کے سامنے پیش ہوکر لاپتا افراد سے متعلق درخواستوں کا جائزہ لیتے ہیں، تاہم کمیشن کے چیئرمین ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 249446
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش