0
Saturday 1 Feb 2014 19:57

سندھ، 135 عدالتوں میں کوئی جج نہیں

سندھ، 135 عدالتوں میں کوئی جج نہیں
اسلام ٹائمز۔ باصلاحیت اور قابل امیدواروں کی کمی اور ججز کی تقرری کیلئے سخت معیار کے باعث سندھ کی ماتحت عدلیہ بحران کا شکار ہے۔ قانون کے طالب علموں اور نئے وکلا کی بڑی تعداد مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتی، جس کے باعث انہیں امتحانات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی وجہ سے ماتحت عدلیہ میں تقریبا ایک تہائی عدالتیں جوڈیشل افسران سے محروم ہیں۔ سندھ کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 446 تھی اور خالی عدالتوں کی تعداد 77 تھی لیکن اس سال 58 نئی عدالتوں کی منظوری سے یہ تعداد 505 ہوگئی اور اس طرح اب پورے سندھ میں 135 عدالتوں میں کوئی جج نہیں۔ اس صورتحال کے بارے میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان تصدق جیلانی کی سربراہی میں منعقد ہونے والے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں ماتحت عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ نے بھی ایک رپورٹ تیار کی ہے جو مذکورہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں ماتحت عدالتوں کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 505 ہے جس میں 27 سیشن ججز، 115 ایڈیشنل سیشن ججز، 103 سنیئر سول ججز اور 259 سول ججز و جوڈیشنل مجسٹریٹ کی اسامیاں شامل ہیں مگر فی الحال ماتحت عدلیہ میں 370 ججز ہی موجود ہیں۔ 135 عدالتوں میں ججز نہ ہونے کے باعث ماتحت عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بھی بڑھتا جا رہا ہے، گو کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کی ہدایات کے مطابق ماتحت عدالتوں میں مقدمات نمٹانے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے مگر ججز کی کمی کے باعث سائلین کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ سکا ہے اور انصاف کا معیار بھی متاثر ہوا ہے۔ اس وقت بھی سندھ کی ماتحت عدالتوں میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ خالی اسامیوں میں ایک سیشن جج، 32 ایڈیشنل سیشن ججز، 21 سنیئر سول ججز اور 81 سول ججز و جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالتیں شامل ہیں۔ 

مذکورہ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر لاہور میں منعقد ہونے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں پیش کریں گے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق ماتحت عدلیہ میں تقرری کیلیے امیدوار مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے جس کی وجہ سے عدلیہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مشیر عالم اور موجودہ چیف جسٹس مقبول باقر نے متعدد بار اس امر کا اظہار کیاہے کہ نااہل ججوں کی تقرری سے خالی عدالتیں ہی بہتر ہیں۔ اس حوالے سے قابلیت اور معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس مقبول باقر نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی اس بات کو دہرایا تھا کہ ایڈیشنل سیشن ججز کی تقرری کیلئے 1500 امیدواروں میں سے صرف 3 ہی کامیاب ہوئے اور ان کی قابلیت پر عدلیہ فخر نہیں کر سکتی۔ 

اطلاعات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے روبرو یہ سفارش بھی زیر غور ہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ سسٹم کے تحت ہونے والے امتحان میں کچھ نرمی کی جائے اور اسے قدرِ آسان بنایا جائے تاہم اس سفارش کو تاحال پزیرائی نہیں مل سکی ہے۔ جامعہ کراچی کے ڈین آف لاء قاضی خالد ایڈووکیٹ اور سنیئر قانون دان خواجہ نوید احمد ایڈوکیٹ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ قانون کی تعلیم دینے والے اداروں کا معیار بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم مطلوبہ تعداد میں قابل وکیل تیار نہیں کر پا رہے۔ قانونی عدالتی حلقوں میں یہ بھی تاثر عام ہے کہ کراچی میں قانون کی تعلیم دینے والے تینوں کالجز ایس ایم لاء کالج، اسلامیہ کالج اور جامعہ اردو میں قانون کی تعلیم کیلیے شام کی کلاسز ہوتی ہیں جسے جز وقتی تعلیم کے طور پر لیا جاتا ہے جبکہ نجی سیکٹر میں قائم کئے گئے لاء کالجز کا بھی نمایاں کردار سامنے نہیں آیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 347461
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش