0
Tuesday 27 Jul 2010 11:12

پاکستان اور ایران افغان طالبان کی مدد کر رہے ہیں،امریکی خفیہ دستاویز میں الزام،پاکستان نے رپورٹ مسترد کر دی

90 ہزار خفیہ فوجی دستاویزات افشاء،امریکی سلامتی خطرے میں پڑ گئی،وائٹ ہاؤس
پاکستان اور ایران افغان طالبان کی مدد کر رہے ہیں،امریکی خفیہ دستاویز میں الزام،پاکستان نے رپورٹ مسترد کر دی
واشنگٹن:اسلام ٹائمز-وقت نیوز کے مطابق انٹرنیٹ پر خفیہ معلومات جاری کرنے والی ویب سائٹس وکی لیکس افغانستان میں امریکی فوج کی نوے ہزار سے زائد خفیہ معلومات منظر عام پر لے آئی ہے،کہا جا رہا ہے کہ امریکی فوج کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں خفیہ معلومات منظر عام پر آئی ہیں۔ادھر اوباما انتظامیہ نے خفیہ معلومات منظر عام پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دیا۔
برطانوی اخبار” گارڈین“ اور امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز “کی رپورٹ مطابق وکی لیکس نے خفیہ معلومات پر مبنی دستاویزات انہیں اور ایک جرمن ہفت روزہ در سپیگل کو دکھائی ہیں۔خفیہ دستاویزات میں نیٹو نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور ایران افغانستان میں طالبان کی مدد کر رہے ہیں،اور پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کے افغان عسکریت پسندوں سے روابط ہیں۔
امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا کہ غیر اندراج شدہ اطلاعات موجودہ زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتی ہیں۔امریکہ،افغانستان اور پاکستان سٹرٹیجک اتحادی ہیں اور تینوں فوجی اور سیاسی طریقے سے القاعدہ اور اس کی اتحادی طالبان کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے ریکارڈ پر مبنی یہ معلومات افغان جنگ کی خفیہ دستاویزات ہیں۔یہ معلومات میدان میں موجود جونیئر افسران نے مہیا کی ہیں،جو بعد میں پالیسی سازی کے عمل میں استعمال ہوتی ہیں۔ 
اخبارات کے مطابق منظر عام پر لائی جانے والی معلومات میں افغان جنگ کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے، جنہیں پوشیدہ رکھا گیا،یہ شہری طالبان کی جانب سڑک کے کنارے نصب بم اور نیٹو کی ناکام کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔اس کے علاوہ طالبان رہنماوں کے خلاف امریکی فوج کی خفیہ کارروائیوں کی تفصیل شامل ہے۔منظر عام پر لائی گئی معلومات کے مطابق طالبان کو ہوائی جہاز گرانے والے میزائلوں(ہیٹ سیکنگ)تک رسائی حاصل تھی۔امریکی فوج کا ایک خفیہ مشن شدت پسندوں کی اعلی قیادت کو ہلاک یا گرفتار کرنے کی مشن پر ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ دستاویزات میں چونکا دینے والی معلومات نہیں ہیں،لیکن اس سے افغان جنگ کی مشکلات اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ایسی خفیہ معلومات امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اور اس سے ہماری قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔تاہم اس غیرذمہ داری سے امریکہ کے پاکستان اور افغانستان کیساتھ گہرے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑیگا اور نہ ہی مشترکہ دشمن کو شکست دینے کے عزم اور پاکستان و افغانستان کے عوام کی آرزوﺅں کے احترام پر کوئی آنچ آئیگی۔انہوں نے کہا کہ منظرعام پر لائی گئی دستاویزات سال 2004ء سے سال 2009ء تک کی ہیں اور اس وقت تک صدر باراک اوباما نے افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی کا اعلان نہیں کیا تھا۔وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری ہونے بیان کے مطابق پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے دہشت گردوں کے خلاف اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کا عمل جاری رکھیں۔ 
واضح رہے کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے،جب افغانستان میں نیٹو افواج صوبہ ہلمند میں 45 عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات کی تفتیش کر رہی ہے۔لیکس کی رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی نے افغان صدر حامد کرزئی کے قتل،نیٹو کے طیاروں پر حملوں، مغربی فوجیوں کی بیئر میں زہر ملانے اور 2008ء کو بھارتی سفارتخانے پر حملے کے منصوبے بنائے تھے۔آئی ایس آئی نے افغانستان میں خودکش حملوں کیلئے جلال الدین حقانی کو ایک ہزار موٹر سائیکل بھی بھجوائے تھے۔یہ ایجنسی بچوں کو خودکش بمبار بھی بناتی ہے۔اس نے افغانستان کی سڑکوں پر کام کرنے والے بھارتی مزدوروں کے قتل کیلئے 20سے 30ہزار ڈالر کی پیشکش بھی کی تھی۔
پاکستانی خفیہ ادارے کے ترجمان نے بھی ”وکی لیکس“ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں غیر مصدقہ قرار دیا ہے۔ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ آئی ایس آئی نے کبھی ڈبل گیم نہیں کھیلی۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے۔آئی ایس آئی نے ہی کراچی میں طالبان کے نائب کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کو گرفتار کیا تھا۔قابل غور امر یہ ہے کہ ان رپورٹس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔ان پر تبصرہ رپورٹس کو دیکھنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ عبدالباسط نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ وکی لیکس رپورٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔اس رپورٹ سے کوئی چیز سامنے نہیں آئی،اگر کچھ ظاہر ہوا ہے،تو وہ یہ کہ ایسی رپورٹس لکھنے والوں کو ایشوز کی سمجھ ہی نہیں ہے۔افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے پاکستان کے مثبت کردار کو ایسی رپورٹس کے ذریعے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
ادھر افغان حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ رپورٹ پر سنجیدگی سے کارروائی کرے۔افغان حکومت کے ترجمان سیامک ہروائی اور افغان صدر کے ترجمان وحید عمر نے کہا کہ یہ دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ آئی ایس آئی کے القاعدہ کے تمام نیٹ ورکس کے ساتھ تعلق کے بارے میں پہلے سے جانتا تھا،جس پر اب اسے جواب دینا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کو آئی ایس آئی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ خفیہ دستاویزات میں افغان جنگ سے متعلق رپورٹ میں بیان کئے گئے حقائق پر انہیں افسوس ہے۔ افغانستان میں پاکستانی سفیر محمد صادق نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وکی لیکس کی رپورٹ سراسر غلط ہے،ایسی رپورٹیں پاک امریکہ تعلقات کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ 
ترجمان وائٹ ہاﺅس نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان نے شدت پسندوں کے خلاف اہم کارروائیاں کی ہیں۔وائٹ ہاﺅس کے ترجمان رابرٹ گبز نے پریس بریفنگ میں کہا کہ خفیہ دستاویز کا منظر عام پر آنا تشویش کا باعث ہے،ان دستاویز کو منظر عام پر لانا قانون توڑنے کے مترادف ہے،رابرٹ گبز نے کہا کہ ان دستاویز کو منظر عام پر لانے سے افغانستان میں فوجیوں کے لئے خطرات میں اضافے سمیت سکیورٹی اور دیگر آپریشنز متاثر ہو سکتے ہیں۔رابرٹ گبز نے کہا کہ امریکی صدر بارک اوباما کو گذشتہ ہفتے ہی ان دستاویز کے بارے میں مطلع کر دیا گیا تھا،انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کےخلاف جنگ میں قربانیوں کا اعتراف امریکی صدر سمیت تمام عہدیداران کرتے ہیں، افغانستان میں کامیابی کے لئے پاکستان کی معاونت بہت ضروری ہے،پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔ 
پینٹاگون کے ترجمان کرنل ڈیولیپان نے کہا کہ خفیہ راز افشاء ہونے کی رپورٹ سے نقصانات کا جائزہ لینے میں کچھ دن لگ سکتے ہیں،یہ بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اس سے افغانستان میں موجود اتحادی فوجیوں کی زندگیوں کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں،جائزہ لینے میں کتنا وقت لگے گا،اس کا انحصار شائع شدہ مواد کی دستیابی پر ہے۔ امریکی کانگریس کی آرمڈ کمیٹی کے چیئرمین ڈیموکریٹ آئیکے سکیلٹن نے کہا کہ خفیہ رپورٹ میں پاکستان پر طالبان کے حمایت کا الزام نامناسب ہے،طالبان کے خلاف پاکستان کے آپریشن میں شدت آئی ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ مجموعی طور پر پاکستان کے شدت پسندی کے خلاف اقدامات تسلی بخش ہیں۔
پاکستان کے ایوان صدر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ معلومات یک طرفہ ہیں،جن کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی،ایسی رپورٹیں پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے،ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات اور خطے میں استحکام کی کوششوں سے روک نہیں سکتیں۔ جمہوری حکومت کو اپنی فوج پر پورا اعتماد ہے،وہ ملکی قومی پالیسی کے مطابق کام کر رہی ہے۔
دستاویزات کے مطابق جنگجوﺅں کے اجلاس میں آئی ایس آئی کے ارکان بھی شامل ہوتے ہیں اور خاص احکامات بھی جاری کرتے ہیں۔ حمید گل پر حکمت یار اور جلال الدین حقانی نیٹ ورکس کی بحالی کی کوششوں،القاعدہ رہنما الکنی کے ڈرون حملے میں مارے جانے کا انتقام لینے کی منصوبہ بندی کے لئے جنوری 2009ء میں دورہ وانا، طالبان کو پاکستان کی بجائے افغانستان پر توجہ مرکوز کرنے کے مشورے دینے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ایساف فورسز کے جرمن جنرل ایگون رامس نے کہا کہ اب ہمیں زیادہ چوکسی برتنا ہو گی اور بہت احتیاط سے کام کرنا ہو گا۔ 

90 ہزار خفیہ فوجی دستاویزات افشاء،امریکی سلامتی خطرے میں پڑ گئی،وائٹ ہاؤس
واشنگٹن:جنگ نیوز کے مطابق امریکی اور برطانوی اخباروں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان جنگ سے متعلق 90 ہزار خفیہ کاغذات منظر عام پر آگئے ہیں،جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا اور اتحادی افواج افغانستان میں جنگی جرائم میں ملوث ہیں،جبکہ پاکستانی انٹلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ طالبان گروپوں کی سرپرستی کر رہی ہے اور پاکستان کے افغان طالبان سے تعلقات ہیں۔کاغذات کے مطابق پاکستان نے آئی ایس آئی کو طالبان کے ساتھ براہ راست ملاقاتوں کی اجازت دی،جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج نے دوہرا معیار اپنائے رکھا۔اس کام میں پاکستان کو ایران کی معاونت بھی حاصل ہے،رپورٹ میں افغان جنگ کے دوران آئی ایس آئی حکام کی طالبان سے خفیہ ملاقاتوں اور افغان رہنماؤں کو زہر دے کر یا دیگر طریقوں سے ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستانی ایجنٹس طالبان رہنماؤں سے باقاعدگی اور تواتر کیساتھ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔اس حوالے سے امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہا کہ خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانا غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے،رپورٹ افواہ پر مبنی ایک تبصرہ ہے،سویلین حکومت اور فوج دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں۔
دوسری جانب امریکا نے خفیہ کاغذات منظر عام پر آنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی خفیہ معلومات امریکا اور اس کے اتحادیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اور اس سے امریکا کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے،تاہم ایسی رپورٹس سے امریکا اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات متاثر نہیں ہو نگے۔ 
تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق انٹرنیٹ پر خفیہ معلومات جاری کرنے والے ویب سائٹس وکی لیکس نے افغانستان میں امریکی و اتحادی فوج کی 6 سالہ کارکردگی پر مشتمل 90 ہزار خفیہ معلومات افشا کر دی ہیں،جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ امریکی فوج کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں خفیہ معلومات منظر عام پر آئی ہیں۔ دونوں اخباروں کے مطابق وکی لیکس نے خفیہ معلومات پر مبنی دستاویزات انہیں اور ایک جرمن ہفت روزہ در سپیگل کو فراہم کیں۔تاہم وکی لیکس کے بانی جولین اسانگی کا کہنا ہے کہ ان رپورٹس میں اتحادی فوج کے افغانستان میں جنگی جرائم کے ثبوت موجود ہیں،جن کی فوری تحقیقات ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اب یہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ اس میں ایسا کچھ ہے،جسے ہم جنگی جرائم کہہ سکتے ہیں۔کیونکہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق یہ جنگی جرائم ہی معلوم ہوتے ہیں۔ 
رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے بارہا یقین دہانیوں کہ طالبان کے ساتھ تعلقات ختم کر دیئے گئے ہیں،پاکستان نے تعلقات ختم نہیں کئے۔ خفیہ ڈائری کے مطابق ایک طرف تو پاکستان امریکا کا حلیف بن کر سامنے آ رہا ہے،اور دوسری جانب طالبان کی مدد کر رہا ہے۔رپورٹس میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) حمید گل کا ذکر ان کا نام لے کر کیا گیا ہے۔نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ان رپورٹوں میں جتنی مرتبہ ان کا نام آیا ہے اس سے لگتا ہے کہ پاکستانی فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کو ان میں سے چند کا علم ضرور ہو گا۔ان پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں یہ کہ وہ حکمت یار اور جلال الدین حقانی نیٹ ورکس کی دوبارہ بحالی کی کوششیں،جنوری 2009ء میں وانا کا دورہ،تاکہ القاعدہ کے رہنما الکنی کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا انتقام لینے کی منصوبہ بندی کی جائے اور یہ کہ وہ طالبان کو پاکستان کی بجائے افغانستان پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔
امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسی خفیہ معلومات امریکا اور اس کے اتحادیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اور اس سے ہماری قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ 
پاکستان نے انٹیلی جنس اداروں کے طالبان کے ساتھ مبینہ رابطوں کی رپورٹس کو بے بنیاد غیر ذمہ دارانہ،شرانگیز اور زمینی حقائق سے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ مغربی میڈیا کی رپورٹس غلط ہیں،دہشت گردی کے خلاف ہمارے مثبت کردار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے پیر کو اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وکی لیکسن رپورٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور اس رپورٹ سے کوئی بھی ٹھوس اور ایسی چیز سامنے نہیں آئی،جس پر یقین کیا جا سکتا ہو۔ تاہم ان رپورٹس کو پڑھ کر یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ یہ رپورٹس لکھنے والے درحقیقت حقائق سے بے خبر اور ایشوز سے واقف نہیں،انہیں معاملات کا صحیح معنوں میں ادراک ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وکی لیکسن کی اس بارے میں رپورٹ کو قومی سلامتی کے ادارے اور سینئر فوجی حکام نے بھی حقائق کے منافی اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اس پر تاسف کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے پاکستان کے مثبت کردار کو ایسی جھوٹی رپورٹوں سے ہرگز نہیں جھٹلایا جا سکتا۔مغربی میڈیا میں شائع ہونے والی ایسی تمام رپورٹس حقائق کے منافی ہیں۔

خبر کا کوڈ : 32305
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش